پہلوان کا کھلا چیلنج اور کرکٹ

سلیم خالق  پير 18 جولائی 2022
کسی نے یہ نہ سوچا کہ بھائی اس غیرملکی ریسلر کے گھر پر کیا پاکستانی اردو اخبار آتا تھا جو تمہارے چیلنج کو قبول کرتا۔ فوٹو فائل

کسی نے یہ نہ سوچا کہ بھائی اس غیرملکی ریسلر کے گھر پر کیا پاکستانی اردو اخبار آتا تھا جو تمہارے چیلنج کو قبول کرتا۔ فوٹو فائل

برسوں پہلے مجھے کسی نے ایک واقعہ سنایا تھا،ان کے مطابق ایک پاکستانی پہلوان نے عالمی شہرت یافتہ ریسلر کو چیلنج دیا اور ملکی اردو اخبار میں روزانہ اشتہار چھپواتے رہے،پھر چند روز بعد خود ہی اعلان کردیا کہ ’’مجھے چیلنج کا کوئی جواب نہ ملا دیکھا میں کتنا بڑا پہلوان ہوں سب مجھ سے ڈرتے ہیں‘‘ یوں ان کی واہ واہ ہوگئی۔

کسی نے یہ نہ سوچا کہ بھائی اس غیرملکی ریسلر کے گھر پر کیا پاکستانی اردو اخبار آتا تھا جو تمہارے چیلنج کو قبول کرتا،میں نہیں جانتا کہ اس واقعے میں کتنی صداقت ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں، ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ کے مصداق ہم اپنی عوام سے کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں، بیچارے شائقین کرکٹ تو بہت ہی سادہ ہیں، ان کی یادداشت بھی زیادہ ساتھ نہیں دیتی اور جلدی بھول جاتے ہیں، جیسے موجودہ چیئرمین رمیز راجہ نے آتے ہی ڈراپ ان پچز سمیت کئی باتیں کیں پھر ان پر یوٹرن لے لیا۔

چار ملکی ٹورنامنٹ کا شوشہ چھوڑا جس میں دیگر بورڈز سے سپورٹ نہ ملی، پی ایس ایل فرنچائزز کو 81 کروڑ روپے فی ٹیم منافع کا اعلان کیا مگر اخراجات منہا کرنا بھول گئے، شاید آپ لوگوں کو یاد نہ ہو میڈیا میں کچھ عرصے قبل بھارتی بورڈ کے سیکریٹری جے شاہ کا ایک بیان آیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگلے آئی سی سی فیوچر ٹور پروگرام میں آئی پی ایل کیلیے ڈھائی ماہ کی ونڈو خالی چھوڑی جائیگی،جس وقت بی سی سی آئی دیگر بورڈز کے ساتھ اس حوالے سے رابطہ کر رہا تھا۔

پی سی بی پی ایس ایل فرنچائزز کیلیے کوڈ آف کنڈکٹ بنانے کیلیے شور مچا رہا تھا،بڑی آئی پی ایل ونڈو کا براہ راست نقصان پاکستان کو ہوگا کیونکہ دیگر ممالک کے پلیئرز بھارتی لیگ میں حصہ لیتے ہیں اور بورڈز کو بھی حصہ ملتا ہے،ہر سال ڈھائی ماہ ہماری ٹیم کو فارغ رہنا پڑے گا، اس پر پی سی بی نے شور مچایا کہ ہم آئی سی سی کی میٹنگ میں بات کریں گے، سادہ لوح عوام پھر خوش ہو گئے، کیا چیتا چیئرمین ملا ہے جو سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر سکتا ہے۔

ابھی میٹنگ شروع ہوئی نہیں کہ نیا ایف ٹی پی سامنے آ گیا جس میں آئی پی ایل کیلیے ونڈو کی تصدیق ہو گئی، انگلینڈ اور آسٹریلیا نے بھی اپنے ٹورنامنٹس کے لیے ونڈو مختص کرا لی، مگر ہم خالی ہاتھ رہ گئے، پی ایس ایل اگلے کئی برس الگ تاریخوں پر ہوتی رہے گی،بعض اوقات تو لیگ کیلیے ہمیں اپنی انٹرنیشنل سیریز ملتوی کرنا پڑیں گی، اگلے سال پی ایس ایل کے دنوں میں فروری میں ہی چار دیگر لیگز بھی جاری ہوں گی، اتنے عرصے سے پی سی بی کی توجہ مبذول کرائی جاتی رہی کہ امارات لیگ بڑا خطرہ بنے گی مگر کسی کی توجہ نہ دی۔

اب جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور اپنے کھلاڑیوں کو کروڑوں کی آفرز ہونے لگیں تو کہا جا رہا ہے کہ آئی سی سی سے لیگز کی بڑھتی تعداد پر بات کریں گے، ہونا کچھ نہیں ہے مگر شائقین واہ واہ ضرور کریں گے کہ کیا زبردست چیئرمین ہے، اگر کوئی پی سی بی سے پوچھ لے کہ بھائی خود آپ کی تین لیگز پی ایس ایل، کے پی ایل اور پی جے ایل ہیں ،ساتھ قومی ٹی ٹوئنٹی کپ بھی ہوتا ہے، آپ کس منہ سے تعداد کم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں تو کیا جواب دیں گے؟

بورڈ کو اب کچھ کر کے دکھانا چاہیے، عوام کیلیے بیانات جاری اوردعوے کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں، دیگر بورڈز سے تعلقات بہتر بنائیں، اپنے مفادات کو ترجیح دیں، آخری لمحات پر جاگنے کے بجائے پہلے ہی مستقبل کی پیش بندی کریں، صحافیوں کے سامنے سچ رکھیں کہ ابھی ہم کچھ نہیں کر سکتے مگر کوشش کریں گے کہ خود کو ایسا بنائیں کہ ہماری بات مانی جائے،مگر افسوس کہ میڈیا کو تو کبھی اعتماد میں ہی نہیں لیا جاتا، جب آئی سی سی کی گذشتہ میٹنگ کے بعد لاہور سے ایک صحافی نے بورڈ کی اعلیٰ شخصیت کو کال کر کے تفصیلات پوچھیں تو جو جواب ملا وہ یہاں تو کیا کہیں بھی تحریر کرنے کے قابل نہیں۔

میڈیا ڈپارٹمنٹ نے کوئی پریس ریلیز بھی نہیں چلائی کہ میٹنگ میں کیا ہوا تھا، ایسے میں جب غیرملکی نیوز ایجنسی نے خبر جاری کی کہ چار ملکی ٹورنامنٹ کے حوالے سے پاکستانی تجویز مسترد ہو گئی تو سب نے اسے شائع کیا، بعد میں رمیز راجہ نے شکوہ کیا کہ بھارتی نیوز ایجنسی کی خبر پر ہیڈ لائن بنا دی گئی، اگر وہ غلط تھی تو اسی وقت کیوں بورڈ نے وضاحت نہ کی تھی؟

دراصل ہم مانیں یا نہ مانیں عالمی کرکٹ میں ہمارے دوست بہت کم ہیں، جو ہیں ان بیچاروں کی اتنی اہمیت نہیں کہ فیصلوں پر اثر انداز ہونے میں کردار ادا کر سکیں،ایسے میں ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھی نہیں بیٹھے رہ سکتے، ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلیے ہرممکن اقدامات کرنا ہوں گے، سب سے پہلے پی ایس ایل کو مضبوط بنائیں،فرنچائزز سے اختلافات ختم کریں، انھیں ریجنز کا نمائندہ یا ملازم نہیں بلکہ اپنا ساتھی سمجھیں جو آپ کو ہر سال اربوں روپے دیتی ہیں،لیگ میں اسٹار کرکٹرز کو مدعو کریں، اس کیلیے معاوضے بڑھانے پڑیں تو بڑھائیں۔

پلیئرز سے رابطے کیلیے کسی بڑی شخصیت کا تقرر کریں جس کی بات سنی جاتی ہو، ہم یو اے ای لیگ کے برابر رقم تو نہیں دے سکتے مگر کوشش تو کرنی چاہیے، جب آپ جونیئر لیگ کے مینٹورز کو 15 دن کے ایک،ایک کروڑ روپے دے سکتے ہیں تو غیرملکی سپراسٹارز تو اس سے بڑی رقم کے حقدار ہیں،آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ و دیگر سے معاہدے کریں کہ ہم اپنے پلیئرز آپ کی لیگز کیلیے ریلیز کریں گے آپ بھی پی ایس ایل میں اپنے کھلاڑیوں کی شمولیت یقینی بنانے میں تعاون کریں۔

یو اے ای ہمارا قریبی دوست ہے،مشکل وقت میں اس نے بہت ساتھ دیا اور پاکستان کی انٹرنیشنل کرکٹ و لیگ برسوں امارات میں ہوتی رہی، اس کی لیگ میں پاکستانی کرکٹرز کو کھیلنے سے روکنا مسئلے کا حل نہیں، آپ کیسے اپنے اسٹارز کو 12،12 کروڑ روپے چھوڑنے کا کہہ سکتے ہیں،لڑنے کے بجائے اماراتی بورڈ سے مذاکرات کریں، جنوبی افریقہ سے بھی بات کریں تاکہ لیگز کی تاریخیں متصاوم نہ ہوں کیونکہ اس میں سب کا نقصان ہے، نجم سیٹھی، وسیم خان، احسان مانی ان سب کو بھی ان کے دور میں سوشل میڈیا پر ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا آج انھیں کون یاد کرتا ہے۔

اب رمیز راجہ ہیرو ہیں، انھیں چاہیے کہ دکھاوا نہ کریں بلکہ حقیقت میں کچھ ایسا کر جائیں کہ یاد رکھا جائے، کم از کم جب تک بورڈ میں ہیں تب تک تو ایسا کریں، سبز باغ نہ دکھائیں حقیقی اقدامات کریں ورنہ جب عہدہ نہ ہوا تو یہ تعریفیں کرنے والے بھی غائب ہو جائیں گے، یقین نہ آئے تو سابق بورڈ سربراہان کو ہی دیکھ لیں شاید کچھ سبق مل جائے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔