- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
- بھیڑوں میں آپس کی لڑائی روکنے کیلئے انوکھا طریقہ متعارف
- خواتین کو پیش آنے والے ماہواری کے عمومی مسائل، وجوہات اور علاج
- وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے کیلیے عزم کا اظہار
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
- سائنس دانوں کی سائبورگ کاکروچ کی آزمائش
- ٹائپ 2 ذیا بیطس مختلف قسم کے سرطان کے ساتھ جینیاتی تعلق رکھتی ہے، تحقیق
- وزیراعظم کا اماراتی صدر سے رابطہ، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور
- پارلیمنٹ کی مسجد سے جوتے چوری کا معاملہ؛ اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لے لیا
- گزشتہ ہفتے 22 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں، ادارہ شماریات
موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے والی 12 سالہ لڑکی
لاہور: خواتین جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی مہارت اورکامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں وہیں لاہورمیں ایک بارہ سالہ لڑکی موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہے،فاطمہ نورنامی بچی دن میں کئی باریہ خطرناک کھیل کھیلتی ہیں۔
موت کے اس کھیل میں اس بچی کے والد بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ لڑکیاں نوجوانوں کی نسبت ڈرپورک ہوتی ہیں اورخطرناک کھیل کھیلنے سے گھبراتی ہیں، لیکن 12 سالہ فاطمہ نور نے ثابت کردیا ہے کہ وہ نوجوانوں سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہے۔
یہ لڑکی موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہے۔ وہ بھی اپنے والد کوساتھ بٹھا کریعنی موت کے کنویں کے اندر بھی ڈبل سواری کی جاتی ہے۔
فاطمہ نورکا تعلق پنجاب کے ضلع قصورسے ہے، ان کے والد موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے ہیں، یہ لوگ مختلف شہروں اوردیہات میں ڈیرے لگاتے ہیں جہاں مختلف تقریبات اورمیلوں کے موقع پر موت کا کنواں لگایاجاتا ہے جہاں یہ لوگ اپنی مہارت دکھاتے ہیں۔
فاطمہ نورکہتی ہیں انہوں نے سات برس کی عمرمیں موٹرسائیکل چلاناسیکھا، پاپاسکول بھیجتے تھے مگرمیراپڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا، میراکوئی بھائی نہیں ہے ، بس ایک چھوٹی بہن ہے ،اس لئے میں اپنے پاپاکا بازوبنناچاہتی ہوں، ہروہ کام کرناچاہتی ہوں جو ایک بیٹا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کوموت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے دیکھتی تھیں جبکہ اب وہ خود موٹرسائیکل چلاتی ہیں، ناصرف اکیلے بلکہ اپنے والد کو ساتھ بٹھاکر یہ خطرناک کام کرتی ہیں۔
فاطمہ نورکے والد منیراحمد نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی سکول جائے اورپڑھ لکھ کراپنا مقام بنائے لیکن وہ پڑھائی میں کامیاب نہیں ہوسکی البتہ قرآن پاک ضرور پڑھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دن گھرمیں بات چیت کرتے ہوئے اچانک ان کے منہ سے نکلا کہ کاش میرابھی کوئی بیٹا ہوتا جومیرا اورخاندان کاسہارابنتا،بس اس دن سے فاطمہ نور میرا بیٹا بن کرکام کررہی ہے۔
فاطمہ نور دن میں کئی بارموت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہیں اب اس کے لئے یہ معمول کا کام ہے۔ تاہم یہ خطرناک کام ضرورہے کیونکہ ذراسی غلطی اوربے احتیاطی موت کے منہ میں لے جاسکتی ہے۔ منیراحمد کوامید ہے کہ ان کی بیٹی ایک دن ناصرف اپنا اوراپنے خاندان بلکہ پاکستان کا نام بھی روشن کرے گی، یہ پہلی کم عمرلڑکی ہوگی جو اس طرح کا خطرناک اسٹنٹ کرسکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔