بنات النعش اورسگوں کے سگے 

سعد اللہ جان برق  جمعرات 7 جولائی 2022
barq@email.com

[email protected]

آج جس جانورکاذکر کرنامنظورہے اس کانام توعام ہے لیکن زیادہ مشہوربھونکنے کی وجہ سے ہے لیکن ہم اس کااپنا خاندانی نام نہیں لیں گے کیوں کہ عورت کو لیڈی یامیڈم کہاجائے، لڑکی کو ’’مس‘‘ درزی کو ٹیلراور اندھے کو بلائنڈکہاجائے توخوش ہوتا ہے،بوڑھے بوڑھے لوگوں کو سینئرسیٹزن اورصاحب لوگوں کو سریا سرجی کہاجائے تو اچھالگتاہے۔

اس لیے ہم بھی اسے ’’سگا‘‘کہیں گے کیوں کہ کچھ لوگ اسے اتناسگے رکھتے ہیں کہ سگوں میں شمارکرتے ہیں، باقاعدہ نام رکھتے ہیں اورہاتھوں ہاتھ لیے پھرتے ہیں،لیکن کچھ لوگ اسے بالکل ناپسند کرتے ہیں جیسے انڈیا میں دھرمیندراورسنی دیول یاہمارے اپنے علامہ بریانی عرف برڈفلو۔

علامہ بریانی کاکہناہے کہ یہ اتنانجس جانورہے کہ اگر کسی گھرمیں اس کاایک بال بھی پڑاہوتو اس گھرمیں فرشتے نہیں آتے بلکہ برکتیں بھی چلی جاتی ہیں۔اس موقع پر ہم نے عرض کیاکہ اگر وہ ’’بال‘‘کسی کی آنکھ میں ہو، سورکے بال کی طرح تو ؟بولے پھر وہ چشم گل چشم بلکہ ’’یک چشم گل‘‘ ہوجاتاہے۔یہ ذکر ہم نے دانستہ اس لیے چھیڑاتھا کہ باقی سب کی طرح دونوں میں اس جانورسے متعلق بھی انتہائی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اتنے شدید کہ اتنے شدید اختلافات ان جانوروں میں بھی نہیں ہوں گے۔

چشم گل چشم عرف کوئڈ نائنٹین نہ صرف علامہ کے اس ناپسندیدہ جانورکو پسند کرتاہے بلکہ پالتابھی ہے لڑاتابھی ہے اوران کاعلاج معالجہ بھی کرتاہے، اس لیے وہ تمام صفات وہ اس جانورمیں بتاتاہے جو انسانوں میں مفقود ہوتی جا رہی ہیں بلکہ ایک نئی بات جو قہرخداوندی اپنے علامہ بریانی عرف برڈ فلو کے بارے میں کہتاہے وہ یہ ہے کہ علامہ جھوٹاہے، منافق ہے، خود اس نے بے شمار ’’سگے‘‘پالے ہوئے ہیں لیکن گھر کی بجائے اس نے ان کو ’’اپنے منہ‘‘ میں پال رکھاہے اورلوگوں پر چھوڑتا رہتاہے ۔اس نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ علامہ نے اپنے منہ میں پالے ہوئے ’’سگوں‘‘کو کئی بار چھوڑاہے بلکہ جیسے ہی موقع ملتاہے اپنے منہ کے دوچار سگے مجھ پر چھوڑدیتاہے۔

یہاں سے بات کو ایک بدصورت موڑدے کر وہ کرنٹ افئیرپر لے آتاہے اورکہتاہے کہ صرف علامہ ہی کیا۔آج کل پاکستان کے لوگوں میں یہ رحجان بہت زیادہ ہے یعنی اپنے منہ میں ’’سگے‘‘ پالنا اوردوسروں پر چھوڑدینا۔خاص طورپر سیاست میں تقریباً ہرلیڈرکے منہ میں دوچارسگے ہروقت چل پڑتے اور کسی پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ اور بھی ایسے آدمی رکھتے ہیں جن کے منہ میں خطرناک سگے ہوتے ہیں جنھیں ’’ترجمان‘‘یامعاون بھی کہا جاتا ہے اوریہیں سے ہمارے ذہن میں ایک اوراس سے ملتی جلتی بات ’’کلک‘‘ہوئی لیکن اسے واضح کرنے کے لیے ہمیں مرشد کی مدد لینا پڑے گی جو فرماتے ہیں کہ ؎

تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں

رات ان کے جی میں کیاآئی کہ عریاں ہوگئیں

انھوں نے ’’بنات النعش گردوں‘‘ ستاروں کو کہا ہے کہ دن کو پردے میں نہاں رہتے ہیں اوررات کو عریاں ہوجاتے ہیں اوراس سارے معمے کا حل لفظ ’’بنات النعش‘‘ہے ،بنات النعش کاسیدھاترجمہ تو ’’لاش کی بیٹیاں ‘‘ہوتاہے یا دختران میت۔لیکن یہ قدیم ایران اورکسی حد تک قدیم ہند میں بھی جاری ایک روایت ہے،اس زمانے میں امیرامرا جب مرجاتے تھے توعام لوگوں کی توعید ہوجاتی تھی کہ خس کم جہاں پاک۔ان کی میت پر کون روتا،چنانچہ اس غرض کے لیے کرائے کی ماتم گسار اوررونے والی عورتوں کو ہائر کیا جاتاتھا وہ سب لاش کے گرد بیٹھ جاتیں اورماتم کا وہ پرفارم کرتیں کہ شور مچ جاتا ’’کہ دل ہوا بوکاٹا‘‘

عبدالرحمان چغتائی نے غالب کے اس شعرپر مصوری کرتے ہوئے وہ کمال کی بنات النعش دکھائی ہے کہ بہت سوں کادل چاہے گاکہ اگر ایسی بنات النعش ہوں تو زندہ رہنے سے کیافائدہ ،خیریہ کرائے کی ماتم گساروں، رونے والوں وغیرہ کی تو اب کاروباری کمپنیاں ہواکرتی ہیں اور ہمیں میتوں یا بنات النعش سے کچھ لینا دینا بھی نہیں لینا دینا ہمیں کرائے کے سگوں سے ہے کیوں کہ کچھ عرصے سے سیاست میں اورخاص طور پر بڑوں میں یہ رواج بہت چل نکلاہے حالانکہ وہ خود بھی کچھ کم نہیں ہوتے، ان کے منہ سے بھی بیک وقت کئی کئی سگے نکل کر مخالفوں کا تیاپانچہ کرتے ہیں۔لیکن اگرچیزمفت ہوتو کیاکہنے، خرچہ پانی تو ویسے بھی کالانعاموں کے چمڑے سے ہوتا ہے، اس لیے اگر اپنی مدد کے لیے کچھ تعداد بڑھائی جائے ، تو کیامضائقہ ہے ۔

مفت ہاتھ آئے تو براکیاہے؟

البتہ ان کے لیے بنات النعش کی طرح کوئی باقاعدہ کام بھی رکھناچاہیے ،سگے بھائی یاسگوں کے سگے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔