- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے والی 12 سالہ لڑکی
لاہور: خواتین جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی مہارت اورکامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں وہیں لاہورمیں ایک بارہ سالہ لڑکی موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہے،فاطمہ نورنامی بچی دن میں کئی باریہ خطرناک کھیل کھیلتی ہیں۔
موت کے اس کھیل میں اس بچی کے والد بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ لڑکیاں نوجوانوں کی نسبت ڈرپورک ہوتی ہیں اورخطرناک کھیل کھیلنے سے گھبراتی ہیں، لیکن 12 سالہ فاطمہ نور نے ثابت کردیا ہے کہ وہ نوجوانوں سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہے۔
یہ لڑکی موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہے۔ وہ بھی اپنے والد کوساتھ بٹھا کریعنی موت کے کنویں کے اندر بھی ڈبل سواری کی جاتی ہے۔
فاطمہ نورکا تعلق پنجاب کے ضلع قصورسے ہے، ان کے والد موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے ہیں، یہ لوگ مختلف شہروں اوردیہات میں ڈیرے لگاتے ہیں جہاں مختلف تقریبات اورمیلوں کے موقع پر موت کا کنواں لگایاجاتا ہے جہاں یہ لوگ اپنی مہارت دکھاتے ہیں۔
فاطمہ نورکہتی ہیں انہوں نے سات برس کی عمرمیں موٹرسائیکل چلاناسیکھا، پاپاسکول بھیجتے تھے مگرمیراپڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا، میراکوئی بھائی نہیں ہے ، بس ایک چھوٹی بہن ہے ،اس لئے میں اپنے پاپاکا بازوبنناچاہتی ہوں، ہروہ کام کرناچاہتی ہوں جو ایک بیٹا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کوموت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے دیکھتی تھیں جبکہ اب وہ خود موٹرسائیکل چلاتی ہیں، ناصرف اکیلے بلکہ اپنے والد کو ساتھ بٹھاکر یہ خطرناک کام کرتی ہیں۔
فاطمہ نورکے والد منیراحمد نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی سکول جائے اورپڑھ لکھ کراپنا مقام بنائے لیکن وہ پڑھائی میں کامیاب نہیں ہوسکی البتہ قرآن پاک ضرور پڑھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دن گھرمیں بات چیت کرتے ہوئے اچانک ان کے منہ سے نکلا کہ کاش میرابھی کوئی بیٹا ہوتا جومیرا اورخاندان کاسہارابنتا،بس اس دن سے فاطمہ نور میرا بیٹا بن کرکام کررہی ہے۔
فاطمہ نور دن میں کئی بارموت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہیں اب اس کے لئے یہ معمول کا کام ہے۔ تاہم یہ خطرناک کام ضرورہے کیونکہ ذراسی غلطی اوربے احتیاطی موت کے منہ میں لے جاسکتی ہے۔ منیراحمد کوامید ہے کہ ان کی بیٹی ایک دن ناصرف اپنا اوراپنے خاندان بلکہ پاکستان کا نام بھی روشن کرے گی، یہ پہلی کم عمرلڑکی ہوگی جو اس طرح کا خطرناک اسٹنٹ کرسکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔