موت کا جشن منانے والے

رئیس فاطمہ  بدھ 12 مارچ 2014

ایک طرف بھوک سے مرتے بچے اور دوسری طرف حکومتی ارکان کا قحط زدہ علاقوں کے دورے کے درمیان شاہی دعوتیں اڑانا۔ وہ بھی اپنے خرچ پر نہیں۔۔۔یہ ایک ایسا المیہ ہے، جس کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے میرے قلم میں یارا نہیں کہ تبصرہ کرسکوں۔ کیونکہ سچ کسی سے ہضم نہیں ہوتا ، صورتحال یوں ہی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے قلم خود ’’سچ‘‘ کے لیے اجنبی ہوجائیں گے۔ ان نیم مردہ اور زندہ درگور بچوں کی پرواہ کسے ہے۔ یہاں تو اقتدار کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ اس لوٹ سیل میں مال بنانے اور تجوریاں بھر کر اگلے الیکشن کی تیاری میں وہ بچے شامل ہیں جو ’’گدی‘‘ کی وراثت اور منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں اور جنھیں بادشاہ گری کے آداب سکھانے کے لیے برطانیہ اور امریکا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھیجا جاتا ہے  نہ کہ تھر کے قحط زدہ علاقوں میں۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ عوام۔۔۔عوام کا راگ الاپنا انھیں بچپن ہی سے سکھا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ روٹی، کپڑا اور مکان نہ پہلے عوام کا مقدر تھا نہ آج ہے۔ لیکن بدنصیب جاہل، غریب اور تعلیم سے محروم، قحط کا شکار معصوم لوگ اس نعرے کی حقیقت کو سمجھے بغیر اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے سندھ کی تہذیب وڈیرہ شاہی کی علم بردار ہے۔ عام آدمی کی حیثیت دو کوڑی کی نہیں۔ یہ غریب لوگ وڈیروں کو ’’مائی باپ‘‘ سمجھتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے ان کی پوجا کرتے ہیں۔

اگر ان میں انسانیت کی رمق بھی ہوتی تو یہ ایسی حرکت نہ کرتے کہ مردہ بچوں کی ہلاکت پر ایئرکنڈیشنڈ شامیانوں میں شاہی قورمہ، مغلئی بریانی، ملائی بوٹی، تکہ، کباب، وائٹ قورمہ، لال روٹی، ریشمی کباب، روسٹ، مٹن کڑاہی، چکن کڑائی، کشمیری چاول، بہاری بوٹی، سنگاپوری چاول کے علاوہ مشروبات کی کئی اقسام کی تفصیل پڑھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کو کس نام سے پکارا جائے۔ جن کے ندیدے پن کے آگے تھر کی بھوک اور قحط بھی شرمندہ تھے۔ دعوت میں انواع و اقسام کی مرغن اور لذیذ کھانوں کی تفصیل بتا رہی تھی کہ جیسے سندھ کے کسی ولی عہد یا شہزادی کی شادی یا دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا جا رہا ہو۔ وہی مناظر دھکم پیل کے وہاں بھی چشم تماشا نے دیکھے کہ کھانوں پر ٹوٹ پڑنے والے تھر کے بھوکے بچے یا ان کے ماں باپ نہیں تھے۔ بلکہ وہ معزز اراکین تھے جو ’’کھانے پینے‘‘ ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ خواہ کسی کی موت ہی کا کھانا کیوں نہ ہو۔

شرفا اور خاندانی لوگ کسی کی میت پہ لقمہ بھی توڑنا تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اگر رسماً دسترخوان پہ بیٹھ بھی گئے تو دو چار نوالے کھا کر اٹھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی  موت والے گھر میں پلیٹ بھر کر کھاتا پایا جائے یا میزبانوں سے بوٹیوں اور بریانی کی فرمائش کرتا پایا جائے تو اسے پوری محفل نظروں ہی نظروں میں ملعون کرتی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ تہذیب وراثت میں ملتی ہے اور خون میں شامل ہوتی ہے۔ لوگ اس سانحے پر افسردہ ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو موت کا جشن منا رہے تھے؟ کیا ان کے ضمیر بک چکے ہیں، احساس ندامت ختم ہوچکا ہے، انسانیت مرچکی ہے؟ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ تو پھر یہ کون لوگ تھے جنھوں نے موت کی دیوی کو خوش آمدید کہہ کر اس کے ساتھ رقص کیا اور جھوم جھوم کے کھانے کھائے، دعوتیں اڑائیں۔ میں نے زندگی میں یہ منظر کبھی نہیں دیکھا۔ ہم تو اس تہذیب کے پروردہ ہیں کہ محلے یا پاس پڑوس میں کوئی المناک سانحہ یا کسی کی وفات ہوجائے تو ٹی وی کا والیوم بھی آہستہ کردیتے ہیں۔ کسی کے گھر کوئی خوشی کی تقریب ہونے والی ہو تو وہ ہمسایوں کے غم کا خیال کرتے ہوئے تقریب آگے بڑھا دیتے ہیں کہ ایک دوسرے کے دکھ کا احساس ہی اصل انسانیت ہے۔ پھر یہ بے حس لوگ کون تھے؟ اور انھیں دعوت شیراز اڑانے کے لیے کوئی اور موقع نہیں ملنا تھا۔ بجائے اس کے کہ یہ حکومتی ارکان وہ تمام کھانا قحط کے مارے لوگوں میں تقسیم کرکے خود ایک دن کے لیے سادہ غذا یا صرف بریانی پہ اکتفا کرلیتے تو کون سی قیامت آجاتی۔ ان کے کھانے پینے کے لیے تو حکومت پاکستان کا خزانہ موجود ہے۔ انھیں کیا فکر۔ اور انھیں کیا پتہ کہ بھوک کیا ہوتی ہے۔ یہ کتنی ظالم ہے؟ یہ تو وہ پیٹ بھرے ہیں جن کی بھوک کبھی مٹتی ہی نہیں۔ بکرے کے بکرے ہضم کرجائیں، لیکن بھوک نہ مٹے۔ اور پھر ایسے موقعے بار بار تھوڑی ہی آتے ہیں۔ میرا بس چلے تو پہلے ان بدبختوں کو سزاوار ٹھہراؤں جنھوں نے خوشامد میں تمام حدیں پار کردیں۔ جھوٹن کھانے کے لالچ میں قحط زدہ علاقے میں دورہ شاہانہ کرنے والوں کے لیے مغلیہ دسترخوان کو مات کردیا۔ چاپلوسی اور خود غرضی دونوں ماں جائی ہیں، ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ دسترخوان بچھانے والوں کو معلوم تھا بادشاہ کے مصاحبین کی خاطر داری کے نتیجے میں آیندہ انھیں بہت کچھ ملنے والا ہے سو انھوں نے وہ کر دکھایا جسے دشمن بھی کرتے ہوئے ہچکچائے۔ مزید ستم ظریفی یہ دیکھیے کہ ایک محترمہ بجائے اپنی ذمے داری نہ نبھانے کا اقرار کرکے عالی ظرفی کا ثبوت دیتیں، انھوں نے یہ کہہ کر ’’تھر میں بچے بھوک سے نہیں مرے بیماریوں سے مرے ہیں۔‘‘

بہت خوب ۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں ’’شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار۔ ‘‘

چلیے مان لیا کہ بچے بھوک سے نہیں، بیماریوں سے مرے لیکن کیوں مرے؟ کیا یہ صوبائی حکومت کی نااہلی نہیں؟ یعنی آپ نے انجانے میں سچ کہہ دیا کہ حکومت نے صحت کے مسائل پہ قطعی توجہ نہ دی۔ مرنے والے مرگئے۔ نہ ان کے لیے دعائیں تھیں، نہ ڈاکٹر، نہ غذا۔ وہ کیونکر زندہ رہ سکتے تھے۔ اور پھر انھیں زندہ رہنے کا حق بھی کہاں تھا؟ کیا یہ کسی جاگیردار، وڈیرے، سردار یا پیر سائیں کے بچے تھے جن کے لیے ہر نعمت مہیا کی جائے؟ یہ تو کم بخت زمین پہ رینگنے والے کیڑے مکوڑے۔۔۔۔انھیں تو مر ہی جانا چاہیے تھا۔ بھوک اور افلاس سے ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں۔ دواؤں کی عدم دستیابی سے بچے مر رہے ہیں تو مریں۔ حکومت کے پاس اور بھی تو بہت سے ضروری کام ہیں۔ سب سے بڑا کام اچھل کود کے لیے اسٹیج سجانا جس پر وہ ناچ سکیں اور سروں پہ لال پیلی نیلی ٹوپیاں سجا کر ’’ثقافت‘‘ کی توہین کرسکیں۔ مردہ بچوں کی موت پہ دعوت اڑانے والے سوچ رہیں ہوں گے کہ ایسا مبارک موقع پھر کب آئے گا جب انھیں وہ کھانے ملیں گے جو ان کی اوقات نہیں۔ شاید کسی اور جشن مرگ پر۔ ڈرو اس وقت سے کہیں پورا ملک صحرائے تھر میں نہ تبدیل ہوجائے۔ لاشوں پہ رونے والا بھی کوئی نہ بچے۔ صرف گدھ باقی رہ جائیں جو مردہ جسموں سے گوشت نوچ نوچ کر کھاسکیں۔ موت پہ شاہی دعوت اڑانے والوں سے تو یہ گدھ ہزار درجے بہتر ہیں۔ لیکن پاکستان کی تقدیر اب ان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ کیونکہ انھیں موت کا رقص پسند ہے۔

کالم لکھتے لکھتے اچانک ٹیلی ویژن کی ایک خبر نے اپنی طرف توجہ مبذول کرادی۔

وزیر اعظم نوازشریف نے تھر جاکر نہ صرف ایک ارب روپے کی امداد دی، ان کے غم میں شریک ہوئے بلکہ کھانے کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ خوش رہیے نواز شریف صاحب! آپ نے فرض کفایہ واقعی ادا کردیا۔ اب دل کچھ ٹھہر سا گیا ہے، کسی کو تو خیال آیا کہ موت پر دعوت نہیں کھائی جاتی بلکہ غمگساروں کی دل جوئی کی جاتی ہے۔ ان کی مالی مدد کی جاتی ہے لیکن خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ وزیر اعظم کی دی ہوئی امداد کیا واقعی مستحقین تک پہنچ پائے گی یا اس کا بھی وہی حشر ہوگا جو اس افتاد سے پہلے سیلاب اور زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے دی گئی رقوم اور فنڈز کا ہوا تھا۔ نواز حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف دعوت اڑانے اور کھلانے والوں کی خبر لیں بلکہ جو امداد انھوں نے دی ہے اس کے بارے میں پوری جان کاری انھیں ہونی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔