بے بسی کانفرنس

اکرم ثاقب  جمعـء 15 جولائی 2022
جس پر کوئی ایکشن نہ لیا جاسکے اس پر محض پریس کانفرنس بلا لی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

جس پر کوئی ایکشن نہ لیا جاسکے اس پر محض پریس کانفرنس بلا لی جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

پریس کانفرنس ایک بہت ہی سنجیدہ اور کارگر چیز ہوا کرتی تھی۔ سیاستدان، بیوروکریٹ، سرکاری اہلکار، سب اس سے نہایت خوفزدہ ہوا کرتے تھے۔ جب کوئی بڑی شخصیت، کوئی بھی آدمی کسی کو دھمکی لگانا چاہتا تو وہ کہتا تھا کہ میں نے اس سلسلے میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا ہے، تمہیں پتہ چل جائے گا۔ اور واقعی پتہ چلتا تھا۔ لوگوں کو سزا جزا ہوا کرتی تھی مگر کیبل کی تاسیس کے بعد اس موئی پریس کانفرنس میں بھی وہ دم خم نہیں رہا۔

ہماری رائے کے مطابق اس کا رواج تب عام ہوا جب لوگوں پر جھوٹے کیس بنے یا بنانے پڑے۔ عوام کو سچ دکھانے کےلیے سرکاری اہلکار وزیر اس ملزم کے ساتھ ایک میڈیا کانفرنس کرتے۔ اس طرح پہلے پہلے عوام مطمئن ہوجاتے۔ پھر سوشل میڈیا کا دور آگیا، جس میں ایک ہی بات کو ہر پارٹی اپنی اپنی طرح سے پیش کرنے لگی اور سب کا سچا جھوٹ یا جھوٹا سچ سامنے آنے لگا۔

کسی جگہ آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ اگر 1947 سے پہلے سوشل میڈیا ہوتا تو مسلمان کبھی باہر گلیوں میں نہ آتے بلکہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا چلا کر ہی تحریک آزادی کا ہر اول دستہ بنتے اور انگریز کو ایسی کھری کھری سناتے کہ اس کے ہاتھوں کے طوطے کیا سارے پرندے ہی اڑ جاتے۔ اس سوشل میڈیا کے دور میں سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کی کھلی آزای دے کر ماہرین عمرانیات اور حکمران طبقے نے ایک نفسیاتی چال چلی ہوئی ہے۔ جو بھی مخالف ہوگا حکومت کا، اپوزیشن کا، یا پالیسی کا، وہ اپنی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکال لے گا اور دو چار سنانے کے بعد اس کے جذبات کی تطہیر ہوجائے گی۔ سوشل میڈیا کو بھی ایک استعمال کنندہ مل جائے گا جو بزعم خود یہ سمجھے گا کہ اس کا لکھا ہوا ہر لفظ مذکورہ فرد تک پہنچ چکا ہے۔ حالانکہ جس شخصیت کو ہم برا بھلا کہنا چاہتے ہیں اس نے یہ القابات اکٹھا کرنے کےلیے ایک تھیلی مطلب ملازم رکھا ہوتا ہے، جو برے القابات کو ڈیلیٹ یا تبدیل کرکے تعریفی کلمات ہی صاحب تک پہنچاتا ہے۔ کوئی کوئی یہ سارے نام اپنی ڈائری میں بھی لکھ لیتا ہے تاکہ بوقت حکومت انتقام لے سکے۔ ویسے ہمارے خیال میں ڈائری میں نام لکھنے والوں کو دوسرا موقع ملا نہیں کرتا۔ اور یوں دونوں خوش۔ اب یہ کام پریس کانفرنس سے لینے کا ارادہ کیا جارہا ہے۔ کوئی بھی ایشو ہو اس پر ایک پریس کانفرنس کردو فرض ادا ہوگیا۔

کثرتِ پریس کانفرنس ک بدولت اس پریس کانفرنس کا وہ اثر نہ رہا جو پہلے تھا۔ کیونکہ گزشتہ چند حکومتوں کے دور میں پریس کانفرنس جیسے ایک رسم سی بن گئی۔ کنٹینر کی سیاست سے پہلے یہی کچھ پریس کانفرنس میں کرنے کی روایت ڈالی گئی، دن کو پریس کانفرنس کی جاتی اور رات کو کنٹینر پر کھڑے ہوکر چند پرفارمنسز کے بعد الزام تراشی۔ یہ الزام تراشی کا سلسلہ پھر کنٹینر سے حکومت میں آکر بھی جاری رکھنا پڑا کیونکہ سارے کا سارا دارومدار اسی الزام تراشی پر تھا۔

اپنی چوریاں چھپانے کا مجرب نسخہ یہی ہوتا ہے کہ دوسروں پر الزام لگاتے رہو اور خود وہی جرم سرعام کرتے رہو۔ بڑبولوں سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ اس سلسلے کو دوام بخشنے کےلیے پھر حکومتی نمائندے اسکرین پر آکر اپنی پسند کے اینکرز کو بلا کر کاغذ لہراتے اور الزام لگا کر چلے جاتے۔ ایسے لوگ موسم کی تبدیلی کا پہلا اشارہ دیکھ کر ہی رفو چکر ہوجاتے ہیں کہ کہیں وہ بھی اسی پریس کانفرنس کا شکار نہ ہوجائیں۔ اب وزرا اور مشیروں کو عادت سی ہوگئی اس کانفرنس کی۔ کچھ وزیر تو ایسے تھے کہ ان کی ساری کارکردگی ہی الزام کانفرنس تک محدود تھی۔ ایک صاحب روزانہ اسکرین پر آکر کانفرنس کرتے رہے اور ہر کانفرنس یہ بتانے کےلیے کہ وہ سولہ سترہ مرتبہ وزیر بن چکے ہیں، جب کہ ان کی اپنی پارٹی کے پاس ایک آدھ سیٹ ہی ہوا کرتی ہے۔ اس سے ان کے اخلاق اور سیاسی اصولوں کے پیمانے کا اندازہ لگالیجئے۔

ان سابقہ ادوار کی دیکھا دیکھی اب یہ رواج سا چل پڑا ہے کہ روزانہ ایک پریس کانفرنس کی جائے۔ یہ پریس کانفرنس ایسے لازمی ہوچکی ہے جیسے کسی ڈاکٹر نے نسخہ لکھ کر دیا ہو کہ ایک پریس کانفرنس صبح، ایک شام۔ ہر مسئلے کا حل پریس کانفرنس۔ سیلاب آجائے پریس کانفرنس، جنگل میں آگ لگ جائے پریس کانفرنس، آئی ایم ایف قرضہ نہ دے پریس کانفرنس، ڈالر کا ریٹ کنٹرول نہ ہو پریس کانفرنس، پٹرول کی قیمت بڑھانی ہو تو پریس کانفرنس، اپوزیشن کی کرپشن پکڑی جائے تو اپوزیشن کو نہیں پکڑتے کیمرے والوں کو پکڑ کر پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ کوئی ایک دہائی سے یہ رواج شروع ہوا ہے اور دن بدن اس رویے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اس وقت سارے مسائل کا حل اور ہر الجھن اور پریشانی کا مداوا پریس کانفرنس میں مضمر ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ سرکار یا اپوزیشن کی جانب سے کسی کو برا بھلا بھی کہنا ہو تو اس کےلیے بھی پریس کانفرنس ہی بلائی جاتی ہے۔ پہلے پہلے جب اپنی پارٹی کے وزیر پریس کانفرنس کرنے آتے تھے تو دل میں ایک امید سی جاگ اٹھتی تھی کہ اب کسی مجرم کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہونے جارہا ہے۔ اب ضرور ملک دشمن عناصر کی بیخ کنی شروع ہوجائے گی کہ ان کے بارے میں پریس کانفرنس ہوگئی ہے۔ دو چار ایسی ہی کھوکھلی اور بے سود کانفرنسوں کے انعقاد کے بعد جب کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تو ہم نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ شاید یہ کوئی نیا کھیل ہے جس میں مہارت کےلیے اس کا مظاہرہ روزانہ نیوز چینلز پر کیا جاتا ہے یا پھر کوئی آن لائن لیکچر کا حصہ ہے جس کی ٹریننگ ملک کی نامور شخصیات دینے آتی ہیں کہ اس کی آئیڈیل شکل واضح ہوجائے۔

اب ہمیں تو یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ جس پر کوئی ایکشن نہ لیا جاسکے اس پر ایک پریس کانفرنس ہی کر ڈالیں تاکہ عوام کو اور اینکر پرسنز کو اپنا شو چلانے کا مواد مل جائے۔ بات باتوں باتوں میں چلتی رہے اور اگلے دن کےلیے ایک بے بسی کانفرنس کا انعقاد ممکن ہو، جس میں کل والی کی مزید وضاحت کی جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اکرم ثاقب

اکرم ثاقب

بلاگر ایک شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ ہلکے پھلے انداز میں سنجیدہ بات کہتے ہیں۔ زندگی کا ہر پہلو انہیں عزیز ہے۔ انگریزی، اردو اور پنجابی میں لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر ہینڈل @akramsaqib پر فالو کیا جاسکتا ہے جبکہ ان کی فیس بُک آئی ڈی akram.saqib.18 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔