شہادتوں پر سوشل میڈیا مہم

مزمل سہروردی  منگل 9 اگست 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

سوشل میڈیا پر بدتمیزی بہتان تراشی ایک سیاسی کلچر بن گیا ہے۔ بد تمیزی اور بد تہذیبی کو سوشل میڈیا کی پہچان بنا دیا گیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت نے سوشل میڈیا پر اپنی برتری کوقائم رکھنے کے لیے بدتمیز ٹرولرز کی ایک ایسی فوج تیار کی ہے جس سے کسی کو بھی اپنی عزت بچانی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

آپ ان سے اختلاف کریں تو وہ آپ کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں اور آپ کے خلاف ایسے نازیبا ٹرینڈ بناتے ہیں کہ انسان کو خود سے ہی شرم آنے لگتی ہے، حیرانی اس پر ہوتی ہے کہ تحریک انصاف اس بدتمیزی، بدتہذیبی اور گالم گلوچ کے کلچر کا دفاع کرتی نظر آتی ہے۔

حال ہی میں بلوچستان میں سیلاب کے ریلیف آپریشن کے دوران پاک فوج کے ایک ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا جس میں کور کمانڈر کوئٹہ سمیت دیگر اعلیٰ افسران اور جوان شہید ہو گئے۔ یہ ایک حادثہ تھاجس میں فوجی قیادت اور جوانوں کی شہادت پر پاکستان میں ہر دل سوگوارتھا۔ وہ ایک ریلیف آپریشن پر تھے۔ جس نے ان کی شہادت کو اور بھی معتبر بنا دیا۔ اس جانکاہ حادثے پر دوست ممالک نے بھی پاکستان کے ساتھ گہرے افسوس اور غم کا اظہار کیا۔ پورا پاکستان افسردہ ہوگیا۔ غم کی اس گھڑی نے سب کو رونے پر مجبور کر دیا۔ شہید ہونے والے ہمارے بھائی تھے‘ ہمیں ان پر فخر ہے۔شہداء کے جنازوں میں شرکت ہمارے لیے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔

لیکن اس بار ہم نے دیکھا کہ ایک مخصوص سوچ کے حامل سوشل میڈیا ٹرولرز نے ہمارے شہیدوں کا بھی مذاق اور تمسخر اڑانے کی کوشش کی۔ ہمارے غم پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی۔ ہماری شہادتوں کو اپنی سیاسی سوچ کے تناظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔ ان نام نہاد پڑھے لکھے ٹرولرز نے ان شہادتوں پر ایسی بیہودگی کی جس نے بحیثیت قوم ہمارے سر شرم سے جھکا دیے۔ کیا ہم نے یہ نئی نسل تیار کی ہے۔ کیا ہماری نئی نسل کی یہ اقدار ہیں۔ کیا ہم نے ان کی یہ تربیت کی ہے۔ کیا یہ ہماری اگلی نسل ہے۔

ایک سترہ سالہ نوجوان کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں اس نے یہ بات تسلیم کیا کہ اس نے ان شہادتوں پر غیر مہذب ٹوئٹ کیے۔ اس نے اپنے اس طرز عمل پر معافی بھی مانگی ہے، لیکن کیا یہ کافی ہے، ہرگز نہیں یہ کافی نہیں ہے۔

اس بدتمیز ٹرولرز بریگیڈ کے حامیوں کو اس بات پر بھی بہت اعتراض نظر آیا ہے کہ اس نوجوان کی معافی والی ویٖڈیو منظر عام پر لائی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں پاک فوج اور پاکستان نے بحیثیت ریاست بہت رعایت کی ہے کہ صرف معافی پر چھوڑ دیا ہے۔ ورنہ سخت سزا بھی دی جانی چاہیے تھی تا کہ باقی سب کو کان ہو سکتے۔ آج اس مرض کے اتنے بڑھنے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کی بد تمیزی اور گالم گلوچ کو نظر انداز کیا ہے۔ اور آج یہ لوگ معاشرے کے لیے ایک ناسور بن گئے ہیں۔ آج ہمارے شہید بھی ان سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہماری ماں بہنیں ان سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہماری عزتیں ان سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہم خود ان سے محفوظ نہیں ہیں۔

اس بدتمیز ‘بد تہذیب پڑھے لکھے جاہل ٹرولرز کے حامی آجکل ماضی کے سیاسی رہنماؤں کے ٹوئٹ نکال کر اپنی بد تمیزی بد تہذیبی اور جاہلیت کا دفاع کر رہے ہیں۔ دیکھیں تب مریم نواز نے یہ ٹوئٹ کیا تھا‘ دیکھیں تب خواجہ آصف نے یہ بات کہی تھی۔ دیکھیں میاں نواز شریف نے یہ بات کی تھی ۔ لیکن میرے نادان دوست یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بات کہنے کے لیے تحریک انصاف کی طرح کسی بدتمیز‘ گالم گلوچ بریگیڈ کا سہارا نہیں لیا ہوا تھا، لیکن وہ اختلاف حدود میں تھا۔ اور سیاسی قیادت خود کر رہی تھی۔

آج پاک فوج کا نیوٹرل ہونا ایک جرم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فرق دیکھیں تحریک انصاف کی قیادت خود تو پاک فوج کے حق میں بیان دیتی تھکتی نہیں ہے۔ خود تعزیت کے لیے پہنچ جاتے ہیں لیکن سوشل میڈیا ٹرولرز کے زہریلے ٹرینڈز پر خاموشی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ٹرینڈ کون چلاتا ہے۔ کس کو پاک فوج کے نیوٹرل ہونے کی تکلیف ہے۔ کس کو پاک فوج کے ترجمان کے اس بیان کی بہت تکلیف ہے کہ پاک فوج اب نیوٹرل ہی نہیں بلکہ A Politicalہے۔ خود تو نام لینے کی ہمت نہیں۔ استعاروں میں بات کرتے ہیں جبکہ نئی نسل کو گالم گلوچ اور منفی ٹرینڈ کلچر پر لگا دیا گیا ہے۔ کیا اسے سیاست کہا جا سکتا ہے؟

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بہت حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اس منفی کام میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں ،کیونکہ انھیں علم ہے کہ وہ بیرون ملک ہیں اس لیے قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ اس لیے یہ گالم گلوچ ٹرینڈ بنانے کا زیادہ سیٹ اپ ملک سے باہر ہی رکھا گیا ہے۔

لیکن پھر بھی ملک کے اندر سے بھی اس میں کافی حصہ ڈالا جا رہا ہے۔جس کی سرکوبی کی ضرورت ہے۔ گالم گلوچ کا یہ کلچر ہمارے معاشرہ کو نہ صرف آلودہ کر رہا ہے بلکہ اس نے ہمارے ملک میں سیاسی عدم برداشت کو بھی ختم کر دیا ہے۔ مہذب اختلاف رائے کو ختم کر دیا گیا ہے۔با ہمی احترام کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ میں سچا اور باقی سب جھوٹے کا ایک ایسا کلچر بنا دیا گیا ہے کہ اپنی بات کہنی بھی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

کچھ دوستوں کی یہ دلیل ہے کہ باقی سیاسی جماعتوں کو مقابلہ کرنا چاہیے اور سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو بڑھانا چاہیے۔ لیکن مجھے اختلاف ہے کہ کیا گالم گلوچ کا مقابلہ کرنے کے لیے گالم گلوچ کی بریگیڈ ہی بنائی جائے۔ کیا منفی ٹرینڈ کا جواب دینے کے لیے منفی ٹرینڈ کی ہی صلاحیت حاصل کی جائے۔ کیا ٹرول اکاؤنٹ کا جواب ٹرول اکاؤنٹ ہی ہے۔ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ ہمیں اپنے ہی ملک کے خلاف ٹرینڈز چلانے والوں‘ سیاسی مخالفین کی گھٹیا انداز میں ٹرولنگ کرنے والوں‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہیے بلکہ ان کے ہینڈلرز کو بھی قانون یک گرفت میں لانا چاہیے۔

ان سے کوئی رعایت نہیں کرنی چاہیے۔ حکومت پاکستان نے اب ایک اعلیٰ سطح کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک درست اقدام ہے۔ کسی سے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کی عدلیہ کو بھی اب اسے ایک سنگین جرم سمجھنا ہوگا۔ ہم نے دیکھا کہ عدلیہ نے بھی اس پر ایک نرم رویہ رکھا ہوا ہے۔ ہتک عزت کے مقدمات کو بھی عدلیہ سنجیدہ نہیں لیتی اور سائبر کرائم کو بھی ایک معمولی جرم بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ عزت کا قتل انسان کے قتل سے بڑا جرم ہے۔ شہادتوں کی تضحیک ناقابل معافی جرم ہونا چاہیے۔

آزادی اظہار کا مطلب کسی کے کپڑے اتارنے کی آزادی نہیں ہے۔ قومی اداروں کی تضحیک نہیں ہے۔ اداروں کے سربراہان کے خلاف منفی ٹرینڈ نہیں ہیں۔ قومی سلامتی کے حوالے سے ریڈ لائن کراس کرنا نہیں ہے‘ طالبان کا دفاع کرنا نہیں ہے۔ حال ہی میں ہم نے مسجد نبوی کے واقعہ پر سعودی حکومت کے سخت اقدامات دیکھے ہیں۔ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سخت سزائیں ناگزیر تھیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی ہمارے فوجیوں کی شہادتوں اور ہمارے جوانوں کی قربانیوں کا مذاق اڑانے والوں کے ساتھ اس سے بھی سخت سلوک ہونا چاہیے۔ معافی کی وڈیو کافی نہیں۔ سزا ہونی چاہیے۔

ان کے حامیوں کو بھی سزا ہونی چاہیے۔ جرم کی حمایت بھی جرم ہے۔ مجرم کی حمایت بھی جرم ہے۔ بے لگام معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں ہماری اپنی عزتیں محفوظ نہیں۔ وہ کوئی مثبت معاشرہ نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے کسی معاشرہ میں ایسی آزادی نہیں۔جہاں ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اس لیے بند ہو سکتے ہیں کہ وہ معاشرہ میں تقسیم پیدا کر رہے تھے لیکن یہاں تقسیم پیدا کرنے کی کھلی چھٹی کیسے دی جا سکتی ہے، ان کے اکاؤنٹ مقدس کیسے ہو گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔