گوشہ ئِ محمد خالد اختر

امجد اسلام امجد  جمعرات 7 جولائی 2022
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

کتابی سلسلہ ’’ کراچی ریویو‘‘ کا شمارہ نمبر5اور 6اس وقت میرے سامنے ہے جس کی پیشانی پر جلی الفاظ میں’’خصوصی گوشہ محمد خالد اختر‘‘ درج کیا گیا ہے مگر لطف کی بات یہ ہے کہ عملی طور پر یہ پورا شمارہ ’’محمد خالد اختر‘‘ کے بارے میں ہے البتہ آخرمیں اور کہیں کہیں کچھ گوشے دیگر تحریروں کو بھی دیے گئے ہیں اور یوں یہ عمل محمدخالد اختر مرحوم کی اُس زیر لب تمسخر آمیز مسکراہٹ سے ملتا جلتا ہے جو ان کی تحریر اور شخصیت دونوں کا تعارف بن گئی تھی۔

خالد صاحب سے بالمشافہ تعارف تو ستّر کی دہائی میں ’’فنون‘‘ کے دفتر میں ہوا جہاں وہ ہمیشہ سیّدمحمد کاظم کی رفاقت میں پائے گئے لیکن اُن کی تحریروں سے تھوڑی بہت واقفیت ایم اے اُردو کے زمانہ سے چلی آرہی تھی وہ طبعاً بھی کم آمیز تھے اور ہمار اگروپ بھی عمر کے اعتبار سے ان سے بہت جونیر تھا چنانچہ خاصے عرصے تک یہ ملاقاتیں سلام دعا سے آگے نہ بڑھ سکیں، انھی دنوں میں شفیق الرحمن صاحب سے رابطہ ہوا جو میرے پسندیدہ ترین ادیبوں میں سے تھے اور ہیں اُن کی تعریف اور گفتگو ہی ایک پُل کی طرح ہمیں محمد خالد اختر کے قریب لے آئی اور پھر اُن کی تحریر اور شخصیت کا نشہ کچھ ایسا چڑھا کہ وہ بیک وقت ہمارے محبوب ترین ادیبوں اور انتہائی مشفق سینئر دوستوں کے مختصر گروہ کا حصہ بن گئے۔

وہ اپنی تحریروں، تراجم ، اور مسودّوں وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے سلسلے میں خاصے بے پرواہ تھے یہ کمال اُن کے احباب شفیق الرحمن، احمد ندیم قاسمی ، سیّد محمد کاظم، علی عباس جلال پوری، رشید احمد خان ، اکرام اللہ ، ظہور نظر، راؤ ریاض، محمد سلیم الرحمن اور آگے چل کر کراچی کے دوستوں اجمل کمال ، مشرف ذوقی اور سیّد کاشف رضا کا ہے کہ وہ اس ضمن میں اُن کا ہاتھ بٹاتے اور خبر گیری کرتے رہے اور یوں اُردو دنیا اس ہمہ جہت اور انوکھے مختلف اور صاحبِ طرز ادیب کی تحریروں سے امیر اور فیض یاب ہوسکی ۔

اُن کی زندگی کے آخری چند سال کراچی میں گزرے وہ بزرگوں کی اُس نسل سے تھے جو خطوں کا فوری اور مفصل جواب لکھنا اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھتے تھے میرے پاس ان کے بہت سے خطوط ہیں جن میں سے زیادہ تر بہاول پور سے لکھے گئے ہیں ان کے خط لکھنے کا بھی اپنا ہی انداز تھا اور وہ اس ضمن میں کسی باقاعدہ کاغذ یا لیٹر ہیڈ وغیرہ کا بھی اہتمام نہیںکرتے تھے اکثر وہ کسی کاپی یا ڈائری کے صفحات پر لکھے گئے ہیں جن میں سے کچھ میں نے اپنے نام آنے والے خطوط کے مجموعے ’’قاصد کے آتے آتے ‘‘ میں شامل بھی کیئے ہیں۔

اتفاق سے گزشتہ کچھ عرصے سے ان کے بینکر اور انگریزی میں لکھنے والے بڑے بیٹے ہارون اختر سے میرا رابطہ ہو ہے جنھیں میں نے آخری بار غالباً کوئی چالیس برس قبل شادمان لاہور والے گھرمیں دیکھا تھا ان کی طبیعت اور شخصیت کی کیمسٹری میں تنہائی پسندی ،علاحدگی، ایڈونچر، خاموشی اور اپنی ذات میں مست رہنے کے عناصر نے انھیں زندگی بھر خواہش کے باوجود ایک مجلسی انسان کی طرح وقت گزارنے کا موقع نہیں دیا، سو ہم نے دیکھا کہ لڑکپن اور جوانی میں وہ اپنے والد کے تیار کردہ دائرے سے نکلنے کی کوشش میں مصروف رہے اور آگے چل کر اپنی خانگی اور ازدواجی زندگی میں بھی اسی طرح کی کشمکش اُن کے ساتھ ساتھ رہی اسی شمارے کی اکثر تحریروں میں آپ دیکھیں گے کہ ان سے ملنے والے ان کی تنہائی اور کتابوں سے غیر معمولی محبت کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔

انھوں نے جو بھی کچھ لکھا اُسے اعلیٰ ادب کے قارئین نے بہت شوق دلچسپی عزت اور رغبت سے پڑھا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ غریب اور عام آدمی کی زندگی کی مشکلات کا کثرت سے ذکر کرنے کے باوجود وہ عوامی انداز کے رائٹر نہیں بنے۔ میرے نزدیک جس طرح کچھ شاعر، شاعروں کے شاعر ہوتے ہیں اسی طرح محمد خالد اختر کو بھی ادیبوں کا ادیب کہنا چاہیے۔ فیض صاحب اُن کے ناول ’’چاکی واڑہ میں وصال‘‘پر فلم بنانا چاہتے تھے جو نہ بن سکی، خود میں نے بھی ستّر کی دہائی میں ان کے کردار ، چچا عبدالباقی پر لکھی گئی کئی کہانیوںکی ڈرامائی تشکیل کی مگر اسے بوجوہ وہ عوامی پذیرائی نہ مل سکی اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد میں اس کی وجوہات پر غورکرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ میری ناتجربہ کاری کے ساتھ ساتھ ان کرداروں کی نوعیت ایسی تھی جن میں کیمرے سے زیادہ مائیکروفون یا اندازِ نگارش کی وہ خوبیاں زیادہ حاوی تھیں جن کا تعلق دیکھنے سے زیادہ سننے اور پڑھنے سے تھا۔

اسی طرح ان کا کسی تحریر کی پیروڈی کرنے کا انداز بھی بالکل مختلف اور اپنا ہے، اُن کی کتاب 2011 جو مشہور انگریزی کتاب’’1984‘‘ کے انداز میں لکھی گئی سائنس فکشن ، طنزیے اور پیروڈی کا ایک مجموعہ کہی جاسکتی ہے لیکن غور کیا جائے تواس میں بھی علامتی سطح پر عام آدمی کی طاقت ور اور ظالم حکمرانوں کے جبر اور اُن اقدار کی بات کہی گئی جن کا زوال اُسے ایک دفعہ پھر جاندار سے جانور کی سطح پر واپس لے جاسکتا ہے ۔

محمد خالد اختر کے سفر نامے ا ور تراجم ایک ایسی نثر کے نمونے ہیں جس کا پہلا اور بنیادی ڈھانچہ انگریزی زبان اور اس کے محاورے سے بے حد متاثر ہے اور اس اعتبار سے یہ اُردو ادب میں ایک دلچسپ اضافہ بھی ہے۔ کراچی ریویو سے اس نمبر میں اُن کے بارے میں بہت سی تحریریں جمع کی گئی ہیں جو سب کی سب اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں مگر مجھے سب سے زیادہ متاثر خالد بھائی کے ایک ہم عصر دوست اکرام اللہ (جن سے مجھے بھی باہمی محبت کا افتخار حاصل ہے ) اور اس شمارے کے مرتب سیّد کاشف رضا کے مضامین نے کیا ہے کہ دونوں تحریریں محمد خالد اختر کی شخصیت اور ادبی مقام کو بہت خوش اسلوبی سے نہ صرف متعارف کراتی ہیں بلکہ قاری کے دل میں ان تحریروں کو خود سے پڑھنے کے شوق کو بھی مہمیز دیتی ہیں۔

ان کی بیٹی سارہ کی مختصر تحریر اس محمد خالد اختر کو سامنے لاتی ہے جسے وہ خود زندگی بھر اپنی خاموشی کے دامن میں چھپانے کی کوشش کرتے رہے اپنے رفتگاں کی خوب صورت یادوںکو ایک سنجیدہ اور باوقار اندازمیں محفوظ کرنا اور انھیں بعد کی نسلوں سے متعارف کرانا ایک ایسا ضروری اور قیمتی کام ہے جس سے پوری دنیا فیض اٹھاتی ہے مگرہمیں بوجوہ بہت کم اس کی توفیق ہوتی ہے۔ اس کتاب میں محمد خالد اختر کی زندگی، شخصیت ، مزاج ،ادبی مرتبے اور انداز ِ تحریر کو جس خوش اسلوبی اور توازن سے ایک جگہ پر جمع کردیا گیا ہے وہ بلا شبہ ایک قابلِ تحسین کام ہے اور یقیناً محمد خالد اختر کی روح کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کی پیدا کردہ تحسین خوش اور سرشار کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔