- سینئر وزیر سندھ شرجیل میمن کی زیرصدارت محکمہ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ سطح اجلاس
- قومی ٹیم کی کوچنگ؛ جیسن گلیسپی اہم فیصلہ کرلیا
- پشاور؛ صوبائی وزیر و دیگر کے نام ای سی ایل سے نکالنے کیلیے حکومت سے جواب طلب
- سوئی ناردرن کی گیس قیمتوں میں اضافے پر وضاحت
- کراچی؛ اورنج اور گرین لائن کو جوڑنے کے لئے شٹل سروس شروع کرنے کا فیصلہ
- قادیانی شہری ضمانت کیس؛ علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب
- سویلین ٹرائلز؛ سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
- ایف بی آر سے کرپشن کے خاتمے کیلیے خفیہ ایجنسی کو ٹاسک دیدیا گیا
- کاکول ٹریننگ کیمپ؛ اعظم خان 2 کلومیٹر ریس میں مشکلات کا شکار
- اسٹاک ایکسچینج؛ 100 انڈیکس ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
- بجلی ایک ماہ کیلیے 5روپے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی
- کھلاڑیوں کی ادائیگیوں کا معاملہ؛ بورڈ نے فیکا کے الزامات کو مسترد کردیا
- پی ٹی آئی (پی) کی مخصوص نشستوں کا معاملہ، الیکشن کمیشن حکام فوری ہائیکورٹ طلب
- حساس ادارے کے دفترکے گیٹ پرحملہ، پی ٹی آئی کارکنان دوبارہ زیرحراست
- اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کے فضائل و محاسن
- معرکۂ بدر میں نوجوانوں کا کردار
- غزوۂ بدر یوم ُالفرقان
- ملکہ ٔ کاشانۂ نبوتؐ
- آئی پی ایل2024؛ ممبئی انڈینز، سن رائزرز حیدرآباد کے میچ میں ریکارڈز کی برسات
- عورت ہی مجرم کیوں؟
معاشی مسائل کا حل اکنامک فریم ورک کی تشکیل نو میں پوشیدہ
اسلام آباد: ملکی ماہرین اقتصادیات اور عوام یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کا موجودہ اکنامک فریم ورک ناکارہ ہوچکا ہے اور اسے نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
مختلف کاروباری انجمنیں بالخصوص چیمبر آف کامرس اور صنعتیں ان معاشی اصلاحات کا تعین کرنے کی کوشش کررہی ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہوسکیں اور جن پر مستقبل میں حکومتوں کی تبدیلی سے قطع نظر کام جاری رہ سکے۔ اس سلسلے میں وہ میثاق معیشت پر دستخط کرنے کے لیے ماہرین کی رائے معلوم کرنے کے علاوہ بڑے سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
متعدد ممالک معاشی اصلاحات کے ذریعے اپنے اقتصادی بحرانوں پر قابو پاچکے ہیں۔ پاکستان بھی یہ کرسکتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی اقتصادی مشکل جامد برآمدات ہیں۔ عالمی برآمدات میں پاکستان کا حصہ ڈیڑھ فیصد سالانہ کی شرح سے کم ہوتا جارہا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ کم شرح خواندگی ہے۔وہ کبھی خوشحال نہیں ہوسکتی جہاں شرح خواندگی کم ہو۔
گزشتہ مالی سال کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کا تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا محض 1.77 فیصد تھا جو عالمی اوسط کے نصف سے بھی کم ہے۔ تیسرا مسئلہ وسائل پر ایلیٹ کلاس کا قابض ہونا ہے جس کی وجہ سے عوامی وسائل کا رخ چند افراد کے مفاد کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔
یو این ڈی پی کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بااثر طبقہ 17.4 ارب ڈالر کی اقتصادی رعایتیں حاصل کررہا ہے۔ برآمدات میں اضافے کے لیے ہمیں اپنے عالمی اور علاقائی تعلقات وسیع کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ٹیکسیشن اور تجارتی پالیسیوں میں اصلاحات لانی ہوں گی۔
شرح خواندگی بڑھانے کے لیے بجٹ میں تعلیم کا حصہ بڑھانا ہوگا اور فنی تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ مزیدبرآں بااثر طبقے کو حاصل کردہ تمام اقتصادی مراعات ختم کرنی ہوں گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔