استاد کو اس کا جائز مقام دیا جائے!

عابد محمود عزام  جمعـء 12 اگست 2022

کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو آپ نے بھی دیکھی ہو گی، جس میں ایک خاتون ٹیچر کو تشدد کا نشانہ بناتے اور گھسیٹتے ہوئے پولیس وین میں ڈالا جارہا ہے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کراچی پریس کلب کے سامنے اساتذہ نے نوکریوں کی مستقلی کے لیے احتجاج کے بعد وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کرکے متعدد خواتین اور مرد اساتذہ کو گرفتار کرلیا۔ خاتون ٹیچر کے ساتھ بدسلوکی کی یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملک بھر میں اس پر تنقید کی گئی اور اساتذہ کو عزت و احترام دینے کی بات کی گئی، لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ حکومتوں کی طرف سے اساتذہ کے ساتھ یہ رویہ پہلی بار نہیں اپنایا گیا، بلکہ ملک بھر میں اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنے کی پاداش میں انھیں وقتاً فوقتاً تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اساتذہ کو بہت سے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، جن کے حصول کے لیے انھیں سڑکوں پر نکلنا پڑتا ہے۔ سندھ کی طرح کبھی کے پی کے میں اساتذہ کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنا پڑتا ہے اور کبھی بلوچستان میں اساتذہ کو باہر نکلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں بھی حکومتوں اور آفیسرز کی طرف سے اساتذہ کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے۔

پنجاب کے ہزاروں ایس ایس ٹیز اساتذہ اور اے ای اوز کو کئی سال سے مستقلی سے محروم رکھا جارہا ہے۔ یہ کچھ عرصے بعد سڑکوں پر نکلتے ہیں، دھرنا دیتے ہیں تو حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ مستقلی کے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں، لیکن آج تک کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ افسوس کا مقام ہے، جن اساتذہ کی بدولت قومیں ترقی کرتی ہیں ، ہر دور میں حکومتوں نے انھیں دبانے کی کوشش کی ہے اور وقتاً فوقتاً انھیں اپنے جائز مطالبات کے لیے احتجاج پر نہ صرف مجبور کیا جاتا ہے، بلکہ احتجاج کی پاداش میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

وہ قوم کبھی ترقی کر نہیں سکتی، جو اپنے ہی محسنوں اور معماروں سے مجرموں کی طرح سلوک کرے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں استاد کو نمایاں مقام حاصل ہے۔

اعلیٰ عہدوں اور بلند مرتبہ و مقام تک پہنچنے والے ہر شخص اور ہر قوم کی ترقی ان کے اساتذہ کے مرہون منت ہوتی ہے، لیکن یہاں اساتذہ کو تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں استاد پر تعلیم کے علاوہ بھی کئی قسم کی ذمے داریاں ڈال دی جاتی ہیں، جن کا استاد کے فرض منصبی سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ چند سال قبل حکومت پنجاب نے ’’اینٹی ڈینگی ایکٹیویٹی‘‘ کے نام سے ایک ایپلی کیشن متعارف کروائی، جس میں تصاویر بنانے کے زاویے، جگہوں اور اسکول کے لیول کے مطابق ان سرگرمیوں کی تعداد بھی متعین کر دی گئی۔ جس میں پرائمری، ایلیمنٹری اور ہائی اسکولز نے بالترتیب پانچ، دس اور بیس تصاویر روزانہ ہر سرگرمی پرفارم کرنے سے پہلے اور بعد میں بنا کر اپلوڈ کرنا ہوتی ہے۔

ہر اسکول سے ایک ٹیچر کو ان ایکٹیویٹیز کو بذریعہ ایپ مکمل کرنے کے لیے فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے، ہر روز فوکل پرسن کا کم از کم ایک گھنٹہ اسی کام میں ضایع ہوتا ہے،بعض پرائمری اسکولوں میں آج بھی استاد ایک یا دو ہوتے ہیں، ان اسکولوں میں اس اضافی ذمے داری کی وجہ سے طلبا کے تعلیمی نقصان کا اندازہ آپ خود لگا سکتے۔ صرف یہی نہیں ،بلکہ فوکل پرسن استاد کو موسم سرما، گرما، عیدین پر بھی اینٹی ڈینگی سرگرمی نہ کرنے پر شو کاز نوٹسز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اساتذہ کو اس کی وجہ سے معطل بھی کردیا جاتا ہے، بلکہ ایک انتہائی مضحکہ خیز اور افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ اس ایپ میں غلطی سے ہاتھ لاروا کے آپشن پر لگ جانے کی صورت میں فوکل پرسن کو معطل کرنے کے ساتھ اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرلی جاتی ہے۔

یہ قانون مضحکہ خیز ہی نہیں، بلکہ بہت ہی ظالمانہ بھی ہے۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ ذمے داران کو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اس ایپ کے ذریعے آخر کس طرح ڈینگی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، اگر تصویریں بنا کر ہی ڈینگی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے تو یہ ذمے داری محکمہ صحت کے حوالے کی جانی چاہیے، نہ کہ اساتذہ کو مجبور کیا جائے۔ اساتذہ کا کام تعلیم دینا ہے، دنیا جہاں کے کام سرانجام دینا ان کی ذمے داری نہیں ہے، لیکن یہاں عجیب ہی چلن ہے، الیکشن کی ڈیوٹیاں ہوں یا مردم شماری کرنی ہو، پولیو مہم ہو یا صفائی مہم ہو یا ڈینگی ایکٹیویٹیز کرنی ہوں، اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

پنجاب کے اسکولوں میں اساتذہ کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جنھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں آج بھی ہزاروں پرائمری اسکولز ایک یا دو کمروں پر مشتمل ہیں۔ ایک دو کمروں میں نرسری سے پانچویں کلاس تک بچوں کو ایک ساتھ بٹھانا اور پڑھانا ناممکن ہے۔

دو کمروں میں دو کلاسیں ہی بیٹھ سکتی ہیں۔ دیگر کلاسز سخت سردیوں میں کھلی فضا میں بیٹھتی ہیں اور موسم گرما میں درختوں کی چھاؤں تلاش کرتے گرمیاں گزرتی ہیں۔ اس صورت میں ظاہر ہے اچھی طرح سے تعلیم حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے ہر اسکول میں فوری طور پر کلاسز کے مطابق کمروں کی تعمیر کرنا ضروری ہے۔ سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعداد بڑھانے اور حاضری پوری کرنے کی ذمے داری اساتذہ پر عائد کی جاتی ہے، اس حوالے سے تمام تر ذمے داری والدین پر عائد کی جانی چاہیے۔ کلاس رومز میں طلباء کی تعداد پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ کئی اسکولوں میں ایک ایک کلاس میں سو سے زاید طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک کلاس میں طلباء کی تعداد زیادہ ہو تو ہر طالب علم پر توجہ دینا ناممکن ہے، ہائی اسکول ہو یا پرائمری و مڈل، کسی بھی کلاس میں 30 سے زیادہ طالب علم نہیں ہونے چاہیے۔

استاد کو افراد سازی کے فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے معاشرے میں اس کا جائز مقام فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ استاد کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی یافتہ نہیں بن سکتا اور نہ ہی کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے۔ استاد تعلیمی نظام کی اساس ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اساتذہ کو وہ مقام حاصل نہیں جو اقوام عالم میں دیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ محکمہ تعلیم میں آفیسرز کی طرف سے اساتذہ کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ کسی افسر کو اساتذہ کی عزت نفس مجروح کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مرکزی ، صوبائی اور ضلع سطح پر ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور سالانہ بنیادوں پر حسن کارکردگی ایوارڈز سے نوازا جانا چاہیے۔ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل ڈگری ہولڈر اساتذہ کو گریڈ 16 تا 17 دیا جانا چاہیے اور تنخواہ بھی دیگر محکموں کے 16 تا 17 گریڈ کے ملازمین کے برابر ہونی چاہیے، یہ ان کا حق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔