دھرتی کا قرض

شبیر غوری  جمعـء 15 جولائی 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

فرزند ِ سرزمین جسے ہم حرف عام میں سن آف سوائل کہتے ہیں، اِس اصطلاح کو ایک مخصوص طبقے نے اپنے نام پر الاٹ کرا لیا ہے اور کراچی جو دنیا کے بہت سے ممالک سے آبادی اور کچھ ممالک سے رقبے کے اعتبار سے بھی ایک بڑا شہر ہے۔

یہ واحد شہر ہے جہاں کی بنیادی مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے مسلسل سیاسی کوششیں اور انتظامی بد دیانتی کی جاتی رہی ہے۔ کئی دہائیوں سے جاری اس سازش کے خلاف کچھ آوازیں لگوائی جاتی رہی ہیں اور اب بھی لگائی جاتی ہیں۔

آوازیں لگوانے والے تو یہ سب کچھ اپنے مفادات کے تحفظات ’’تقسیم جمع تقسیم برابر تقسیم‘‘ کے فارمولے کے تحت حاصل کر لیتے ہیں مگر جب آوازیں توانا ہو کر امپلی فائر کے کنٹرول سے نکل کر فائبر ٹیکنالوجی کی طرح وائر لیس ہو کر ایک اکائی میں ڈھل جاتی ہیں تو ان کو خریدنے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے کچھ غیر ملکی قوتیں بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے آگے آجاتی ہیں اور وہی آواز اکائی کے دائرے سے دوبارہ منقسم آوازوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

کراچی کی نمایندہ جماعت ایم کیو ایم کو ایک مضبوط آواز میں تبدیل دیکھ کر ایسی ہی کچھ قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آگے آئیں کہ یہ جماعت اپنے اصل ہدف سے ہٹ کر مختلف سمتوں میں تقسیم ہوگئی اور آواز بنانے والوں کو دیر سے یہ خیال آیا کہ ان کے مقاصد سے بات آگے نکل گئی ہے تو پھر عروج کو زوال کی طرف سفر کرنا پڑگیا۔ کراچی جسے برطانوی دور میں بھی ایک ساحلی شہر ہونے کے ناتے بڑی اہمیت حاصل تھی۔

تقسیم ہند کے بعد وفاقی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے اسے مزید اہمیت حاصل ہوگئی اور اس اہمیت کے پیچھے ایک خاص امر ان مہاجرین کی کراچی ہجرت تھی جو ہندوستان سے کراچی کثیر تعداد میں پہنچے تھے۔ اگرچہ حیدرآباد، سکھر اور میر پورخاص سمیت سندھ کے چھوٹے بڑے قصبوں میں بھی مہاجرین کی بڑی تعداد نے ہجرت کی مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہندوستانی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور آگرہ، دہلی، رام پور، سہارنپور، مراد آباد، علیگڑھ اور راجستھان جیسے علمی اور تہذیبی ہندوستانی مراکز کے لوگ کراچی کا حسن و تہذیب سنوارنے یہاں آموجود تھے۔

75 سال کے دوران مہاجرین کی چار نسلیں ان شہروں میں پیدا ہوکر جوان ہوئیں مگر قیام پاکستان کے صرف 25 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ان شہروں کو سندھ کا اربن حصہ بنا کر ایک ایسا قانون نافذ کیا جس کے تحت تعلیمی اداروں میں داخلوں سے سرکاری اداروں میں ملازمتوں تک اربن علاقوں کے نوجوانوں کا کوٹہ مخصوص کردیا گیا۔

ایک طرف یوں ہو رہا تھا مگر دوسری طرف پاکستان کے ہر صوبے اور بالائی علاقوں کے ساتھ ساتھ اندرون سندھ کے دیہی علاقوں کی آبادی کو کراچی سمیت سندھ کے اربن علاقوں تک رسائی دی جاتی رہی تھی جس کے نتیجے میں سندھ کے یہ اربن علاقے اپنی ہی مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرتے رہے اور ایم کیو ایم جسے جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے حکومتی سپورٹ مہیا کی تھی ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر ملک میں وفاقی حکومت سازی اور سندھ میں صوبائی حکومت کی تشکیل کا ناگزیر جز قرار پائی۔ مہاجرین نے کراچی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایک بہت بڑا طبقہ کاروبار سے منسلک ہونے کے باعث خوشحال ہو چکا ہے۔ کراچی چونکہ بندرگاہ ہونے کے ناطے ملک کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے، اس لیے اس شہر کی اس تجارتی حیثیت کا فائدہ مہاجروں کو بھی پہنچا۔ کاروبار سے منسلک ہونے کے باعث مہاجروں کی ایک تعداد بہت زیادہ خوشحال ہو چکی ہے اور وہ کراچی کی تجارتی کمیونٹی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد کراچی نے بہت ترقی کی، یہاں بہترین سڑکوں کا جال بچھایا گیا، بڑی تعداد میں فیکٹریاں لگائی گئیں، جس سے یہاں روزگار کے بہت زیادہ مواقع پیدا ہوئے، روزگار کے ان وسیع مواقع کو دیکھتے ہوئے ملک بھر سے مزدوروں اور بے روزگاروں کی ایک بڑی تعداد نے یہاں کا رخ کیا۔ کراچی میں آنے کے بعد بہت سے غریب لوگوں نے آہستہ آہستہ معمولی سطح پر اپنے کاروبار شروع کیے، انھوں نے دن رات محنت کی اور اپنے کاروبار کو ترقی دی، ان لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد اب خوشحال ہو چکی ہے اور کراچی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کے ماحول میں رچ بس چکی اور کراچی کو اپنا گھر سمجھتی ہے۔

ایم کیو ایم نے سندھ سمیت پاکستان میں متوسط طبقے کی سیاسی سوچ کو بیدار کیا اور مالدار اور صاحبِ ثروت لوگوں کی سیاست کو توڑ کر شہری علاقوں سے مڈل کلاس قیادت فراہم کی اور وہ فرزند سرزمین قومی سیاست کے دھارے میں شامل کیے جو آج بھی سیاست میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ یہ سارے گوہر سیاست فرزند سرزمین بھی ہیں اور سیاسی افق کے چمکتے ستارے بھی اور ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ اور پاکستان میں ہی ہے۔

ایم کیو ایم نے عام آدمی میں سیاسی شعور پیدا کیا اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا سکھایا۔ ایم کیو ایم واحد سیاسی جماعت ہے جو کراچی میں مہاجروں کی طاقتور نمایندہ جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اس نے مہاجروں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بہت کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مہاجروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے قائدین کی آواز پر ہمیشہ لبیک کہا اور ان کو ہر معاملے میں سپورٹ کیا۔ سیاست اور وزارت میں سیاست دانوں کو ایسے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں جنھیں مخالفین اپنے اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں اور اس مثل کے مصداق ’’روکو مت جانے دو‘‘ کی طرز پر تشریح کرتے ہیں حکومت میں نہ ہوں تو’’روکو۔ مت جانے دو‘‘ پڑھا جاتا ہے اور حکومت میں ہوں تو ’’روکو مت۔ جانے دو‘‘ سمجھا جاتا ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں بھی دیں، شہر کے امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے کراچی پولیس کو 10 جدید وائر لیس لگی کاریں اور ٹریفک سارجنٹس کو 100 موٹر سائکلیں بھی دی تھیں، کراچی کے فرزند ہونے کا قرض اتارنے کے لیے اپنے اختیار سے کلفٹن کا انڈر پاس بھی تعمیر کروایا اور قیوم آباد کا سہ منزلہ فلائی اوور بھی بنوایا، مائی کلاچی کا کراسنگ پل بھی بنوایا، متعدد انڈر پاسز کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے سڑکیں عبور کرنے والے اوور ہیڈ برجز بھی تعمیر کروائے اور پورٹ قاسم، کے پی ٹی اور دیگر اداروں میں بھی ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے۔

ایم کیو ایم کے لیڈر ایک معتدل مزاج کی سیاست کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے بھلائی کی ایک مثبت سوچ رکھتے ہیں اور ایسی سوچ کے حامل لوگ یقیناً انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق کسی بھی غلطی کے مرتکب ہوسکتے ہیں لیکن ان کی سوچ کی اجتماعیت ان کے انفرادی رویے پر حاوی رہتی ہے۔ ایسے سیاستدان قابل تحسین ہیں جو اپنے فرزند سرزمین ہونے کا فرض نبھاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔