برتری کا دعویٰ

سعد اللہ جان برق  منگل 16 اگست 2022
barq@email.com

[email protected]

دیکھاجائے تو ساری دنیامیں،تاریخ کے ہرہر صفحے پر اورجغرافیے کے ہرہرچپے پر جو بھی تباہیاں ہوتی ہیں، جنگیں برپا ہوتی ہیں اورہرقسم کی خونریزیاں ہوتی رہتی ہیں،یہ سب صرف ایک لفظ’’میں‘‘کی پیداوار ہیں ’’میں‘‘ جس کا بانی مبانی اورجدامجد’’ابلیس‘‘تھا، یہ وہی تھا جس نے حضرت آدم کے ’’ہم‘‘کو رد کرتے ہوئے ’’میں‘‘ کانعرہ لگایا تھا، برتری کا وہم، جو حقیقت میں ہوتا ہی نہیں کیوں کہ انسانوں میں کمتری اوربرتری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،سارے انسانوں کا سب کچھ ایک جیسا اوریکساں ہوتاہے۔

وہی ایک جیسا جسم، ایک جیسے جسمانی اعضا،ایک جیسے پانچوں حواس، اگر کہیں تھوڑی بہت کمی بیشی ہو بھی تو وہ ماحول کی پیداوارہوتی ہے ورنہ بنیادی طورپر ایک بھی انسان نہ دوسرے سے کم ہوتا ہے، نہ زیادہ۔ چنانچہ ’’برتری‘‘کا دعویٰ کسی بیرونی اور خارجی چیز پر کیاجاتاہے، دولت پر، جائیداد پر، رتبے پر یاافرادی قوت پر اوریاکسی ہتھیار یااسلحے پر اوریہ سب چیزیں ’’منقولہ‘‘ ہوتی ہیں۔آج اگر ایک کے پاس ہیں تو کل دوسرے کے پاس جاسکتی ہیں، برتر یہ بیرونی منقولہ چیزیں ہوتی ہیں نہ کہ وہ  جس کے پاس ہوتی ہیں۔

آج تک جتنے بھی برتری کے دعوے ہوتے رہے ہیں وہ سب کے سب ایسی ہی کسی بیرونی اورمنقولہ چیزکی بنیاد آتے رہے ہیں۔ آتش پرستوں کا عقیدہ آگ کی برتری پر تھا، حالانکہ آگ یا توانائی قدرت کا پیدا کرتا ایک مظہر یا عنصر ہے۔

آگ بذات خود کوئی قائم بالذات چیزنہیں، جیسے مٹی ہے بلکہ مٹی ہی کی چیزوں لکڑی یاپتھروں کے ٹکرانے سے آگ کی پیدائش ہوتی ہے اوراسے زندہ رہنے کے لیے مٹی یازمین ہی کاایندھن درکار ہوتاہے، ایندھن نہ ہو تو آگ ایک لمحہ بھی زندہ نہ رہنے پائے اورپھر آکسیجن اورکاربن بھی ’’خاک زاد‘‘ ہوتے ہیں گویا خود آگ کا وجود ہی خاک یامٹی کے رہین منت ہے تو ’’برتر‘‘ کیسے ہوئی اورپھر اس مرکب آگ سے بننے والا مرکب وجود تو کوئی چیزہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ مادی ایندھن کا ہمہ وقت ضرورت مند اورمحتاج وجود برتری کادعویٰ کرے، وہ بھی مٹی پر جو خود اس کی بھی ماں ہے۔ اور اگر انسانی تاریخ کامطالعہ گہرائی سے کیاجائے تو دنیا میں تمام ترجنگوں، خونریزیوں اورتباہ کاریوں کے پیچھے یہی آتش پرستی کی بنیاد پر پیداہونے والی ’’برتری‘‘ کارفرما تھی،ہے اور رہے گی۔

زمین پر آگ کی پیدائش اس وقت ہوئی جب انسانوں نے پتھر کے اوزار تراشتے ہوئے، آگ کے شعلے کونکلتے دیکھا۔اسی کے بعد جتنے بھی فائدہ مند یا خونریزاورتباہ کن ہتھیار بنے اور بنائے گئے، ان سب کا تعلق آگ سے تھا ۔ دھاتوں سے ضرورت کی اشیاء سے لے کر ہتھیار تک آگ کی مدد سے بنائے جاتے تھے،اس کے بعد بارود، ڈائنامائٹ وغیرہ کے سارے تباہ کن ہتھیار بھی آگ ہی آگ تھے اورپھر جدید ترین ایجاد’’ایٹم‘‘ جس کے بل پر بعض لوگوں کادعویٰ ویسا ہی ہے جیسا کہ ابلیس کاتھا جو ایک طرح سے اس زمانے کی ایٹمی قوت تھی۔

آگ اورمٹی کے درمیان وہی سلسلہ ہے جو عوام اورخواص کے درمیان ہے یعنی پیداکرنے والا کھلانے والا آباد کرنے والا ’’حقیر‘‘اورجلانے والے کھانے والے اورتباہ کرنے والے کو برتری کادعویٰ۔گویا اس وقت بھی تباہ کاروں نے خود کو برتر سمجھااورمٹی سے رزق پیداکرنے والوں کو حقیر۔اورآج بھی حکمرانیہ اور اشرافیہ کاعوامیہ یاآدمیہ کے ساتھ وہی رویہ ہے۔

اس سلسلے میں قرآن کی ایک بہت ہی خوبصورت سورہ کاذکر کرتے ہیں جو ہرلحاظ سے ایک حیران کن اورچشم کشا سورہ ہے نام ’’الھمزۃ‘‘جس میں اتنی واضح طورپرآج کانقشہ کھینچاگیاہے کہ حیرت ہوتی ہے اس مختصرسورہ میں تین باتیں کہی گئی ہیں ،پہلی بات آج کی منافقانہ سیاست اورڈپلومیسی سے متعلق ہے یعنی سامنے کچھ اورپیٹھ پیچھے کچھ اور، دوسری بات آج کے سرمایہ دارانہ نظام سے ہے کہ یہ لوگ مال جمع کرتے رہتے ہیں اوراسے گن گن کررکھتے ہیں کہ یہ’’مال‘‘ ہمیں بچالے گا لیکن ہرگز نہیں۔ اوراس کے بعد وہ تیسری اہم ترین بات کہ انھیں ’’حطمہ‘‘میں گرایاجائے گا، تم کیاجانو کہ حطمہ کیاہے؟ اللہ کی آگ ہے جو دلوں تک کو جلا کر چورچورکردینے والی ہے اورجو اونچے اونچے ستونوں میں بند ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔