پارلیمانی معاملات

محمد سعید آرائیں  منگل 16 اگست 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا ہے کہ ’’ کیا تاریخ میں کبھی کسی اسپیکر کا انتخاب چیلنج ہوا ہے؟‘‘ یہ سوال مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اسپیکرکے انتخاب کے خلاف درخواست کی سماعت کے موقع پر فاضل جج نے پوچھا جس کے جواب میں وکیل نے کہا کہ ’’ پہلی بار ہوا ہے کہ ہم ایسے وقت سے گزر رہے ہیں۔

جہاں بہت سی چیزیں پہلی بار ہو رہی ہیں‘‘ واضح رہے کہ ڈیڑھ سال قبل چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا انتخاب اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا تھا جو ایک سینئر وکیل اور سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مظفر علی شاہ کے فیصلے کے خلاف تھا ، جس میں حکومتی پارٹی کے سینیٹر مظفر شاہ نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں سرکاری امیدوار کو کامیاب کرانے کے لیے سینیٹ کے بطور پریزائیڈنگ افسر کیا تھا اور اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو ہرانے کے لیے ان کے حق میں ڈالے گئے سات ووٹ مسترد کر دیے تھے جب کہ ایوان میں اپوزیشن کی اکثریت تھی۔

الیکشن کمیشن نے بلوچستان سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی جو بعد میں ڈپٹی اسپیکر بھی منتخب ہوئے تھے انھوں نے قاسم سوری کا انتخاب دھاندلی کے الزام پر منسوخ کردیا تھا جس پر قاسم سوری سپریم کورٹ سے فوری طور پر اسٹے آرڈر لے آئے تھے اور دو سال اسٹے پر چلتے رہے مگر فیصلہ نہ آیا اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اجلاس کی صدارت اسٹے پر برقرار اسی ڈپٹی اسپیکر نے کی تھی اور عمران خان کی ہدایت پر تحریک عدم اعتماد مسترد کردی تھی اور سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اسپیکر کو تحریک میں تاخیر کرنے کا کہا تھا مگر قومی اسمبلی کے باہر قیدیوں کی گاڑیاں اور سپریم کورٹ رات کو کھولے جانے سے انھیں فیصلہ بدلنا پڑا اور مستعفی ہوگئے تھے۔ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف فوری فیصلے دیے تھے جس سے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی حکومتیں تبدیل ہوگئی تھیں اور تاخیر کے باعث قاسم سوری کا اسٹے آرڈر چلتا رہا، بعدازاں قاسم سوری نے غلط رولنگ دی تھی جو فوری طور غیر قانونی قرار پائی تھی۔

حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں اسپیکر کا انتخاب ہوا جس میں بیلٹ پیپروں پر سیریل نمبر لکھے ہوئے تھے جب کہ آئین کے مطابق اسپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہونا ضروری ہے مگر پی ٹی آئی حکومت نے بیلٹ پیپروں پر سیریل نمبر ڈلوا کر خفیہ رائے شماری پر سوال اٹھوا دیے اور یہ اقدام چیلنج ہو گیا۔

چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کا انتخاب پی ٹی آئی کی حکومتوں میں ہوا جہاں دونوں حکومتوں نے اپنے امیدوار جتوانے کے لیے پارلیمانی تنازع پیدا کرائے جس کی وجہ سے یہ دونوں عدالتوں میں چیلنج ہوئے اور پنجاب ہائی کورٹ میں سوال اٹھا کہ کیا تاریخ میں اسپیکر کا انتخاب کبھی چیلنج ہوا؟ جس کے جواب میں کہا گیا کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے ‘اگر پی ٹی آئی کی سابق وفاقی حکومت اور پنجاب کی موجودہ حکومت چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کا انتخاب آئین کے مطابق ہونے دیتیں تو یہ پارلیمانی تنازع پیدا ہوتے نہ اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہوتے۔

2008کی عدلیہ آزادی تحریک سے قبل پارلیمانی معاملات اعلیٰ عدالتوں میں بہت کم چیلنج ہوتے تھے یہ ریکارڈ بھی پی ٹی آئی حکومت میں قائم ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت میں پارلیمانی معاملات عدالتوں میں زیادہ چیلنج ہوئے۔ پارلیمانی معاملات میں مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’’ اداروں کی پشت پر کھڑے تھے اسی لیے پنجاب میں شفاف ضمنی الیکشن ہوئے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’عدالت عظمیٰ نے کسی ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کی۔

اداروں کے کام ان ہی سے کرائیں گے۔‘‘ چیف جسٹس کا یہ کہنا درست ہے کہ اداروں کے کام انھوں نے ہی کرنے ہیں یہی آئین بھی کہتا ہے مگر اکثر ہوا یہ ہے کہ ہر حکومت نے اداروں کے کام میں مداخلت کی۔ ہر ضمنی الیکشن میں اس وقت کی حکومتوں نے مداخلت کرکے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کی کوشش کی جس کا ایک ثبوت گزشتہ سال کا ڈسکہ کا ضمنی انتخاب تھا جس میں پی ٹی آئی حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگے جس پر ڈسکہ الیکشن دوبارہ کرانے پر تحریک انصاف کی قیادت الیکشن کمیشن کے خلاف ہوگئی تھی اور وزیر اعظم کی بات چیف الیکشن کمشنر نے نہیں مانی تھی کیونکہ وہ غیر جانبدار تھے مگر سابق وزیر اعظم عمران خان چاہتے تھے کہ فوج اور الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہ رہیں اور عدالتیں بھی ان کے حق میں ہی فیصلے دیں۔ جب ایسا نہ ہوا تو ان کے خلاف پی ٹی آئی نے مہم شروع کردی جس کے نتیجے میں حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔

سابق وزیر فواد چوہدری کے بقول الیکشن کمیشن نے ہمارے خلاف 8 فیصلے دیے جنھیں عدالتوں نے ہمارے حق میں کردیا ۔ قاسم سوری کے حکم امتناعی پر دو سال میں فیصلہ نہ آنے کو بھی فواد چوہدری اپنے حق میں قرار دے سکتے ہیں جس پر وکلا نے بھی اظہار تشویش کیا۔ 8 سال بعد الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے جس کے خلاف بھی پی ٹی آئی عدلیہ سے ہی رجوع کر رہی ہے اور اس وقت عدالتوں میں سب سے زیادہ مقدمات پی ٹی آئی کی طرف سے ہی زیر سماعت ہیں۔ قومی اسمبلی سے خود پی ٹی آئی باہر ہے جس کی غیر موجودگی میں قومی اسمبلی خاموش نہیں بیٹھ سکتی تھی۔

اس لیے قومی اسمبلی نے نیب سمیت کچھ معاملات میں قانون سازی کی تو وہ بھی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردی جس پر جسٹس اعجاز الحسن کو بھی کہنا پڑ گیا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی جانے کے بجائے عدلیہ سے کیوں رجوع کر رہی ہے ، پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

پی ٹی آئی اپوزیشن میں آنے کے بعد حکومت، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کے خلاف عدلیہ سے رجوع کر رہی ہے اور عدلیہ کو پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت پر مجبور کرتی آ رہی ہے جس سے حکومت، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کے کام متاثر اور عدلیہ پر مزید بوجھ بڑھ رہا ہے اور عدلیہ بھی دیگر مقدمات کے بجائے پی ٹی آئی کے مقدمات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اس کے اپنے کیس متاثر ہو رہے ہیں

۔ پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی اسپیکر کے پاس پیش ہو کر نہ اپنے استعفے منظور کراتے ہیں نہ ایوان میں جاتے ہیں مگر مراعات بھی لے رہے ہیں، اور 9 استعفے منظور ہونے کے بعد پھر عدالت گئے ہیں اور ایوان کے فیصلے عدلیہ سے کرانے کا شوق پورا کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔