شکر کے 75 برس

انعم احسن  پير 15 اگست 2022
شکوہ کرنے کے بجائے اس دیس میں محبت، امن و خوشحالی کے دیپ جلائیے۔ (فوٹو: فائل)

شکوہ کرنے کے بجائے اس دیس میں محبت، امن و خوشحالی کے دیپ جلائیے۔ (فوٹو: فائل)

آرمی میوزیم لاہور میں ایک ٹرین کا خاکہ ہے، جس میں دورانِ ہجرت پاکستان آنے والوں کے مصائب کی تصویرکشی کی گئی ہے۔ چند دن قبل اس میوزیم میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جسم بے جان ہوگیا، آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔

لاہور جو ہجرت کا شاہد ہے، جس کا ریلوے اسٹیشن آزادی کے مسافروں کی کہانیوں کا امین ہے، جس کا مال روڈ انگریزوں کے مظالم کا شاہد ہے، جس کے بازار دو قومی نظریہ کے گواہ ہیں۔ اسی شہر لاہور میں آزادی کے جشن کے نظارے بھی پورے پاکستان سے زائد دیکھنے میں آتے ہیں۔ پوری قوم نے اتوار کو آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منائی، باجوں کے شور اور نعروں کی گونج کے ساتھ ساتھ اہل وطن شکوہ کناں بھی دکھائی دیے۔

کیا مملکت خداداد پاکستان سے ہمارے شکوے جائز ہیں؟ کیا ’اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے‘ کا بیانیہ درست ہے؟ ’یہ ملک تو طاقتور لوگوں کا ہے‘ کیا یہ شکایت بجا ہے؟ ’بھارت الیکٹرانک کار بنا رہا ہے اور ہم باجے بجا رہے ہیں، ترانے گا رہے ہیں‘ یہ اعتراف کتنا بروقت ہے؟

میں چشم تصور میں آج سے 75 برس قبل کی نئی ریاست میں پہنچ گئی۔ جہاں مہاجرین کا مسئلہ تھا، جسے وسائل اس کے حق کے مطابق نہیں ملے۔ جسے غذا اور آبادکاری کے مسائل کا سامنا تھا، جس کے پاس امور حکومت چلانے کےلیے وسائل تھے اور نہ ہی پیسہ موجود تھا۔ جس کے اکثر تاجر ہندو تھے اور وہ بھارت چلے گئے تھے۔ جس کی زراعت پر سکھوں کی اجارہ داری تھی اور وہ بھی بھارت ہجرت کرچکے تھے۔ لیکن اس دیس کے بنانے والوں نے اس کی بنیادیں مضبوط کیں۔

قائداعظم اور لیاقت علی خان کی یکے بعد دیگرے وفات کے بعد دستوری سفر جاری رہا۔ جمہوری ریاست کے ابتدائی برسوں ہی میں مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ ریاست پھر بھی قائم رہی۔ 35 برس تک آمریت کے شکنجے میں کسی ہوئی جمہوریت آج کسی نہ کسی صورت میں سانسیں لے رہی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت اجناس کےلیے امداد کا منتظر ملک آج یورپی ممالک کا ایک بڑا برآمدی ملک بن چکا ہے۔ لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری کے مسائل کا سامنا کرنے والا ملک گزشتہ تین دہائیوں سے مہاجرین کا سب سے بڑا میزبان ملک بن چکا ہے۔ آج اس کے لہلہاتے کھیت، روشن شہر اور جگمگ کرتے دیہات آج سے 75 برس قبل تو ایسے نہ تھے۔ قیام کے وقت فائلوں کو کانٹوں کے ذریعے جوڑنے والا ملک آج دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت اور میزائل ٹیکنالوجی کا حامل ہے۔ وہ دیس جو تقسیم کے وقت اسلحے کا حصہ نہ ملنے پر شکوہ کناں تھا، آج ایئرکرافٹ سے ٹینک تک برآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔

میں اکثر یونیورسٹی سے گھر جاتے ہوئے مال روڈ سے گزرتی ہوں۔ وہی مال روڈ جہاں قیام پاکستان سے پہلے انگریز افسران مسلمان کوچوانوں کو اپنے کوڑوں کا نشانہ بناتے تھے، جہاں قیام پاکستان کے بعد دور آمریت میں صحافیوں پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ آج اسی مال روڈ پر درجنوں میڈیا ہاؤسز کی گاڑیاں، اخبارات کے ہاکرز اور اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج مظاہرین نظر آتے ہیں۔ اسی مال روڈ کو آج یونیورسٹیز اور کالجز کا دارالحکومت سمجھا جاتا ہے۔ جہاں قیام پاکستان کے وقت چند ایک تعلیمی ادارے تھے، آج دنیا بھر میں پاکستانی ذہین اور ہنرمند نوجوانوں کا طوطی بولتا ہے۔ آج ہر شہر اور نگر میں اعلیٰ تعلیم کے کالجز اور یونیورسٹیز قائم ہیں۔

میں ایک عورت ہوں۔ آج سے 75 برس قبل مجھے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دی جاتی تھی۔ لیکن آج وطن عزیز پاکستان میں مجھے ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ آج کی عورت ٹرک سے لے کر کمرشل ہوائی جہاز تک سب چلاتی ہے۔ آج درسگاہوں سے لے کر پارلیمنٹ ہاؤس تک عورت ہر جگہ مردوں کے شانہ بشانہ ہے۔ آج بیٹے اور بیٹی دونوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ آج میں کراچی سے قراقرم تک سر اٹھا کر چل سکتی ہوں۔ مجھے یہ مقام حاصل کرنے کےلیے 75 برس تک جدوجہد کرنا پڑی، پاکستان کی عورت رسوم و رواج، قدیم خاندانی روایت کے خلاف ثابت قدم رہی، تب جاکر اسے یہ مقام اور مرتبہ حاصل ہوا۔

میں نے اپنے پیارے دیس پاکستان کے یوم آزادی کو یوم تشکر کے طور پر منایا۔ میں نے باجا بجانے اور سائیلنسر نکال کر جشن منانے والوں کی بھی بھرپور حمایت کی۔ میں شکر کیوں نہ ادا کروں کہ آج مجھے اظہار کی آزادی ہے۔ آج میں جب اور جہاں چاہوں جی بھر کر اپنا مافی الضمیر بیان کرسکتی ہوں۔ میں شکر ضرور ادا کروں گی، لہلہاتے کھیتوں کےلیے، روشن دیس کےلیے، بہترین نظام کےلیے، جمہوریت کےلیے اور باوقار ریاست کےلیے۔ مجھے شکر ادا کرنا چاہیے اس دیس کےلیے جس نے مجھے پہچان دی، مجھے جینے کا سلیقہ عطا کیا۔ شکر ہے اس دیس کےلیے جو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجود خیرات کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کے آگے سربسجود ہوں اس وطن عزیز کےلیے جہاں دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ پانی کے ذخیرے اور کھانے کے ذرائع موجود ہیں۔ میرے رب کا شکر ہے کہ یہ دیس ان درجنوں ممالک سے ہزارہا درجے بہتر ہے جو سیکیورٹی کےلیے دیگر ممالک کے مرہون منت ہیں۔ یہ وہ عظیم دیس ہے جو پڑوس میں وقت کی دو سپر پاورز کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ دشمن ملک کی مکاری کے باوجود پاکستان آج بھی قائم ہے اور سبز ہلالی پرچم آج بھی لہرا رہا ہے۔ ہم آج بھی اپنے سیاسی مسائل خود بیٹھ کر حل کرتے ہیں۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں ہر رنگ و نسل، مذہبی اقلیت اور فرقے کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

آئیے! پاکستان کی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے یہ عہد کریں کہ اس وطن عزیز پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ہم نے یوم آزادی باجے بجا کر منایا اور اب وطن عزیز کا ڈنکا چاروں عالم میں بجائیں گے۔ ہم نے سڑکوں پر سائیلنسر نکال کر جشن آزادی منایا مگر اب تعلیم و تحقیق کے جھنڈے ساری دنیا میں گاڑنے کا عزم بھی کرتے ہیں۔ ہم سیاسی اختلافات کو وطن عزیز کی سالمیت پر قربان کردیں گے۔ ہم ذاتی رنجشیں بھلا کر اس پاکستان کو اپنی نسلوں کےلیے ترقی یافتہ، خوشحال اور محفوظ دیس بنائیں گے۔ آئیے اس دیس میں محبت، امن و خوشحالی کے دیپ جلائیں، تبھی اس پاک وطن کی مٹی پر جان وارنے والے ہمارے آبا و اجداد کی روحوں کو قرار آئے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

انعم احسن

انعم احسن

بلاگر نے ادارہ علوم ابلاغیات جامعہ پنجاب سے ڈویلپمنٹ جرنلزم میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ قومی اخبارات میں "ادراک " کے نام سے قلم کے رنگ بکھیرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ادب، تعلیم ،ظلم نا انصافی اور معاشرتی مسائل پر تحریر کرنے کی سعی کرتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔