سلیکشن میں دوستی یاری چھوڑیں

سلیم خالق  ہفتہ 30 جولائی 2022
پرانے زمانے کے بادشاہ درباریوں سے اپنی تعریفیں سننا پسند کرتے تھے،وہی انداز اپنانا درست نہیں۔ فوٹو : انٹرنیٹ

پرانے زمانے کے بادشاہ درباریوں سے اپنی تعریفیں سننا پسند کرتے تھے،وہی انداز اپنانا درست نہیں۔ فوٹو : انٹرنیٹ

پاکستان کرکٹ میں چند برس پہلے تک اسٹارز کا قحط پڑ گیا تھا، کسی کمپنی کو صابن، شیمپو یا موبائل فون بھی بیچنے ہوں تو سابق کرکٹرز وسیم اکرم اور شاہد آفریدی کی خدمات لی جاتیں پھر وقت تبدیل ہوا، اب بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی بھی بڑے اسٹارز بن چکے، یہ اور بات ہے کہ لاہور میں پاکستان جونیئر لیگ کے بل بورڈ پر چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے ان کے بجائے اپنی تصویر لگوائی ہے، خیر کوئی بات نہیں سیاستدان بھی تو ایسا کرتے ہیں۔

بات اسٹارز کی ہو رہی تھی، نوجوان کھلاڑیوں نے پاکستان ٹیم میں نئی جان ڈال دی اور وہ ہر طرز میں عمدہ پرفارم کرنے لگی، رینکنگ بھی بہتر ہوئی، پی سی بی سوشل میڈیا کی اہمیت سے واقف ہے، اس نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا، جیتنے پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا، ہارنے پر کھلاڑیوں کے انفرادی کارناموں کو ہائی لائٹ کر کے شائقین کی توجہ بٹائی جاتی، سابق کرکٹرز کی پینشن بڑھی تو انھیں پیغام بھی ملا کہ اب ہاتھ ہولا رکھنا، چند ہی سچی باتیں کرتے تھے وہ بھی احتیاط برتنے لگے۔

عاقب جاوید جیسے لوگ جو کسی کے قابو میں نہیں آتے ان کے لیے پی ایس ایل فرنچائزز کا نیا ضابطہ اخلاق بنایا جانے لگا،اب نوبت یہ آ گئی ہے کہ ٹیم کی بدترین شکست پر خامیوں کی نشاندہی کیلیے کوئی کرکٹر دستیاب نہیں ہوتا، مجھے تو یوسف کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، کچھ عرصے قبل تک میڈیا میں بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے والے سابق اسٹار اب تو ایسے خاموش بیٹھے ہیں جیسے ملکی کرکٹ میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں، پیسہ بڑے بڑوں کی زبانوں پر تالے لگا دیتا ہے، میڈیا کے کئی دوست نجانے کس مصلحت کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں۔

اس کا نقصان یہ ہوا کہ پی سی بی کو من مانیوں کا موقع مل گیا،قومی ٹیم پر بھی اثر پڑا، یقینا گرین شرٹس نے میچز جیتے لیکن کئی ایسی بڑی خامیاں ہیں جنھیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، ہمیں چند ماہ بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کھیلنا ہے اور ابھی تک مڈل آرڈر مستحکم نہیں ہو سکا، چلیں اسے چھوڑیں آپ ٹیسٹ ٹیم پر ہی بات کر لیں، سری لنکا سے پہلا میچ تو عبداللہ شفیق  نے غیرمعمولی اننگز کھیل کر جتوا دیا، دوسرے میچ میں کیا ہوا؟ اگر کارکردگی اچھی ہو تو اس سے اعتماد بڑھتا ہے اور پھر آپ طاقتور بھی بن جاتے ہیں، بابراعظم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

اب وہ ماضی والے کپتان نہیں ہیں، اپنے فیصلے کرتے ہیں، پہلے ہیڈ کوچ مصباح الحق کے سامنے ان کی زیادہ نہیں چلتی تھی، نئے کوچ ثقلین مشتاق بے ضرر سے انسان ہیں، وہ کپتان کے معاملات میں دخل نہیں دیتے،اچھی اچھی باتیں بناتے رہتے ہیں، اس سے سلیکشن کے مسائل سامنے آ رہے ہیں، گوکہ پہلا ٹیسٹ ہم جیت گئے لیکن کیا پلیئنگ الیون ٹھیک تھی؟سری لنکن ٹیم میں لیفٹ آرم اسپنرز کی بھرمار کے باوجود آپ نے فواد عالم کو باہر کر دیا، پھر جب دوسرے ٹیسٹ میں واپس لائے تو وہ بقا کی جنگ لڑتے دکھائی دیے۔

اس دباؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں اننگز میں ناکام ہو گئے اور اب شاید اگلی سیریز کے اسکواڈ میں ہی شامل نہ ہوں،حال ہی میں بورڈ نے اظہرعلی کو سینٹرل کنٹریکٹ کی اے کیٹیگری میں شامل کیا،ان کی کارکردگی میں تسلسل نہیں اسی لیے دوسرے ٹیسٹ میں نہیں کھلایا گیا،ایسے بھی یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ایسے کھلاڑی کو اے کیٹیگری کیوں دی جس کی ٹیم میں جگہ ہی پکی نہیں،اب ان کو بھی آرام کرنا چاہیے، شان مسعود جیسا ان فارم بیٹر ڈریسنگ روم میں بیٹھا چانس کا انتظار کرتا رہا،آپ نے کیا سوچ کر انھیں نہیں کھلایا، اوپنرز بھی ایک میچ میں اچھا پرفارم کریں تو بعد میں ناکامیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

محمد رضوان کے حوالے سے بھی اب ٹیم مینجمنٹ کو کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے، ٹیسٹ میں ان کی جگہ نہیں بن رہی کیوں زبردستی کھلا رہے ہیں، سب جانتے ہیں کہ سرفراز احمد اسپنرز کے سامنے بہترین بیٹنگ کرتے ہیں، ان کی وکٹ کیپنگ پر تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھا سکتا، پھر انھیں کیوں نہیں کھلایا؟ سلمان علی آغا نے چار میں سے ایک اننگز میں ففٹی بنائی ، ان سے اچھے پلیئرز موجود ہیں انھیں کیوں موقع نہیں دیا جاتا، کب تک صرف بابر اعظم پر انحصار ہو گا۔

اس سیریز میں بھی انھوں نے سب سے زیادہ 271 رنز بنائے، امام الحق ہوم گراؤنڈز پر آؤٹ ہی نہیں ہوتے اور ان کی اوسط بھی 70 سے زائد ہے ، باہر جا کر ان سے کھیلا نہیں جاتا 26 کی ایوریج اس کا ثبوت ہے، اب کیا انھیں صرف پاکستان میں ہی کھلایا جائے؟ایک اچھے کرکٹر کو ہر قسم کی کنڈیشنز میں پرفارم کرنا چاہیے، اسی طرح بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی کو بولنگ مشین کی طرح استعمال کر کے انجرڈ کرا دیا گیا، وہ دوسرا ٹیسٹ نہیں کھیل سکے اور ٹیم کو مشکلات ہوئیں، حسن علی مسلسل آؤٹ آف فارم ہیں۔

دوسرے میچ میں حارث رؤف یا  فہیم اشرف کو آزماتے، سابق عظیم اسپنر ثقلین مشتاق ہیڈ کوچ ہیں اور ہمارے اسپنرز ہوم گراؤنڈز اور سری لنکا کی سازگار کنڈیشنز میں بھی کامیابی نہیں پا رہے، یہ لمحہ فکریہ ہے،اب نیا ٹیلنٹ تلاش کرنا ہوگا، آل راؤنڈزر کے نام پر ہم جنھیں آزماتے ہیں وہ خود شاید اس ٹائٹل کو دیکھ کر شرما جاتے ہوں، سلیکشن میں دوستی یاریاں نبھانا کم کرنا ہوں گی، چیئرمین بھی محمد وسیم اور بابر اعظم کو واٹس ایپ پر اس حوالے سے ’’قیمتی مشورے‘‘ دینا بند کریں۔

ابھی تو ایک میچ ہارے ہیں خدانخواستہ یہ سلسلہ طویل بھی ہو سکتا ہے لہذا ابھی سے بہتری کی کوششیں کریں،پرانے زمانے کے بادشاہ درباریوں سے اپنی تعریفیں سننا پسند کرتے تھے،وہی انداز اپنانا درست نہیں، تنقید بھی برداشت کریں تب ہی بہتری کیلیے تجاویز ملیں گی، ارے ہاں وہ آئی سی سی میٹنگ کا کیا بنا، شور تو بڑا مچا تھا کہ رمیز راجہ آئی پی ایل کی سالانہ ڈھائی ماہ کی ونڈو کم کرائیں گے، چار قومی ٹورنامنٹ پر بات کریں گے، آئی سی سی نے تو اس کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا، پی سی بی بھی خاموش ہے، سری لنکا تک کو ویمن ٹورنامنٹ کی میزبانی مل گئی ہم خالی ہاتھ رہے، اب کچھ کہیں گے تو رمیز ناراض ہوں گے کہ میڈیا منفی باتیں کرتا ہے،اسی لیے چپ ہی رہتے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔