ڈالر کی قیمت میں کمی، معاشی بہتری کا اشارہ

ایڈیٹوریل  جمعـء 5 اگست 2022
فوٹو:فائل

فوٹو:فائل

گزشتہ روز ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں غیر معمولی اضافہ ہوا، ڈالر کی قدر میں مجموعی طور پر 4.19 فیصد کمی ہوئی۔ جمعرات کو بھی ڈالر کی قدر میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ملک میں گزرے چار ماہ سے ڈالر، پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں اضافے سے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ پریشان تھے۔

ڈالر کی قیمت میں کمی ملکی معیشت اور عوام کے لیے مژدہ جانفزا ہے، یعنی ابتدائی طور پر حکومتی دعویٰ درست ثابت ہوا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے، ٹیکس ریکوری میں بھی اعداد و شمار کے مطابق خاصی بہتری دیکھنے میں آرہی ہے، جب کہ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے بورڈ میٹنگ کے اعلان کے بعد صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے اور ڈالر نیچے آیا ہے۔

آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ کی وجہ سے ہی غیر یقینی صورتحال تھی، میٹنگ کی تاریخ سامنے آنا ایک بڑی ڈیولپمنٹ ہے، بورڈ میٹنگ کے بعد 1.2 بلین ڈالر آئیں گے جس کے بعد ہی تمام دوست ممالک سمیت دیگر بینک پیسے دیں گے۔ آیندہ دو سے تین ماہ میں ہمارے پاس ڈالر زیادہ ہوں گے، ایک اچھی چیز یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بھی کم ہو رہی ہے، اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر امپورٹس کم کرنے کا بھی اثر پڑا ہے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے امپورٹ بل کا جو دعویٰ کیا تھا وہ سچ ثابت ہوا، ہمارا 2ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کم ہوا ہے جو بہت بڑی رقم ہے۔ آرمی چیف نے بھی امریکا سے قرض کی اپیل کی جو کارگر ثابت ہوئی، اسی کو دیکھتے ہوئے امید ہو چلی، آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے بعد ڈالر 200روپے سے بھی کم ہوسکتا ہے۔

جب ملک میں سیاسی عدم استحکام آیا۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں اپ سیٹ نے سب کو اپ سیٹ کر دیا مگر اب یقین ہو چلا ہے اور لوگوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ فوری الیکشن نہیں ہوں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تو سب کو یقین ہوگیا کہ فوری الیکشن کا کوئی امکان نہیں۔ لوگوں کو پہلے خوف تھا کہ انتخابات ہوجائیں گے اور پتا نہیں کس کی حکومت ہوگی مگر اب یہ صورتحال ختم ہونے سے اسٹاک اور روپیہ بہتر ہوا ہے۔

چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے تباہ حال معیشت کو مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے کے لیے جلد ہی 6 سے 7 ہزار میگاواٹ شمسی توانائی کے منصوبے شروع کرے گی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا فروغ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے کے لیے قلیل مدتی اور طویل المدتی منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ قابل تجدید ذرایع سے 7ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا حکومت قومی معیشت کو مضبوط کرنے کے مقصد کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے حالات سازگار کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ حکومت نے معیشت کی بحالی اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں، انھوں نے گزشتہ حکومت کو معیشت کو نقصان پہنچانے کا ذمے دار ٹھہرایا۔

موجودہ حکومت کے معیشت کی بہتری کے لیے اٹھائے ان اقدامات سے شرح نمو میں بہتری کے امکانات ہیں مگر معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ابھی بہت سے مزید مشکل فیصلے کرنے اور پے در پے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو کم ویلیو چین سے ہائی ویلیو چین کی طرف لے جانے کے لیے بہت سے پالیسی اقدامات اور انتظامی فیصلوں کی ضرورت ہے۔

بجٹ خسارے سے چھٹکارے کے لیے معیشت کو دستاویزی نظم میں لانے، ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ برآمدات میں خاطر خواہ اور مسلسل اضافے، درآمدات پر مناسب کنٹرول، تجارتی خسارے پر کنٹرول اور حقیقت پسندانہ شرح مبادلہ سے ہی زرِ مبادلہ کے مناسب ذخائر ممکن ہیں۔ افراطِ زر کو سنگل ہندسے میں رکھنے اور مارک اپ کی شرح کو مناسب اور مسابقتی لیول پر رکھنے سے معیشت میں طویل المدت استحکام ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

حکومت کا ایجنڈا بھاری بھر کم اور طویل ضرور ہے مگر قابل عمل اور عین ممکن ہے۔ ملک کی سلامتی معیشت کے استحکام ہی میں مضمر ہے، اس لیے ہر ممکن کوشش اور توانائی بروئے کار لانے کی جس قدر ضرورت اب ہے، شاید ماضی میں کبھی نہ تھی۔

اب جب کہ معیشت کے ماہرین کی حکومت آئی ہے اور اس حکومت کے سربراہ میاں شہباز شریف ڈلیور کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں 2018 میں کی گئی اپنی تقریر کے مطابق اپوزیشن کے ساتھ مل کر ایک ’’ قابلِ عمل میثاق معیشت ‘‘ کریں جس پر عمل کر کے معیشت کی ڈگمگاتی کشتی کو سہارا دیا جا سکے۔

اس حکومت کو چاہیے کہ وہ پرانے قرضے، ان پر سود پھر سود پر سود اتارنے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مل کر جامع حکمت عملی تیار کرے۔ اگر معیشت چلانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سرمائے کی ضرورت ہو تو خالصتاً عارضی بنیادوں پر چین اور دوست اسلامی ممالک پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

قرضوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے حکومت اور اس کے تمام وزراء بشمول اراکین پارلیمنٹ اپنے اخراجات کم از کم 40 فیصد تک کم کریں، توانائی اور پٹرولیم کے شعبے میں بچت کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے۔ تمام سرکاری تقریبات اور حکومتی وزراء بشمول وزیر اعظم ہر طرح کے جلسوں پر پابندی عائد کی جائے، اپوزیشن سے بھی اپیل کی جائے کہ وہ بھی تقریبات اور جلسوں سے اجتناب کریں کیونکہ ان پر بھی ملکی سرمایہ ہی خرچ ہوتا ہے۔

پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے فوری مالیاتی اور مانیٹری پالیسی اقدامات اٹھائے جائیں۔ مشینری اور اسپیئر پارٹس کی درآمد کے لیے ایل سیز (LCs)کی قبل از منظوری کے طریقہ کار، بروقت ترسیلاتِ زرکی ادائیگی، شپنگ ویلیوکے بہت کم ہونے کی منظوری سے استثنیٰ اور دیگر آپریشنل مسائل سے متعلق تاجروں اور صنعت کاروں خدشات کو دور کیا جائے ۔ اسٹیٹ بینک ٹائم لائن کو متعین کیا جائے تاکہ انڈسٹری کی سپلائی چین پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو، کیونکہ بنیادی طور پر پاکستان کی معیشت کنزیومر پر چلنے والی معیشت ہے جس میں جی ڈی پی کی 95فیصد کھپت ہے۔

میثاقِ معیشت کی ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جا رہی ہے، وزیراعظم شہباز شریف جب اپوزیشن لیڈر تھے تو انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو اس میثاق کی پیشکش کی تھی لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا تھا۔ ہماری معیشت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں تسلسل نہیں ہے اور آنے والی حکومت جانے والی حکومت کی پالیسیوں پر خطِ تنسیخ پھیر دیتی ہے جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھنے کے بجائے ترقی معکوس کا شکار ہو کر پیچھے چلے جاتے ہیں۔

سیاست سے ہٹ کر معاشی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے تو شاید ہمیں بار بار معاشی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس وقت سیاسی تقسیم اتنی زیادہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک جگہ بیٹھنے کو تیار نہیں، اگرچہ حکومتی اتحاد میں زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہیں لیکن حکومت مخالف جماعتیں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) تو کسی موضوع پر حکومت کے ساتھ مذاکرات ہی نہیں کرنا چاہتیں، ایسا ڈیڈ لاک پیدا ہوچکا ہے جسے توڑنا فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کو سیاست سے بالاتر رکھ کر اسے درست سمت میں ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ ملکی معاشی مسائل عارضی ہیں۔ شرح مبادلہ کے اتار چڑھاؤ اور کرنسی کی قدر میں کمی کو متوازن کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے برآمدات کو بہتر بنانے پر کام کیا جائے، جب کہ گردشی قرضے کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات پر عمل درآمد ضروری ہے۔ حرف آخر روپیہ مستحکم ہونے کا براہ راست فائدہ عوام کو منتقل کیا جائے تاکہ مہنگائی میں کمی واقع ہونے سے عام آدمی سکھ کا سانس لے سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔