روپے کی قدر میں اضافہ

ایم آئی خلیل  جمعـء 14 مارچ 2014
   ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 37 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ ڈالر 97 روپے 98 پیسے کا ہوکر پھر اوپر جانا شروع ہو گیا ہے۔ جب ملکی قرضوں کے بار میں 800 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کے مطابق ڈالر ریٹ کی کمی کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے گا۔ پٹرولیم کی قیمتیں بھی کم کی جائیں گی جس سے مہنگائی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ 7 فروری 2014 کو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 7 ارب 59 کروڑ ڈالر تھے۔ اس دوران زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے حکومتی کوششیں رنگ لے کر آئیں۔ حکومت جلد ہی زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر تک لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے قبل ہی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی تھی۔ اس کے بعد کئی ماہ تک ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافے کا سلسلہ برقرار رہا جس پر حکومت پر کافی تنقید کی جاتی تھی ایک وقت ایسا بھی آیا جب ڈالر 111 روپے کا ہوچکا تھا۔

اس کے بعد کچھ عرصے تک ڈالر ریٹ 105 یا 106 کے لگ بھگ بھی رہا۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ چند دن کے اندر ڈالر 98 روپے کا ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کا یہ دعویٰ بھی صحیح ثابت ہوگیا کہ ڈالر کو 98 روپے تک لے کر جائیں گے۔ جن دنوں ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ جلد ہی ڈالر 127 روپے تک پہنچ جائے گا۔ گزشتہ چند ماہ سے آئی ایم ایف کو قسطوں کی ادائیگی کے باعث ڈالر کی طلب میں اضافہ ہو رہا تھا جس کے منفی اثرات روپے پر مرتب ہو رہے تھے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے روپیہ شدید دباؤ کا شکار ہوکر رہ گیا تھا۔ لیکن گزشتہ دنوں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نیز پاکستان ترقیاتی فنڈ کے نام سے دوست ممالک سے منصوبوں کے لیے رقوم کی وصولی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریباً 2 ارب ڈالر کے اضافے نے روپے کی قدر کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف تیل کی درآمدات کی ادائیگی میں سہولیات اور ملک میں تیل کی پیداوار 90ہزار بیرل فی یومیہ بیچنے کے ساتھ ہی توقع ہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جائے گی۔

پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے باعث ملک میں نقل و حمل کے اخراجات میں کمی واقع ہوگی اور وقتی طور پر عوام کو بھی اس کے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ کرایوں کی کمی کے باعث ہر شے کی قیمت میں کچھ نہ کچھ کمی واقع ہوتی ہے۔ خصوصاً اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ حکومت کو روپے کی قدر میں اضافے کے بعد سب سے زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز کرنی چاہیے کہ کسی طرح گندم اور آٹے کی قیمتوں میں کمی لے کر آئے۔ حکومت کسانوں سے 30 روپے فی کلو یعنی 1200 روپے من کے حساب سے گندم خریدتی ہے جب کہ مارکیٹ میں فی کلو آٹے کی قیمت 50 روپے ہے۔ یہاں پر چکی مالکان ہول سیلرز وغیرہ کا ایک ہی بہانہ ہوتا ہے کہ نقل و حمل کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ پٹرولیم کی قیمتیں آئے روز بڑھتی رہتی ہیں لہٰذا آٹے اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کو درآمد کنندگان پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ روپے کی قدر میں اضافے کے باعث پام آئل جوکہ بڑی تعداد میں بیرون ممالک سے درآمد کیا جاتاہے ۔ اس کی قیمت بھی کم ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر ڈالر ریٹ میں کمی کا فائدہ درآمدکنندگان اٹھاتے رہیں گے اور عوام کو اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچایا جائے گا۔ آیندہ دو ہفتوں کے بعد گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت میں کمی واقع ہونا چاہیے اس کے علاوہ چائے کی پتیوں کی قیمت بھی کم ہونے کی صورت میں عوام کے لیے چائے کی پتی سستی کرنا یہ بھی حکومت کی اہم ذمے داری ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈالر ریٹ میں کمی کی وجہ معاشی وجوہات نہیں بلکہ پولیٹیکل وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن ہوا ہے۔ اگرچہ معاشی اشاریوں نے بھی مثبت اشارے دیے ہیں لیکن اس کے باوجود معیشت کے تمام مسائل اپنی جگہ پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ مثلاً ابھی تک توانائی کا بحران بھرپور انداز میں موجود ہے۔ ٹیکس وصولیاں بھی زیادہ نہیں ہو رہی ہیں، ترسیلات زر میں تھوڑا بہت اضافہ ہوا ہے اور سب سے بڑا مسئلہ ابھی تک بیرونی سرمایہ کاری کا ہے جوکہ ابھی تک دہشت گردی کے واقعات کے سبب متاثر ہوچکا ہے۔ 2007 کی بات ہے جب ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 8 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران اس میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ اب ایک ارب ڈالر سے بھی کم بیرونی سرمایہ کاری کا حجم ہے۔ لہٰذا اگر روپے کی قدر میں استحکام لانا ہے تو بیرونی سرمایہ کاری کے حجم میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملکی سرمایہ کار جوکہ بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں ان کو اس جانب راغب کیا جائے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کریں۔ یہاں کارخانے لگائیں تاکہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ حکومت لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے بیرون ملک ورکرز بھجوانے کا عزم رکھتی ہے جس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ترسیلات زر میں اضافہ کیا جائے۔ گزشتہ 7 ماہ میں ترسیلات زر میں 11 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اسی طرح 2007 میں انوسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کا تناسب 24 تھا آج یہ تناسب بہت ہی گرچکا ہے۔ اس میں بہتری لائے بغیر روپے کی قدر کو مستحکم کرنا انتہائی مشکل ہے۔

روپے کی قدر میں تیزی سے اضافے کے باعث ایکسپورٹر کو قدرے دھچکا پہنچے گا۔ حال ہی میں جی ایس پی اسٹیٹس ملنے کے باعث برآمدات میں اضافے کی توقع پیدا ہوچکی تھی حال ہی میں یورپی یونین کی جانب سے پاکستان پر عاید کردہ پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کے باعث برآمدات میں اضافے کی راہ میں پھر مشکلات بھی پیدا ہوں گی۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ملکی برآمدات میں 8 تا 10 فیصد کمی ہو۔ لہٰذا برآمدات کنندگان کو اس کا معمولی خسارہ پہنچ سکتا ہے جس کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ سستی بجلی فراہم کی جائے حکومت بجلی کے نرخوں میں کمی کرے پٹرولیم کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جائے اس کے علاوہ جو درآمدی خام مال برآمدات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس میں بھی کمی کی جائے تاکہ قیمت میں کمی کے باعث ایکسپورٹ کی اشیا کی لاگت میں کمی ہو جس کا فائدہ برآمد کنندگان اٹھا سکیں۔ کیونکہ برآمدات میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا ماحول برقرار رکھا جائے جس سے برآمد کنندگان کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔

مارچ 2008 میں اس وقت نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ 2008 میں ہی ڈالر 80 روپے کا ہوچکا تھا۔ جنوری 2012 میں ایک ڈالر کی قیمت روپے تک جا پہنچی تھی۔ جولائی 2013 میں ڈالر 100 روپے کا دستیاب تھا۔ لہٰذا جنوری 2012 اور جولائی 2013 کے اٹھارہ ماہ کے عرصے میں ڈالر کی قدر میں 10 روپے کا اضافہ ہوچکا تھا۔ اگر حکومت کئی اقسام کی معاشی اصلاحات لے کر آنے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو مزید 5 یا 6 روپے کی کمی لاکر ڈالر 93 تا 95 روپے تک لے کر آنا کوئی مشکل امر نہیں ہوگا۔ کیونکہ جنوری 2008 میں ایک ڈالر 61 روپے کا دستیاب تھا۔ اور جنوری 2011 میں ایک ڈالر 85 روپے کا دستیاب تھا۔ اور جنوری 2012 میں ڈالر 89 روپے 80 پیسے کا دستیاب تھا۔ حکومت کے مطابق اس سال افراط زر کی شرح 8 فیصد تک رہنے کی توقع ہے اگر روپے کی قدر میں استحکام رہتا ہے تو مہنگائی کی شرح میں مزید کمی واقع ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ پٹرولیم کی قیمتیں کم کی جائیں۔

اس کے ساتھ ہی آٹا اور دیگر اشیائے خورونوش کے ساتھ تیل اور گھی کی قیمت میں کمی لائی جائے۔ لیکن یہاں پر سردست ایک مسئلہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت عنقریب گندم کی درآمد میں اضافہ کر رہی ہے۔ چند سال سے گندم کی درآمد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اب گندم درآمد کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ لہٰذا ایک دفعہ پھر گندم کا بحران پیدا کرکے مہنگائی کو کم کرنے کی حکومتی کوششوں پر پانی پھیر دیا جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ بجلی کے نرخ جوکہ پہلے ہی عوام پر بہت زیادہ بار ہے۔ نیز صنعتی صارفین بھی اس کا بوجھ برداشت نہیں کر پا رہے ہیں بجلی کے نرخوں میں فوری کمی کا اعلان کرے۔ اس سے مہنگائی کی شرح میں قدرے کمی کے ساتھ صنعتی صارفین کو بجلی کے نرخوں میں کمی سے برآمد کنندگان کو بھی ڈھارس بندھے گی۔ لہٰذا روپے کی قدر میں اضافے کے ساتھ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ روپے کی قدر کو مستحکم بھی رکھا جائے بصورت دیگر چند ہفتوں میں معاملہ برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ روپے کی قدر مستحکم رہنے کی صورت میں ہی عوام کے لیے افراط زر میں کمی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔