بانی مزدور تحریک مرزا محمد ابراہیم

منظور رضی  جمعـء 12 اگست 2022
 فوٹوفائل

فوٹوفائل

معروف ترقی پسند رہنما ، محنت کشوں کے دانشور ،بانی مزدور تحریک کامریڈ مرزا محمد ابراہیم 11 اگست 1999 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ جب تک وہ زندہ رہے پاکستان کے حالات اتنے خراب نہ تھے جتنے آج اگست 2022 میں ہیں۔ ملک میں سیاسی افراتفری ہے، اختلاف بڑھ گئے ہیں، بیورو کریسی اور دیگر اداروں میں رسہ کشی جاری ہے۔ الیکشن کمیشن پر اعتراضات ہو رہے ہیں، ملک میں مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، نجکاری ہے، سیاسی لیڈر حکمرانی کی جنگ میں مصروف ہیں۔

پٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے، سندھ بلوچستان، سمیت پنجاب، کے پی کے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بارش اور سیلاب کی صورت حال ہے، 300 سے زائد قیمتی جانیں سیلاب کی نذر ہوگئی ہیں، ملک میں ایک عجیب صورت حال ہے۔ مرزا محمد ابراہیم یاد آ رہے ہیں، وہ انسانی حقوق اور برابری انصاف پر مبنی غیر طبقاتی اور سوشلزم کے حامی تھے۔

وہ ممتاز دانشور کارل مارکس، اینگلز، لینن، ماؤزے تنگ اور ہوچی منہ کے نظریات کے کٹر حامی تھے اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے، وہ ساری دنیا کے عوام کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے عوام کی بھی خوشحالی چاہتے تھے۔مرزا ابراہیم 1905 میں جہلم کے قریب ایک گاؤں کالا گجراں میں پیدا ہوئے۔ اسی گاؤں میں ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اندر کمال گجرال اور بھارتی فوج کے جنرل اروڑوا بھی پیدا ہوئے تھے۔

مرزا صاحب کے والد مرزا عبداللہ بیگ ایک چھوٹے درجے کے زمیندار اور کسان تھے۔ مرزا صاحب نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی تھی انھوں نے 1920-21 میں خلافت تحریک میں حصہ لینا شروع کردیا جو محمد علی جوہر اور شوکت علی کی قیادت میں پورے ہندوستان میں چل رہی تھی۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا ، پھر بھٹہ مزدور اور پھر برج ورکشاپ جہلم میں 1926 میں بطور معاون بھرتی ہوگئے ، وہیں سے انھوں نے یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا ، ریلوے میں یونین موجود تھی۔ 1920-21 میں نارتھ ویسٹرن ریلوے میں مزدوروں نے ہڑتال اور مظاہرے کیے۔

مزدوروں کی تحریک زور پکڑتی گئی اور 1920 میں ریلوے میں یونین بن گئی اور پھر 1936 میں پہلا یونین ایکٹ بنا۔مرزا ابراہیم کو یونین میں حصہ لینے کی وجہ سے جہلم سے ان کا تبادلہ کیرج شاپ مغل پورہ لاہور میں کر دیا گیا اور وہ 1930 میں لاہور آگئے جہاں وہ 70 برس تک رہے اور اس وقت ریلوے میں 2 یونین فعال تھیں۔ NWR یونین میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کردیا اور اس یونین میں ورکشاپ کے صدر مقرر ہوئے اور بڑھ چڑھ کر یونین میں کام کرنا شروع کردیا۔ بعد میں ان کا رابطہ کمیونسٹ پارٹی کے نوجوان جے گوپال سے ہو گیا۔

مرزا ابراہیم نے بتایا کہ ’’مجھے کمیونسٹ پارٹی والوں نے خوب پڑھایا کہ سرمایہ کیا ہے، محنت کیا ہے، مذہب کیا ہے، سرپلس ویلیوکیا ہے اور کس طرح مزدورطبقہ جدوجہد کرکے اقتدار پر قبضہ کرسکتا ہے۔ ‘‘کمیونسٹ پارٹی سے رابطے کے بعد وہ لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہوئے بعد میں پارٹی نے کانگریس کے ساتھ ملکر ریلوے مین فیڈریشن کی بنیاد رکھی جس کے بانیوں میں وہ شامل رہے اور اس کے سینئر نائب صدر بنے ۔

اس زمانے میں انگریز سامراج کے خلاف سخت نفرت اور بغاوت تھی۔ روس میں 1917 میں انقلاب آ چکا تھا جس کی لپیٹ میں ایشیائی ممالک اور پورے ہندوستان کے لوگ شامل تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے ، ان کو فارغ کردیا جائے جس کے خلاف ریلوے مین فیڈریشن نے سخت احتجاج کیا۔ 1946 میں ہندوستان میں بغاوتوں کا سال تھا۔ اس دوران دہلی میں پولیس ملازمین نے ہڑتال کردی جب کہ نیول فوج اور انبالہ میں رائل ایئرفورس نے بھی بغاوت کردی۔

ریلوے مین فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال کردی۔ یکم مئی 1946 کے موقع پر زبردست جلسے کے بعد صبح 7 بجے تا 11 بجے تک ریل کا پہیہ جام کردیا گیا اور پھر 27 جون 1946 کو رات 12 بجے سے مکمل ہڑتال کرنے کا نوٹس دے دیا گیا۔ اس طرح پورے ہندوستان میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فیڈریشن سے ملحقہ چند یونین نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کردیا پھر اسٹرائیک کمیٹی بنائی گئی اور ملازمین سے ہڑتال کے حق میں فارم بھروائے گئے جس کا سربراہ مرزا ابراہیم کو بنایا گیا۔

96 ہزار ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فیصلہ دیا اور اسٹرائیک فنڈ دیا۔  تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر پر وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کی ملاقات ہوئی انھوں نے پیشکش کی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں کیونکہ پاکستان بن چکا ہے ، اس لیے آپ بھی حکومت کے ساتھ شامل ہو جائیں آپ کو وزارت محنت کا قلم دان دیا جائے گا۔

انھوں نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرادیا۔ انھیں دسمبر 1947 میں گرفتار کیا گیا، وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔انھیں شاہی قلعہ میں رکھا گیا رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز کردیں۔ انھیں 1949 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا اس کے بعد 1951 میں گرفتار ہوئے جہاں سے انھوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا اور وہ کمیونسٹ پارٹی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے۔

ان کا مقابلہ مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی سے تھا۔ اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انھیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے ، جو الیکشن کے موقع پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے ،مرزا ابراہیم کے حامیوں اور محنت کشوں میں بڑا جوش و خروش تھا۔ مرزا صاحب جیل میں تھے اور ان کی کامیابی کا اعلان ریڈیو پاکستان سے کیا گیا مگر بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت پر سرکاری اہلکاروں نے راتوں رات ہارنے والے احمد سعید کرمانی کو کامیاب قرار دے دیا۔

مرزا ابراہیم کے 1250 ووٹوں کو رد کردیا گیا اور ملک میں پہلی مرتبہ انتخابی دھاندلی (جھرلو) کی بنیاد رکھی گئی۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین پر پابندی لگا کر ایک بار پھر مرزا ابراہیم گرفتار کر لیے گئے۔

مختصر یہ کہ مرزا ابراہیم نے 17 مرتبہ جیل کاٹی اور 6 مرتبہ قلعہ میں نظر بند رہے۔انھوں نے 20 سال سے زائد جیل کاٹی اور ہمیشہ (C) کلاس کے قیدی رہے۔ برف پر لٹایا گیا، الیکٹرک شاک دیے گئے، انھوں نے ریلوے ورکرز یونین کی بنیاد رکھی پہلی ملک گیر مزدوروں کی فیڈریشن بنائی جس کا نام پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن رکھا جس کے بانی صدر بنے جب کہ نائب صدر شاعر فیض احمد فیض مقرر ہوئے، جنرل سیکریٹری عبدالمالک بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے، ایوب خان کے دور حکومت میں ریلوے کی ملک گیر ہڑتال بھی ان کا کارنامہ تھا جو 13 روز تک جاری رہی اور ملک بھر میں کوئی ٹرین نہ چل سکی۔

1970 میں پیپلز پارٹی نے پہلی بار الیکشن لڑا ، مرزا ابراہیم کو بھٹو نے پیشکش کی کہ وہ پارٹی میں شامل ہو جائیں تو انھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جائے گا مگر انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور لاہور سے ڈاکٹر مبشر حسن کے مقابلے میں الیکشن لڑا، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ 1975 میں ریلوے ورکشاپ میں پہلا ریفرنڈم ہوا جہاں ان کی ریلوے ورکرز یونین بھاری اکثریت سے جیت گئی اور سودے کار ایجنٹ مقرر ہوئی۔ انھوں نے ریلوے ملازمین کے لیے بہتر شرائط کے لیے ایک اچھا چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کروایا۔ انھوں نے ریلوے سمیت ملک بھر کے محنت کشوں کے لیے بڑی طویل اور کٹھن جدوجہد کی اور ان کو کئی ایک حقوق دلوائے جن میں پنشن کا حق، ہڑتال، چھٹیوں میں اضافہ اور دیگر کئی مطالبات شامل ہیں۔

وہ مزدوروں کی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم در تقسیم کے خلاف تھے وہ سارے ملک میں مزدور کی ایک فیڈریشن اور ایک ادارے میں ایک یونین کے قائل تھے۔ وہ ملکی سیاست کی نہج سے بھی پریشان تھے۔ وہ بھوک، غربت، جہالت، بیماری اور بے روزگاری کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے زندگی کے آخری دو سال میں انھوں نے کراچی کے متعدد دورے کیے اور کئی سیاسی کمیونسٹ رہنماؤں اور گروپوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنے بیوی اور بچوں کے لیے ملک بھر میں کوئی مکان یا دکان نہیں لیا۔ کوئی سودے بازی نہ کی اور جدوجہد کرتے ہوئے دار فانی سے چلے گئے وہ خالی ہاتھ آئے تھے اور اسی طرح خالی ہاتھ چلے گئے۔ مزدوروں کا یہ قلندر 11 اگست 1999 ، لاکھوں محنت کشوں کو سوگوار چھوڑ گیا۔ ان کی کٹھن اورمشکل زندگی کو سرخ سلام۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔