روپے کی قدر میں مضبوطی کی ضرورت

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 13 اگست 2022

یہ 1949 کی بات ہے، جب برطانیہ نے اپنی کرنسی پونڈ اسٹرلنگ کی قدر میں کمی کردی، اس کے ساتھ بھارت نے بھی اپنی کرنسی کی قدر گھٹا دی۔

کئی ممالک کی نظریں پاکستان کی طرف تھیں جو اس بات کے متمنی تھے کہ پاکستان بھی اپنی کرنسی کی قدر گھٹا دے، جن میں بھارت پیش پیش تھا، لیکن پاکستان نے اپنی کرنسی کے استحکام کی خاطر روپے کو مضبوط رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کی قدر میں کمی نہیں کی جس سے بھارت تلملا اٹھا کیوں کہ پاکستان کے لیے بھارتی برآمدات سستی ہوکر رہ گئیں۔ لہٰذا بھارت نے کئی اقسام کی پابندیاں عائد کردیں۔

پاکستان کی برآمدات میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے معاشی حکام نے بیرونی تجارت سے متعلق نرم پالیسی اختیار کی جس کے نتیجے میں دیگر ممالک کے لیے برآمدات میں اضافہ ہوا۔ اسی دوران کوریا کی جنگ کا آغاز ہوگیا جس طرح آج کل روس یوکرین جنگ کے باعث خام مال اور خصوصاً خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ان دنوں بھی اشیا کی قیمت میں زبردست اضافہ ہوکر رہا۔

پاکستان کے لیے خوش قسمتی یہ رہی کہ پاکستان کی دو اہم ترین برآمدی اجناس پٹ سن اور کپاس دنیا میں مہنگی بھی ہوگئیں اور اس کی طلب میں بھی بہت اضافہ ہوکر رہا۔ پٹ سن جسے سنہری ریشہ کہا جاتا ہے یہ سابق مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کی اہم ترین زرعی پیداوار تھی اور اب بھی ہے اور کپاس جسے روپہلی ریشہ کہا جاتا ہے اس وقت کے مغربی پاکستان موجودہ پاکستان کی اہم ترین زرعی فصل ہے۔ چنانچہ ان دو اشیا کی قیمت میں زبردست اضافے کے ساتھ پاکستان سے ان کی برآمد میں بھی زبردست اضافہ ہوا، چٹاگانگ کی بندرگاہ سے پٹ سن سے لدے جہاز دنیا کے مختلف ممالک کو روانہ ہوئے۔

ادھر کراچی کی بندرگاہ سے کپاس کی بڑی بھاری مقدار برآمد ہونے لگی۔ پاکستان نے خوب زرمبادلہ کمایا اور پہلی مرتبہ توازن تجارت پاکستان کے حق میں ہو گیا۔ اس کے بعد چند سالوں تک پاکستان کے تجارت خارجہ کے حالات بہتر رہے۔ 1953 کے بعد سے پاکستان کے سیاسی حالات میں کشیدگی کی ابتدا ہوئی اور ملک کے سیاسی حالات کی کشیدگی کے ملک کے معاشی حالات پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ایک ڈالر تین روپے تیس پیسے سے بڑھ کر 4 روپے سے زائد کا ہو گیا۔

یعنی اس دوران تیس سے پینتیس فی صد روپے کی قدر میں کمی ہوگئی۔ ملک کی خراب سیاسی صورت حال کے باعث آئے دن حکومت کی تبدیلی ہوتی رہی۔ جلدازجلد ملک کے وزیر اعظم بدلتے رہے۔ کسی بھی وزیر اعظم کو جم کر کام کرنے نہیں دیا گیا جس کے باعث ملک کے معاشی حالات خراب ہونے شروع ہوگئے اور ملک میں جہاں پہلے ہی غربت معاشی ناہمواری دولت کی تقسیم میں عدم مساوات فی کس آمدن کا کم ہونا روزگار کے مواقع کے کم ہونا اور دیگر بہت سے معاشی مسائل نے سر اٹھانا شروع کردیا کہ اس کا منفی اثر اس وقت کے مشرقی پاکستان پر زیادہ مرتب ہوا۔ فوجی حکومت کے قیام کے بعد ملک کے لیے بنائے گئے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد شروع ہوا جس کے نتیجے میں ملک میں صنعتوں کا جال بچھنا شروع ہوگیا۔

پاکستان کو اپنے کئی منصوبوں کے لیے بیرونی امداد کی ضرورت پیش آتی رہی۔ 1960 کے عشرے کے آغاز کے ساتھ پاکستان کو آئی ایم ایف نے یہ باور کرایا کہ آئی ایم ایف اسے آسان شرح سود قسطوں اور اس کی شرطوں کے مطابق قرض فراہم کر دے گا۔ فوری طور پر پاکستان کو قرض دیا جاتا رہا۔ قرض دینے والوں کی نظریں پچاس برس سے آگے تھیں کہ قرض لیتے رہیں گے اور قرض کی مئے پیتے رہیں گے اور بالآخرمرجائیں گے اور وہی ہو رہا ہے۔

غربت و افلاس میں اس ملک کی اکثریت زندگی بسر کر رہی تھی کہ پھر سقوط ڈھاکا کے فوری بعد پاکستان کو اپنی کرنسی روپے کی قدر میں 131 فی صد کمی کرنا پڑی۔ ایک ڈالر 9 روپے90 پیسے کا ٹھہرا۔ یعنی 10 روپے کا ایک ڈالر ٹھیک پچاس برس کے بعد 250 روپے کا ہو چکا تھا کیونکہ ہر قرض دیتے وقت یہی مطالبہ کہ روپے کی قدر گھٹاؤ۔ جب قرض خوش دلی سے دیا جاتا تھا اور آئی ایم ایف والے قرض انتہائی بے دلی کے ساتھ فراہم کرنے پر راضی ہوتے ہیں جب ڈالر 190 روپے کا تھا تو مذاکرات میں طوالت نے ڈالر کو کھینچ کر مزید بڑھا دیا اور روپے کو نچوڑ کر رکھ دیا۔

جب قرض ہی دینا تھا تو وقت پر دے دیتے۔ لیکن اب اگست کے آخری ہفتے میں اعلان ہوگا کیونکہ بقول شخصے کچھ لمبی چھٹیاں آئی ایم ایف کو درپیش ہوگئیں۔ یعنی جب ہمیں قرض دینے کی باری آتی ہے تو ان کی چھٹیاں پڑ جاتی ہیں۔ ڈالر جب ڈھائی سو روپے سے تین سو تک جانے کی تیاری کر رہا تھا اور مافیاز، سٹے باز اور کئی نامور اس سلسلے میں تیزی و تندی، برق رفتاری سے کام لے رہے تھے اور ڈالر کو خوب پروان چڑھا رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ روپے کی قدر مزید گرے گی ایسے میں اڑتے ہوئے ڈالر کی ایسی پرواز رکی کہ اب مزید کم ہونے کے آثار ہیں۔

ایسے میں حکومت بھی اپنی کارکردگی مزید دکھائے۔ ڈالر پر نگرانی کے سسٹم کو مزید سخت کرے۔ ادھر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہو رہی ہے۔ اس کا فوری فائدہ عوام کو پہنچانے کے علاوہ ڈالر اور تیل کی قیمت کم کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کو مدنظر رکھا جائے اور اس پر سخت ترین کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔