کیا پی ٹی آئی کا ’’بیانیہ‘‘ جیت چکا ہے؟

سالار سلیمان  منگل 19 جولائی 2022
پنجاب نے اپنا ووٹ اور اعتماد پاکستان تحریک انصاف کو دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پنجاب نے اپنا ووٹ اور اعتماد پاکستان تحریک انصاف کو دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ضمنی انتخابات کے نتائج حیران کن ہیں۔ پنجاب نے مسلم لیگ ن کے بیانیہ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ پنجاب نے اپنا ووٹ اور اعتماد پاکستان تحریک انصاف کو دیا ہے۔ الیکشن سے قبل تک میرا خیال تھا کہ مسلم لیگ ن کو 9 سے 12 سیٹیں مل جائیں گی جبکہ بقیہ سیٹیں پی ٹی آئی اور آزاد امیدواروں میں تقسیم ہوں گی۔ لیکن نتائج نے 75 فیصد سیٹیں پاکستان تحریک انصاف کو دی ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ مجھ سمیت سب کے ہی تجزیے ایک سو اسی ڈگری غلط کیسے ثابت ہوئے؟ وہ کون سی وجوہات رہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کی مدفن سیاست کو کفن سے نکال کر چوک میں کھڑا کردیا؟

سب سے پہلے تو جو بھی تجزیات رہے، ان کی بنیادیں کچھ اور تھیں، اس میں ذاتی ذرائع کی خبریں تھیں، اس میں سینئرز کے تجزیات بھی تھے اور اس میں اپنا مشاہدہ بھی تھا۔ پی ٹی آئی کے اپنے ذرائع کہہ رہے تھے کہ ہمیں 10 سے 12 سیٹیں مل جائیں گی اور میں انہیں کہہ رہا تھا کہ آپ کو 6 سے 8 سیٹیں ملیں گی۔ یہ 20 کی 20 سیٹیں حقیقت میں پی ٹی آئی کی ہی تھیں، اس کے ہی منحرف اراکین نے عثمان بزدار اور عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے حمزہ شہباز کا پنجاب اسمبلی میں ساتھ دیا تھا اور اس کے بعد کورٹ کے احکامات کے مطابق یہ ڈی سیٹ ہوئے تھے اور پھر رولز کے مطابق یہاں پر ضمنی الیکشن کا انعقاد ہوا تھا۔ یہ مسلم لیگ ن کے نزدیک اُس کے کمزور حلقے تھے اور اگر انہوں نے یہاں سے بھی 4 سے 5 سیٹیں حاصل کرلی ہیں تو پی ٹی آئی کےلیے بھی سوچنے کا مقام ہے اور مسلم لیگ ن کےلیے بھی یہ سوچنے کا مقام ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنی ساری سیٹیں واپس حاصل کرنی چاہیے تھیں اور مسلم لیگ ن کو ان میں سے بھی 10 سے 12 سیٹیں لینی چاہیے تھیں۔ اب ہم پی ٹی آئی کی حیران کن فتح اور مسلم لیگ ن کی بدترین شکست کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔

اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد انتظار نہیں کیا اور سیدھا عوام میں اپنا مقدمہ دائر کیا تھا۔ یہی کام نواز شریف نے بھی 2017 کی جولائی میں کیا تھا۔ اس وقت تو حکومت ن لیگ کی ہی رہی تھی لیکن یہاں پر حکومت پی ٹی آئی کی نہیں تھی۔ عمران خان نے اپنی ساری کارکردگی ایک خط میں لپیٹ کر عوام کو دی اور عوام نے اس کو قبول کیا۔ عمران خان نے جلسوں کی ایک بہترین سیریز لانچ کی۔

ان جلسوں میں ایک ہی بیانیہ بار بار بیچا جاتا تھا کہ ’’اُن‘‘ کے نیوٹرل ہوجانے کے بعد عمران خان کی حکومت کو ختم کیا گیا ہے اور یہ ملک کے ساتھ اچھا نہیں ہوا ہے۔ عمران خان نے ’’اُن‘‘ کے بہت سے نام بھی رکھے، جلسوں میں ان کو للکارتے بھی رہے اور یہ بیانیہ مقبولیت حاصل کرتا گیا۔ یہ ’’ان‘‘ کو کبھی جانور کہتے، کبھی نیوٹرل کہتے، کبھی ان کو میر جعفر اور میر صادق کہتے اور کبھی مسٹر ایکس اور وائی کہتے لیکن ہر جلسے میں عوام کو یہ باور کرواتے کہ میری اصل میں لڑائی کس کے ساتھ ہے اور پھر کمال مہارت سے اپنی لڑائی کو عوام کی لڑائی بنادیا۔

عوام نے یہ تاثر قبول کیا کہ عمران خان اگر غلط ہوتا تو وہ ہم میں واپس نہ آتا، وہ بھی لندن نکل جاتا، لیکن چونکہ یہ ہم میں موجود ہے اور بیرون ملک جا کر پارٹی نہیں چلا رہا، لہٰذا یہ غلط نہیں ہے۔ پنجاب کے عوام شاید ’’اُن‘‘ کے خلاف ہیں اور یہی وجہ تھی جب نواز شریف نے گوجرانوالہ کے جلسوں میں ’’اُن‘‘ کو نام لے کر مخاطب کیا تھا تو انہوں نے پی ڈی ایم کی تحریک کو ایندھن فراہم کیا تھا۔ مسلم لیگ ن بھی تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے ضمنی انتخابات جیت رہی تھی۔ ڈسکہ کا مشہور الیکشن تو یاد ہوگا جب دھند میں گم ہوا الیکشن اپوزیشن نے جیت لیا تھا۔ لہٰذا پہلا بڑا فیکٹر جو پی ٹی آئی کی جیت میں اہم کردار ادا کرتا رہا، وہ پی ٹی آئی کا ’’اُن‘‘ کے خلاف میدان میں اترنا تھا۔ ’’اُن‘‘ کے خلاف حالیہ لڑائی اصل میں تو ن لیگ، جمعیت علمائے اسلام اور پیپلز پارٹی نے لڑی، بعد میں ڈیل کی اور اقتدار میں آگئے۔ پی ڈی ایم اپنے ٹائم ایسے بیانیہ نہیں بیچ سکی تھی جیسا پی ٹی آئی نے بیچا ہے۔

اس کے بعد پی ٹی آئی نے اینٹی امریکا نعرہ بھی بیچا۔ عوام نے اس کو بھی ہاتھوں ہاتھ خریدا۔ جماعت اسلامی سے بڑا کوئی اینٹی امریکا ہے؟ اس کو اس ضمنی انتخابات میں 10 ہزار ووٹ بھی نہیں پڑے اور پی ٹی آئی کی 75 فیصد سیٹیں ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن پی ٹی آئی کی پولیٹیکل مینجمنٹ اور مارکیٹنگ دیگر تمام جماعتوں سے سب سے بہتر اور متاثر کن ہے۔ وہ جو بھی بیانیہ بناتی ہے، وہ مقبولیت حاصل کرتا ہے۔ جو ٹرینڈ پی ٹی آئی سیٹ کرتی ہے، سب اس کی پیروی کرتے ہیں۔

اس کے بعد دوسرا قصور مہنگائی کا طوفان اور پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا ناقابل یقین اور ہوشربا اضافہ رہا۔ پٹرول کی قیمتوں کا تعلق 4 سو سے زائد شعبہ جات سے ہے۔ پٹرول کی قیمتیں جب بڑھتیں تو وہ انتہائی ظالمانہ اور بھدے انداز سے بڑھتی تھیں۔ مفتاح اسماعیل مسکراتے ہوئے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے تھے اور عوام کو اس سفاکیت سے دشمنی تھی۔ اس کے بعد لوڈشیڈنگ نے زندگی محال کردی۔ آپ اعداد و شمار کو فی الحال سائیڈ پر رکھ کر عوامی نقطہ نظر سے سوچیے تو لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اور جس کی حکومت ہے، وہی اس کا ذمے دار ہے۔ ان عوام مخالف اقدامات نے بھی مسلم لیگ ن کو ٹھیک ٹھاک ڈینٹ ڈالا تھا۔ جب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تھی تو عوام کو امیدیں تھیں کہ ن لیگ ویسی ہی کارکردگی دکھائے گی جیسا کہ ماضی میں دکھاتی رہی ہے لیکن جب اس کے بالکل ہی برعکس ہوا تو پھر عوام نے اس کو یکسر مسترد کردیا۔

تیسری بڑی وجہ منحرف اراکین رہے، جنہیں ن لیگ نے ٹکٹ دیا تھا۔ دیہی علاقوں کی سیاست شہری سیاست سے بالکل الگ ہے۔ وہاں ذات برادریاں اہم ہوتی ہیں۔ منحرف اراکین کو ٹکٹ نے بھی شکست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اگلے انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ کی ویلیو وہی ہوگی جو کل تک تھی؟ یا ان نتائج کے بعد اس کی ڈیمانڈ میں کمی آجائے گی؟ میرا خیال ہے کہ ن لیگ کی گولڈن ٹکٹ اب عام ٹکٹ میں بدل چکی ہے اور شاید اس کی وہ قدر بالکل نہ ہو جو پہلے کبھی تھی۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر آج عام انتخابات کا اعلان ہوجائے تو سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کا ہوگا۔ مجھے خطرہ ہے کہ جیسا ڈینٹ اس کی سیاست کو ان ضمنی انتخابات میں لگا ہے، وہ اس کو عام انتخابات میں بھی اثر دے سکتا ہے۔ اس حکومت کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں ہے کہ وہ ڈالر کو 120 اور پٹرول کو 100 روپے پر لا سکے۔ اس کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں جو لوڈشیڈنگ کو فوری طور پر صفر کرسکے۔ یہ فیکٹرز اب اس کے گلے میں پڑ چکے ہیں اور اگر عام انتخابات ہوجاتے ہیں تو یہ اس کے گلے کی ہڈی بھی بن جائیں گے۔ اس وجہ سے مجھے امید ہے کہ موجودہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ مرکز میں کسی طرح سے اکتوبر تک حکومت رکھی جائے کیونکہ اس کے بعد پاکستان کے بالائی علاقوں میں برفباری کی وجہ سے عام انتخابات ممکن نہیں ہوتے۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے ضمنی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرلینا اس بات کی عکاسی ہے کہ انہیں بھی ادراک ہے کہ کس فیکٹر نے ان کو کہاں نقصان پہنچایا ہے۔ مریم نواز کی کل رات کی ٹویٹ مناسب اور متناسب تھی۔ پاکستان کی سیاست البتہ اب غیر یقینی صورتحال کا شکار رہے گی۔ پنجاب کی حد تک دونوں جانب سے آخری زور لگایا جائے گا کہ وزیراعلیٰ اپنا رکھا جائے۔ مسلم لیگ ن کےلیے یہ ایک جنگ ہے اور اس کا جیتنا اس کےلیے بہت مشکل ہے۔ ضمنی انتخابات نے پنجاب اسمبلی میں بیلنس آف پاور بد ل دیا ہے۔ حمزہ شہباز اگر 8 سے 10 اراکین تحریک انصاف کے استعفے پیش کر بھی دیتے ہیں تو بھی نمبرز گیم اب اتنی آسان نہیں ہے۔ اگر پنجاب مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے تو پھر مرکز میں ان کو حکومت کرنے کا کیا حق حاصل ہے؟ پھر پی ڈی ایم کو وزارت عظمیٰ اور تین سے چار اہم وزارتیں اپنے پاس واپس لینی چاہئیں اور پیپلز پارٹی کو سونپ دینی چاہئیں، کیونکہ سندھ میں تو پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہوگی۔

یہ غیر یقینی کی صورتحال اب ڈالر کو مزید بے قابو کرے گی اور اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ذرا سی بھی اوپر گئیں تو حکومت کو یہاں بھی بڑھانا پڑیں گی اور بچپن میں جو سو پیاز اور سو جوتوں والی مثال ہم نے پڑھی تھی، اس کی عملی تصویر یہ حکومت بن جائے گی۔

مسلم لیگ ن کی سیاست کو بظاہر بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور ایسی صورتحال میں عام انتخابات ان کےلیے تابوت بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اب شاید صرف میاں نواز شریف کی واپسی ان کی سیاست کو بچا سکتی ہے لیکن وہ بھی واپس آکر کیا کریں گے جبکہ حکومت تو ان کی اپنی ہے اور ویسے بھی میاں نواز شریف کی واپسی اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب وہ خود واپس آنا چاہیں گے۔ تاہم، یہاں ایک اہم سوال ہے کہ میاں نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں؟ حالات اور حقائق تو ان کے سامنے بھی ہیں۔ اب، ان کے سامنے جو سیاسی شطرنج ہے، اس پر بورڈ سچویشن کیا ہے اور اس حساب سے میاں صاحب کی اگلی چال کیا ہوگی؟ کوئی زرداری صاحب سے پوچھ کر مجھے بھی بتادے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔