کوڑے میں جمع ہونے والی میتھین گیس انسانی ماحول کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے، ماہرین

آصف محمود  اتوار 24 جولائی 2022
—

 لاہور: ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ دریائے راوی کے کنارے کوڑے کے ڈھیروں میں جمع ہونیوالی میتھین گیس کے محفوظ اخراج اوراستعمال کو یقینی نہ بنایا گیا تو انسانی ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ 

ماہرین کے مطابق ۔ اس حوالے سے ماہرین نے بتایا کہ یورپین اسپیس ایجینسی کی جانب سے زمین کے جائزے کے لئے چھوڑے گئے سینٹینل فائیو پی نامی سیٹیلائٹ نے 6 اگست 2021 کوخلاسے لی گئیں لاہور کی چند ایسا تصاویر حاصل کی تھیں جن میں لاہور کی فضاؤں میں میتھین گیس کے بادل دیکھے گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان بادل سے میتھین کے اخراج کی شرح اندازاً ایک سو 26 میٹرک ٹن فی گھنٹہ تھی۔ کردہ اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہےکہ یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں تھا بلکہ 2019 اور 2020 میں لاہور کی فضا میں کم از کم 15 مرتبہ میتھین کے بادل دیکھے گئے تھے۔

ڈائریکٹرمحکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب نسیم الرحمن نے بتایا کہ جب سورج کی شعاعیں زمین سے ٹکراکرواپس جاتی ہیں تومیتھین گیس انہیں روک لیتی ہے جس سے درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوجاتا ہے، میتھین گیس میں درجہ حرارت کو بڑھانے کی صلاحیت کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سے 80 فیصد زیادہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گرین ہاؤس گیسیں ہماری ماحولیاتی آلودگی کے لئے ایک بڑاخطرہ ہیں،ان کے اثرات کم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگانا ہوں گے۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ پروفیسرڈاکٹرضیاالحق نے بتایا کہ پاکستان میں میتھین گیس کے پیداہونے کے تین بڑے ذرائع ہیں جن میں مویشیوں کا فضلہ، دھان کی فصل اور کوڑاکرکٹ کے ڈھیر، کوڑے کے ڈھیروں سے تقریبا 20 فیصد میتھین گیس خارج ہورہی ہے۔ ڈاکٹرضیا الحق کہتے ہیں اس گیس کی کوئی بو نہیں ہوتی لیکن اس کے اخراج سے ناصرف درجہ حرارت بڑھتا ہے بلکہ جس علاقے میں یہ گیس موجود ہوتی ہے وہاں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے جس سے سانس لینے میں مشکل پیش آتی ہے اورزیادتی کی وجہ سے انسان بہیوش بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب اوپن ڈمپنگ سائٹ پر کوڑاتلف کیاجاتا ہے تو کوڑے میں شامل آرگائنک اجزا گل، سڑکر میتھین گیس خارج کرتے ہیں، مون سون بارشوں کی وجہ سے گیس پیداہونےکی شرح بڑھ جاتی ہےاوردباؤپڑھنے پرپھریہ گیسیں ایک بگولے کی شکل میں خارج ہوتی ہیں ۔ ڈاکٹرضیا الحق کہتے ہیں میتھین گیس کواگرمحفوظ کرلیاجائے تویہ قدرتی گیس کا بھی ایک بڑا جزو ہے، اس گیس کو تکنیکی طریقوں سے جمع اورریفائن کرکے استعمال کے قابل بنایاجاسکتا ہے۔

محمودبوٹی لکھوڈیر کے قریب یہ 130 ایکڑ سے زائد رقبے پریہ ڈمپنگ سائٹ 2016 میں بنائی گئی تھی ۔ کوڑاتلف کرنے کی اس جگہ کا انتظام لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیوایم سی )کےپاس ہے۔ ایل ڈبلیو ایم سی کے سینئر مینیجر کمیونیکیشن عمر چوہدری نے بتایا ان کی کمپنی لکھو ڈیر میں پیدا ہونے والی میتھین کو جلا کر ختم کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اس طرح یہ گیس کم خطرناک ہو جائے گی۔

انہوں نے بتایا ہماری پہلی کوشش یہ ہے کہ میتھین گیس کے اخراج کو روکا جائے ،اس کے لئے ہم یہ کررہے ہیں کہ کوڑے کے ڈھیرکے اوپرمٹی ڈال کراس کی تہہ بنادی جاتی ہے، اس کے اوپر پھر کوڑا پھینکا جاتا ہے اورپھرمٹی کی موٹی تہہ بنائی جاتی ہے۔ دوسراطریقہ یہ ہے کہ کوڑے کے اندرپائپ ڈالے جاتے ہیں جن سے میتھین گیس کا اخراج ہوتارہتا ہے۔

عمرچوہدری کہتے ہیں ڈمپنگ سائٹ پرروزانہ 10 ہزار میٹرک ٹن کوڑالایا جاتا ہے جس میں سے میں سے سے پھلوں،سبزیوں ، درختوں کے پتوں اورمویشیوں کے چارے پرمشتمل کوڑے کمپوسٹ پلانٹ کے ذریعے کھادمیں تبدیل کیاجارہا ہے، کمپوسٹ پلانٹ کئی برسوں سے بند تھا، لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے اب اس کے کچھ یونٹ بحال کئے ہیں جہاں روزانہ پانچ سے چھ سوٹن کوڑا سے کھاد تیارکی جارہی ہے

ڈائریکٹرمحکمہ تحفظ ماحولیات نسیم الرحمن کے مطابق ڈمپمنگ سائٹ سمیت ایسے تمام کارخانے، فیکٹریاں ، یونٹ جہاں سے ماحول کے لئے مضرفضلہ ،گیسیوں کا اخراج ہوتا ہے ان کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی کوبھی متعدد بار کہا گیا ہے کہ وہ ڈمپنگ سائٹ سے میتھین گیس کے اخراج کو روکنے یاپھراس کے محفوظ استعمال /تلفی کویقینی بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے بتایا کہ ایل ڈبلیوایم سی نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اس پرکام کررہی ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔