- پاکستان کے 75ویں جشن آزادی کا آغاز، سبز ہلالی پرچموں کی بہار
- جشن آزادی کے موقع پر گوگل نے پاکستانی پرچم کے رنگ سجالیے
- وادی سوات میں کالعدم ٹی ٹی پی کے مسلح افراد کی موجودگی مبالغہ آرائی ہے، آئی ایس پی آر
- فوج کے کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، وزیر دفاع
- عالمی جونیئراسکواش چیمپئن شپ؛ پاکستان کے حمزہ خان کی کوارٹرفائنل میں رسائی
- روس ٹیلر کا آئی پی ایل کے حوالے سے اہم انکشاف
- ایشین مینز والی بال کپ؛ پاکستان کی آسٹریلیا کے خلاف فتح
- امریکا سے دوستی جاہتا ہوں لیکن غلامی ہرگز نہیں، عمران خان
- پاکستانی پیراک نے فری اسٹائل ایونٹ کے فائنل میں جگہ بنالی
- سعودی عرب کا پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات کے لیے 10 کروڑ ڈالر فراہم کرنے پر غور
- عمران خان اور پاک فوج کے تعلقات بہتر ہوگئے ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب
- سعودی قیادت کی پاکستان کے 75ویں یوم آزادی پر مبارک باد
- وزیراعظم شہبازشریف نے ایک بار پھرمیثاق معیشت کی پیشکش کردی
- سندھ کے 9اضلاع آفت زدہ قرار
- کراچی: 15اگست تک گرج کے ساتھ بارش کا امکان، 16سے نیا سلسلہ شروع ہوگا
- تقسیم برصغیر دیکھنے والے بزرگ آبیتی بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے
- پاکستانی ایتھلیٹ شجر عباس دو نئے ریکارڈز سے محروم
- کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ تیز
- ملک دشمن عناصر یوم آزادی پر دہشت گردی کرنا چاہتے ہیں، وزیر اعلیٰ بلوچستان
- کراچی:2022کی سب سے بڑی چوری میں ملوث مرکزی ملزم گرفتار
نظام بدلنا ہوگا

پاکستان میں ہر ادارے، ہر محکمے میں کرپشن ہورہی ہے۔ (فوٹو: فائل)
پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ چند ماہ پہلے تو ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے۔ یہاں بھی سری لنکا جیسے حالات پیدا ہونے والے تھے۔ مگر موجودہ حکومت نے مہنگائی کے ذریعے اس حالت پر کچھ نہ کچھ قابو پالیا۔
پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ اب بھی روزانہ کی بنیاد پر وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ہمیں خوش خبری سناتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے تک پہنچ چکے ہیں۔ یعنی ان کے خیال میں یہ عوام کےلیے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ مگر نہ حکمران اور نہ ہی عوام یہ سوچتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف نے نیا قرضہ دے دیا تو پھر اس کی بھی ادائیگی کرنی ہے۔
پاکستانی سیاستدان ملکی مفاد کےلیے کم اور ذاتی مفاد کےلیے زیادہ سوچتے ہیں اور اسی سوچ نے ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہوا ہے کہ اب ہم بیرونی قرضوں کےلیے بھی خوش ہوتے ہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ پاکستان کو کورونا کی وجہ سے معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس سے پہلے جو تیس ہزار ارب قرضہ لیا تھا وہ کیوں لیا تھا؟ قرض تو انسان اس بنیاد پر لیتا ہے کہ شاید اچھے دن آجائیں تو اس قرض کو چکتا کیا جائے گا۔ اور پھر وہ اپنے حالات بدلنے کےلیے دن رات محنت کرتا ہے، خون پسینہ بہاتا ہے اور پھر کہیں جاکر وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ مگر ہم تو قرض پر قرض لیتے جارہے ہیں اور ملک میں بدحالی بڑھتی جارہی ہے۔ چند خاندان امیر سے امیر تر ہورہے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہورہے ہیں۔ ہم تو بس قرض کےلیے انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی قرض مل جاتا ہے تو ہم اس کو ہڑپ کرجاتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ کل اس کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔
پاکستان میں بے انتہا کرپشن ہے۔ ہر ادارے، ہر محکمے میں کرپشن ہورہی ہے۔ کوئی منصوبہ ایسا نہیں جس میں کرپشن نہ ہورہی ہو۔ ہم کوئی ایسا پروگرام ہم بناتے ہی نہیں جس میں کرپشن کا موقع نہ ہو۔ ہماری ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ کیسے ملکی خزانے کو لوٹا جائے۔ جو بھی منصوبہ بنتا ہے اس میں سب سے پہلے کرپشن کا موقع تلاش کرنا ہوتا ہے۔ کرپشن کے اس گھناؤنے کام میں سیاستدانوں سمیت بیوروکریسی بھی پوری طرح ملوث ہے۔ مملکت خداداد میں چپڑاسی سے لے کر وزیراعظم تک کسی کا دامن صاف نہیں۔ ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کا کام قانون سازی اور پالیسی سازی ہے، مگر یہاں تو کلاس فور بھرتیاں بھی وزار اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور گزشتہ کئی ادوار سے اس ضمن میں الزامات لگائے جاتے ہیں کہ ممبران اسمبلی اور اعلیٰ افسران سرکاری نوکریوں میں بھی مال بٹورتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا ہر منصوبہ صرف کرپشن کے خیال سے شروع کیا جاتا ہے، خواہ وہ اسکول بنانا ہو یا اسپتال بنانا۔
اسی وجہ سے ہمارے اکثر منصوبے ناقص میٹریل سے بنتے ہیں اور نااہل افراد سرکاری نوکریوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔ جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ کیونکہ اکثر منصوبے چند سال بعد ناکارہ ہوجاتے ہیں اور ان کو دوبارہ بنانا پڑتا ہے اور نااہل افراد جو کہ اکثر رشوت دے کر بھرتی ہوتے ہیں وہ اپنی پوسٹ پر براجمان ہوتے ہی کرپشن اور رشوت خوری کی اس بہتی گنگا خود بھی شامل ہوجاتا ہے۔
ہر غلط کام کی روک تھام ممکن ہے مگر اس کےلیے خلوص سب سے اولین شرط ہے۔ ہمارے ملک میں مخلص لوگوں کو آگے آنا ہوگا، اس کے بعد ہی ہمارا ملک حقیقی جمہوری اور فلاحی ریاست کے طرف قدم بڑھا سکتا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے پالیسی بدلنا ہوگی۔ ممبران اسمبلی اپنے ووٹرز کو خوش کرنے اور اپنی کرپشن کےلیے راستہ ڈھونڈتے ہیں اور ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کرتے ہیں جس پر ملک کا کثیر سرمایہ خرچ ہوجاتا ہے مگر اس سے کسی فرد واحد کو تو شاید فائدہ ہو مگر مجموعی طور پر اس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تمام ترقیاتی منصوبے متعلقہ محکموں کے ذریعے کرانے چاہئیں۔
ہر محکمے کے افسر اعلیٰ کےلیے بھی سخت قانون بنایا جائے کہ اگر اس کے محکمے میں چپڑاسی نے بھی رشوت یا کرپشن کی تو آپ کو بھی سزا بھگتنی ہوگی۔ سخت قوانین بنائے جائیں تو ناممکن نہیں ہے کہ ملک کے حالات ٹھیک نہ ہوجائیں مگر اس کے لیے موجودہ نظام بدلنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔