محرومیوں کی منجدھار میں پھنسے بلوچستان کے باصلاحیت نوجوان

محمد عاطف شیخ  منگل 16 اگست 2022
 نوجوانوں کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

 نوجوانوں کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

 امریکی صدرابراھم لنکن کے مقولہ ’’لوگوںکی حکومت ،لوگوں کے ذریعے ،لوگوں کے لئے‘‘ کوجس طرح جمہوریت کی روح سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح کسی بھی ملک میں سماجی ہم آہنگی، معاشی خوشحالی، سیاسی استحکام اور امن نوجوانوں کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔ جس کے حصول کے لیے یونیسکو کے اس نعرہ کو ایک رہنما اصول کی حیثیت حاصل ہے کہ ’’ نوجوانوں کے ذریعے، نوجوانوں کے ساتھ، نوجوانوں کے لیے‘‘( By youth, with youth, for youth )۔ یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جوکسی بھی ملک کے نوجوان طبقہ کو بااختیار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

کیونکہ وہ ممالک جہاںبرنا(نوجوانوں) کی صورت میں موجود انسانی وسائل کی کثرت ہے وہ ممالک آنے والے وقتوں میں دنیا کو لیڈ کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ اگر اُنھوں نے اپنی پالیسیوں اور اقدامات کو یونیسکو اس رہنما اصول کے مطابق ڈھال لیاتو ۔

پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے جہاں آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس حقیقت کا ادراک تو سب ہی کو ہے۔ لیکن ملک میں نوجوانوں کی تعداد اور آبادی میں اْن کے تناسب کے حوالے سے اکثرمختلف اعدادوشماراور بیانات سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں ۔کہنے والے بڑی آسانی سے ملک کی آدھی آبادی یا کبھی تو اْس سے بھی زائد کو نوجوانوں کی آبادی قرار دے دیتے ہیں۔

یا پھر نوجوانوں کے Age groupکا تعین اپنے طور پر کرکے اْن کی آبادی میں رود و بدل کرتے رہتے ہیں اور اکثر ایسا اُن فورمز پر بھی دیکھنے میں آتا ہے جہاں اس طرح کی غلطی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کے عمر کے گروپ کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حد نوجوانوں کی آبادی کے حقیقی تعین میں مدد کرتی ہے۔ دنیا میں دو ایج گروپس کو نوجوانوں کی آبادی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک اقوام متحدہ کا متعین کردہ عمر کاگروپ دوسرا دولتِ مشترکہ کا۔

پاکستان میں 2017 میں ہونے والی خانہ و مردم شماری نوجوانوں کی تعداد اور آبادی میں اُن کے تناسب کی جو حقیقت سامنے لائی ہے اِس کے مطابق وطن عزیز کی 27 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 15 سے29 سال کے درمیان ہے۔ عمر کے اس گروپ کو دولت ِمشترکہ نوجوانوں کی آبادی قرار دیتاہے۔ پاکستان سرکاری طور پر دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ Age group یعنی 15 سے 29 سال کو نوجوانوںکی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ 15 سے24 سال کی عمر کے افراد کو نوجوان آبادی کے زمرے میں لاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے طے شدہ نوجوانوں کے عمر کے گروپ کے لحاظ سے ملک کی 19 فیصد آبادی (نوجوانوں) پر مشتمل ہے۔یعنی ملک کو کا ہر چوتھا فرد دولت ِ مشترکہ کی تعریف کے مطابق اور ہرچھٹافرداقوام متحدہ کے متعین کردہ عمرکے گروپ کے لحاظ سے نوجوان ہے۔بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ جس کی آبادی کا25.4 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔یعنی ہر چوتھے فرد کی عمر15 سے29 سال کے درمیان ہے۔ وطن عزیز کے5.6 فیصد نوجوان بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔

جبکہ صوبے کے52 فیصد نوجوان آبادی مردوں پر اور 48 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ صوبہ کے70 فیصد نوجوان دیہات میں رہتے ہیں اور 30 فیصد شہری علاقوں کے مقیم ہیں۔ بلوچستان جو ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ پسماندگی کا شکار ہے ۔ سماجی ناہمواریاں، دہشت گردی، توانائی کا بحران، بنیادی انسانی حقوق کی شکستہ صورتحال، کرئیر کونسلنگ کا نہ ہونا ، روزگار کے محدودمواقع اوراُن کی غیر یقینی صورتحال ، صوبے کے نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے اقدامات کی کمی کے علاوہ نوجوانوں کی رائے کو اہمیت نہ دینے جیسے کئی ایک عوامل یہاں کے نوجوانوں کوبااختیار بنانے کی راہ میں نمایاں رکاوٹ ہیں۔

تعلیم یافتہ اور ہنر مندنوجوان ہر قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں ۔ جو قوموں اور معاشروں کی ترقی کو مہمیز کرتے ہیں۔تعلیم یافتہ نوجوان اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ باخبر ہوتے ہیںاور اِن حقوق کے احترام کو یقینی بنانے کے اہل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم نوجوانوں کو اہم مہارتیں، تنقیدی سوچ اور اعتماد فراہم کرتی ہے جو زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے ہر ایک کو توانا بنیادیں مہیا کرتی ہیں۔ نوجوانوں کی تعلیم تک رسائی، معیار اور استطاعت کے لیے کی جانے والی کوششیں ترقی کے عمل میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔لیکن اسے بلوچستان کی بدقسمتی کہیئے کہ صوبے کے تو 51 فیصد نوجوان ناخواندہ ہیں۔

جو فاٹا کے بعد سب سے زیادہ تناسب ہے۔ پریشان کن صورتحال یہ ہے کہ صوبے کے 40 فیصد مرد نوجوان اَن پڑھ ہیں جو ملک میں سب سے زیادہ تناسب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی 62.5 فیصد نوجوان خواتین لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں یہ تناسب فاٹا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جب آپ کے آدھے نوجوان جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوں تو آپ کیسے سماجی ہم آہنگی، معاشی خوشحالی، سیاسی استحکام اور امن حاصل کرکرسکتے ہیں؟ شاید بلوچستان جس کیفیت سے گزر رہا ہے اُس کی ایک بڑی وجہ یہاں کے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلیم کے دھارے سے دور ہونا ہے۔

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی آج کی دنیا مقابلہ کی دنیا ہے جہاں اعلیٰ سے اعلیٰ جدید تعلیم اور ہنر میں مہارت ہی آپ کو آگے بڑھنے اور اپنامقام حاصل کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ کیونکہ لیبر مارکیٹ میں کامیابی سے داخل ہونے کے لئے نوجوانوں کی تعلیم اور ٹریننگ بہت ضروری ہے ۔اس حوالے سے بلوچستان کی جو صورتحال مردم شماری کے نتائج کی صورت میں سامنے آتی ہے۔اس کے مطابق 15 سے29 سال کی عمر کے ایسے نوجوان جو رسمی تعلیمی عمل کا حصہ بنتے ہیں اُن کا11 فیصد پرائمری بھی پاس نہیں۔18.6 فیصد نے پرائمری مکمل کی ہوئی ہے۔

22.4 فیصد مڈل، 25.5 فیصد میٹرک پاس ہیں ۔ لیکن جیسے ہی کالج کی سطح کی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے تو صورتحال ہر درجہ کے ساتھ ساتھ تنزلی کی جانب بڑھنے لگتی ہے۔ صوبے میں رسمی تعلیم ( Formal Education) حاصل کرنے والے کل طلباء کا صرف 11.7 فیصد انٹرمیڈیٹ، 6 فیصد گریجویشن اور 2 فیصد ماسٹر کی سطح تک کی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔صوبے میں کالج سے یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم میں نوجوانوں کی کم تر شرح بہت سے سولات کو جنم دیتی ہے۔

٭ڈاکٹر شفیق الرحمان ، وائس چانسلر جامعہ بلوچستا ن، جو کہ خود ہیومن ریسورس منجمنٹ میں بلوچستان کے پہلے پی ایچ ڈی ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ صوبہ میں یونیورسٹی سطح کی تعلیم میں طلبا ء کی کم تعداد کے داخلہ کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔’’ اس کی سب سے بڑی وجہ غربت اور پسماندگی ہے۔ مالی حالات ابتر ہونے اور خاندانی کنبہ کا بڑا ہونا دو بڑی وجوہات ہیںجسکی وجہ سے طلباء ذریعہ معاش کے حصول کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اور یونیورسٹی تعلیم کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ شعور اور آگاہی کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے‘‘۔صوبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت کے تناظر میں ڈاکٹر شفیق الرحمان کا کہنا ہے ۔ کہ ’’ سی پیک کا صوبے کی ترقی میں اہم کردار ہے جس کے لیے ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورہنر مند نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔

اسی طرح معدنیات اور فشریز ہمارے ایسے ایریاز ہیں جہاں پر پڑھے لکھے نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ جو یونیورسٹی ایجوکیشن کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ پیشہ وارانہ شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء کا کردار بہت اہم ہے‘‘۔ اس صورتحال میں پھر توجہ کس پہلو پر دی جائے طلباء کی تعداد بڑھانے پر یا یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر؟۔ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ’’ہمارا صوبہ تعلیمی معیارکے حوالے سے کافی حد تک پیچھے رہا ہے۔

صوبے کی ترقی صرف اور صرف تعلیم بلکہ معیاری تعلیم سے منسلک ہے۔ بلوچستان جیسے غریب اور پسماندہ صوبے میں جہاں جامعات کی تعداد پہلے ہی محدود ہے۔ اِنھیں سب سے پہلے تعلیمی معیار کی بہتری کی طرف جانا چاہیئے۔ کیونکہ اسی طرح ہم انٹرنیشنل اور نیشنل اسٹینڈرڈ کو حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ہمارے معیار تعلیم میں بہتری آئی ہے۔ اب ہمارا جوان انٹر نیشنل مارکیٹ میں اپنے پیٹنٹ کے ذریعے انٹر ہورہا ہے۔ اسکی مثال یہ ہے کہ ہمارا جوان سمارٹ ہیلمٹ فار مائنز کے پیٹنٹ کے ساتھ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اپنی جگہ بناچکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہماری جامعات کی عالمی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے۔ جوکہ خوش آئند ہے۔ جس کی بڑی وجہ صوبے میں تعلیمی معیار میں بہتری کا آ نا ہے۔ مگر اب بھی اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمیں اپنی جامعات کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے‘‘۔صوبے میں یونیورسٹی سطح کی تعلیم سب کے لیے کو ایک بڑا چینلج قرار دیتے ہوئے وی سی بلوچستان یونیورسٹی کو کہنا ہے کہ’’ ایسا صرف آگاہی اور شعور کی بیداری س کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ تاکہ یہاں کا نوجوان تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی حاصل کرکے اپنے خاندان کی کفالت کا باعث بن سکے۔ انٹر پرینیور شپ اور اس جیسے نئے تعلیمی مضامین ہی واحد ذریعہ ہوسکتے ہیں۔

جو ان چیلنجز کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں‘‘۔صوبے کی محدود جاب مارکیٹ کیا جامعات سے فارغ التحصیل تمام طلباء کو اپنے اندر ضم کرسکے گی؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شفیق الرحمان کا کہنا ہے کہ ’’ ہمارا صوبہ ہر جوان کو ملازمت فراہم نہیں کرسکتا بلکہ کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ محدود جاب مارکیٹ نہ ہی اپنے اندر اتنی گنجائش رکھتی ہے۔ کہ سب کو اپنے اندر سمو لے۔ اس چیز پر نظر رکھتے ہوئے۔ جدید فنون اور فنی تعلیم اسکا واحد حل ہے۔ Entrepreneurship کے نظریہ کی وسعت اور عملی کورسز کی شروعات ایسے تمام عوامل ہیں جو یہاں کے نوجوانوں کو بیروزگاری کی دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ جس سے ہمارا جوان نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کو بھی روزگار دے گا اور مایوسی اور ڈپریشن کے اندھیروں سے نکل پائے گا‘‘۔

جیسا کہ وائس چانسلرجامعہ بلوچستان نے کہا کہ صوبے میں یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم میں نوجوانوں کے کم داخلوں کی ایک وجہ صوبے میں جامعات کی محدود تعداد بھی ہے۔ جو 2018-19 تک کے دستیاب اعدادوشمار کہ مطابق صرف9 ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق انٹر، ڈگری،کامرس اور پوسٹ گریجویٹ کالجز کی تعدادصرف136 ہے۔ 27 پروفیشنل کالجز میں موجود ہیں۔7 کیڈیٹ کالج ، 4 ریزیڈینشل کالج اور30 ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس اس کے علاوہ موجود ہیں۔یعنی صوبے میں نوجوانوں کے لیے میٹرک سے اوپر کی سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کل213 تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ اب اس صورتحال میں مسابقتی دنیا میں بلوچستان کے نوجوانوں کا کتنا حصہ اور مقام ہوگا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔

٭ صوبے میں کالج کی سطح کی تعلیم میں نوجوانوں کی کم دلچسپی کے مختلف عوامل اور اِن کو دور کرنے کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کے بارے میں بلوچستان اکیڈمی فار کالج ٹیچرز کی جوائنٹ ڈائریکٹر شبانہ سلطان سے بات کی تو اُنھوں نے بتا یا کہ ’’بلوچستان میں زیادہ تر آبادی دیہی ہے اور شہری آبادی کا تناسب کم ہے۔

لہذا دیہی آبادی میں رہنے والے بچوں کے لیے انٹر میڈیٹ اور بیچلر کی سطح پر پڑھنے کے مواقع کم ملتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں پرائمری ایجوکیشن اور مڈل تک کی تعلیم کے مواقع بھی کم ہیں خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ۔ اور جو چیدہ چیدہ اسکولز ہیں وہ دور دراز علاقوں میں ہیں جہاں فاصلہ زیادہ ہے۔ لہذا بچے/ بچیاں اس سلسلے میں مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ اور فرض کریں کہ اگر میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلباء انٹرمیڈیٹ میں داخلہ چاہتے ہیں تو اُنہیں کسی شہری علاقے میں سفر کرنا پڑے گا اور داخلہ مل جانے کی صورت میں اُنکی رہائش کا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

کیونکہ شہروں میںجو کالج ہیں اُن میں ہوسٹل کی سہولیات نا کافی ہیں۔ ایک حد تک تو اُن میں بچوں کی رہائش کا انتظام ہوسکتا ہے لیکن سب کے لیے ممکن نہیں۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں زیادہ تر آبادی غربت سے دوچار ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جہاں خاندانوں کے لیے نان شبینہ ایک بڑا مسئلہ بنادیا ہے وہاں اُن کے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک خواب بنا دیا ہے‘‘۔ صوبے میں کالج سطح کی تعلیم سب کے لیے اس چیلنج کو کیسے پورا کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شبانہ سلطان کا کہنا ہے کہ ’’ اسکول میں تعلیم کے لیے تو یہ نعرہ موجود ہے ہی کہ ’’ تعلیم سب کے لیے‘‘ لیکن اب ایک اور نعرہ بھی ہونا چاہیئے کہ ’’ کالج کی تعلیم سب کے لیے‘‘ لیکن یہ صرف اُسی وقت ممکن ہے جب پرائمری اور سیکنڈری اسکول تک کی تعلیم سب کی پہنچ میں ہو۔

اس کے علاوہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے چاہیئے تاکہ لوگوں میں غربت کم ہو۔ جن علاقوں میں مڈل اسکولز ہیں اُنھیں ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولز کا درجہ دینا چاہیے۔ کالج کی سطح پر تعلیم کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈ مختص کرنا چاہیئے۔

کیونکہ ایجوکیشن سیکٹر پلان میں ہائر ایجوکیشن کے لیے بالکل بھی پراجیکٹس نہیں ہیں‘‘۔ اُنھوں نے بتایا کہ’’ پرائمری ایجوکیشن کے فروغ کے لیے تو بہت ساری این جی اوز بھی حکومت کے ساتھ ساتھ کام کر رہی ہیں لیکن ہائر ایجوکیشن کے معیار کو بڑھانے اور ان کے مسائل کو کم کرنے کے لیے حکومت کے علاوہ کوئی بھی ادارے / تنظیمیں کام نہیں کر رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یونیسیف، ورلڈ بینک کے ہائر ایجوکیشن کے لیے بھی پراجیکٹس ہونے چاہیئے‘‘۔پروفیسر شبانہ سلطان کا کہنا ہے کہ ’’جہاں پر کالجز موجود ہیں ان میں انسانی وسائل اور انفراسٹرکچر پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

کیونکہ اگر سہولتیں اور ضروریات نہ ہوں تو طلباء خاص کر بچیوں کا ڈراپ آؤٹ بڑھ جاتا ہے۔اس حوالے سے حکومتی سطح پر قابل عمل پلاننگ کی ضرورت ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو بھی اکثر پلاننگ ہوتی ہے وہ زمینی حقائق کو جانچے اور جانے بغیر کی جاتی ہیںجس کا نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکلتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ انٹر کالجز بنانے کے بجائے جہاں جہاں پر انٹر کالجز موجود ہیں اُنھیں ڈگری کا لجز کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ وہاں اسٹاف کی کمی کو پورا کرنا ضروری ہے‘‘۔

صوبے میں کالج کی سطح کی تعلیم کے فروغ اور اُس کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں جوائنٹ ڈائریکٹر بلوچستان اکیڈمی فار کالج ٹیچرز شبانہ سلطان کا کہنا ہے کہ ’’صوبائی حکومت کالجز کی سطح پر تعلیمی سہولیات فراہم کر نے میں پر عزم ہے۔ اور اس سلسلے میں سنجیدگی سے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ جن میں طالب علموں کے لیے اسکالر شپس کے زیادہ سے زیادہ مواقع قابلِ ذکر ہیں۔ دوسرے صوبوں کے کالجز میں صوبہ بلوچستان کے طالب علموں کے لیے نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ جوکہ قابلِ تحسین ہے۔

کالجز میں انفراسٹرکچر کی کمی کو پورا کیا جارہا ہے۔ جبکہ ایک اہم اور قابلِ ذکر قدم سالانہ امتحان کی جگہBS کا فروغ ہے جو کہ سمسٹر سسٹم ہے اور انٹرنیشنل سطح پر قابلِ قبول ہے۔ کالجز کے لیکچررز اور پروفیسرز کو ایم فل/ پی ایچ ڈی کے لیے زیادہ سے زیادہ NOC دیئے جارہے ہیں۔ تاکہ اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھاسکیں۔ اسٹاف کی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لیکچررز کی بھرتیاں کی جارہی ہیں۔ جسکا ثبوت گزشتہ سال 700 نئے لیکچررز کی بھرتیاں قابلِ ذکر ہیں۔ نئے لیکچررز کے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ اپنی تعیناتی کے فوراً بعد پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرکے اپنی اہلیت اور قابلیت بڑھائیں تاکہ طلباء کو بہتر انداز میں پڑھا سکیں‘‘۔

ان تعلیمی حالات کی موجودگی کے ساتھ ساتھ چند دیگر تلخ زمینی حقائق جن میں صوبے میں صنعتوں کا فقدان، روز بروز پانی کے کم ہوتے وسائل کی وجہ سے زراعت کامحدود ہوتے جانا، صوبہ کے نوجوانوں کو کاروبار کے لیے سود سے پاک آسان شرائط پر قرض کی فراہمی میں کمی، کاروبار کی عملی تربیتی مواقعوں کا قابلِ ذکر نہ ہونا وغیرہ۔ یہ مسائل صوبہ میں بے روزگاری اور انڈر ایمپلائمنٹ کا پیش خیمہ بنتے ہوئے نوجوانوں کے معاشی مسائل پر منتج ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے نوجوانوں کی بہت کم تعداد کو بیرون ملک کام کے مواقع مہیا ہوپاتے ہیں کیونکہ اعلیٰ معیاری تعلیم اورجدید ٹیکنیکل ٹریننگ سے اکثریت کی محرومی اِنھیں بیرون ملک ملازمت سے بھی دور رکھے ہوئے ہے۔یوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع یہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے کم ہیں اور زیادہ تر کاانحصار سرکاری ملازمتوں پر ہے لیکن ان تمام زمینی حقائق کے برخلاف وفاقی ملازمتوں میں صوبے کا کوٹہ صرف6 فیصد ہے۔ یہ صورت حال ایک مربوط یوتھ ایمپلائمنٹ سٹریٹیجی کا تقاضا کرتی ہے تاکہ صوبے میں نوجوانوں کی بے روزگاری پر واضح اثر پڑے۔

لیکن فی الحال صورت حال چھٹی خانہ و مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق یہ ہے کہ صوبے کے 15 سے29 سال کی عمر کے 18 فیصدافراد کام کرتے ہیں جن میں گھریلو غیر اُجرتی معاونین(% of WORKED (INCLUDED UN PAID FAMILY worker)) بھی شامل ہیں۔ یہ شرح پاکستان بھر میں سب سے کم ہے۔جبکہ اسی عمر کے گروپ کے10.2 فیصد کام کے متلاشی (% of SEEKING WORK)ہیں۔ یہ تناسب ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

اگر ہم مرد نوجوانوں کی صورتحال دیکھیں تو صوبے کہ صرف 31.2 فیصد کام کررہے ہیں جو ملک میں سب سے کم تر شرح ہے جبکہ 17.1 فیصد کو کام کی تلاش ہے جو ملک میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ خواتین کے حوالے سے حقائق بھی بہت دلخراش ہیں کہ صوبے کی صرف 3.6 فیصد نوجوان خواتین کام کرتی ہیں جن میں گھریلو غیر اُجرتی معاونین بھی شامل ہیں جو پورے ملک میں سب سے کم ترین شرح ہے جبکہ کام کی متلاشی خواتین کا تناسب 2.7 فیصد ہے جو پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

٭پروفیسر توصیف اختر، شعبہ معاشیات جامعہ بلوچستان کے سابق سربراہ ہیں اس کے علاوہ آپ پلاننگ کمشن آف پاکستان کے بلوچستان سے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ بلوچستان میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقعوں کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ’’ بلوچستان میں نوجونوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے پہلے تو دستیاب وسائل اور حالات کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ ایک تو بلوچستان میں زراعت اور انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے۔ روز بروز پانی کی کم ہوتی مقدار نے صوبے میں زراعت اور مال داری کے لیے سنگین چلینجز پیدا کر دیئے ہیں۔

اس لیے صوبے میں روزگار کا زیادہ تر انحصار سرکاری ملازمتوں پر ہے۔ صوبائی ملازمتیں محدود ہیں جبکہ وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا کوٹہ 6 فیصد ہے۔اس کے علاوہ صوبے کے نوجوانوں کو کاروباری وسائل(آسان قرضہ جات ) اور تربیت کی بھی کمی کاسامناہے۔ بیرونِ ملک روزگار کے حصول کے لیے صوبے کے نوجوان جدید تعلیمی لحاظ سے اور جدید فنی مہارتوں کے اعتبار سے ابھی کافی پیچھے ہیں۔ کلائیمیٹ چینج نے صوبہ کو قدرتی آفات کے سامنے اور زیادہ vulnerable بنا دیا ہے۔ یہ وہ معروضی حالات ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبے میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے Avenues تلاش کرنا ہوں گے۔

سب سے پہلے اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک میں نوجوانوں کے روزگار کی ذمہ داری مکمل طور پر حکومت نہیں لے سکتی ۔پرائیویٹ سیکٹر بھی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا صوبے میں پرائیویٹ سیکٹر کو کاروبار کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات دینا ہوں گی تاکہ نوجوانوں کے لیے جاب مارکیٹ بڑھ سکے۔ ماضی میںصوبائی اور وفاقی حکومتوںکا کوئی فعال کردار نہیں رہا کہ بلوچستان دوسرے صوبوں کے برابر آسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے سرداری نظام نے بھی بلوچستان کو پیچھے رکھا ہے۔

یوں عمل کے فقدان کی وجہ سے بلوچستان کے نوجوان آج بھی محرومیوں کا شکار ہیں وہ محنت بھی کر رہے ہیں لیکن اُنھیں وہ سب کچھ نہیں مل رہا جن کے وہ حقدار ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ اب ہم تھوڑا Change of Faculty  کی جانب جائیں ۔صرف چند ٹریڈز اور ایک جیسے طالب علم پیدا کرنے یا بنانے سے ہمیں مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ ہمیں نئی ٹیکنالوجیز اور نئے ڈسپلنز کو علمی اور تربیتی سطح دونوں پر متعارف کرانا ہوگا۔ خصوصاً بلوچستان معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے ۔

اس لیے ہمیں منرل اور مائننگ کے نئے ڈسپلنز اور فنی تربیت کا فروغ دینا ہوگا۔ اسی طرح فشریز کے شعبہ میں بھی کچھ ایسی ہی اپروچ کی ضرورت ہے۔ کمپیوٹر،آئی ٹی، سافٹ وئیر ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی، آرٹیفیشل انٹیلجنس جیسے بے شمار ایسے شعبہ جات موجود ہیںجن میں جدید کورسز اور تربیتی مواقعوں کو ہی اگر فوکس کرلیا جائے تو صوبے سے غربت اور بے روزگاری کو جڑ سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کو آپ اِن شعبہ جات کی تعلیم ، تربیت اور کاروباری وسائل کے حوالے سے Hub صوبہ ڈیکلئیرڈ کردیں۔ تاکہ بلوچستان کے طلباء کے لیے جاب اور کاروباری مارکیٹ میں وسعت لائی جاسکے۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے نوجوانوں کی بیرونِ ملک ملازمتوں کے حصول پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے وکیشنل ٹریننگ کے جدید کورسز کے ذریعے بلوچستان کے نوجوان کو اس انداز میں ہنر مند بنایا جاسکتا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں عالمی معیارات کے مطابق اپنے ہنر کا استعمال کرسکتا ہے۔ رہی بات قرضہ جات کی فراہمی کی اس میں دو پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ماضی میں نوجوانوں کو اپنا کام شروع کرنے کے لیے دیئے گئے قرضہ جات کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے اور بینکوں کاریکوری ریٹ بھی بہت کم رہا اس لیے بینک اب اس طرح کی اسکیمیں متعارف کرانے میں حیل وحجت سے کام لیتے ہیں دوسرا بلوچستان کے علاقائی ماحول میں اکثر سود ی اُمورسے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے صوبے میں نئے کاروبار کے قرضہ جات کے موثرنہ ہونے کی۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ اس حوالے سے کوئی ایسی صورت نکالی جائے جو بینک اور صوبے کے رسم و رواج سے مطابقت رکھتی ہو۔

اور سب سے اہم نوجوانوں کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت کو یقینی بنایاجائے۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو متوسط طبقہ کے ایسے نوجوانوں کو آگے لانا چاہیئے جن کے اندر پوٹینشل موجود ہے جو صوبے کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔علاوہ ازیں stakeholder سے مشاورت کا لازمی اہتمام کیاجائے‘‘۔

نوجوان اس لیے اہم ہیں کہ وہ ہمارا مستقبل ہیں۔ آج وہ ہمارے شراکت دار ہیںتو کل وہ لیڈر بنیں گے۔فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اگرچہ وہ کسی بھی ملک یا علاقہ میں سیاست اور اقتدار کا نقشہ تبدیل کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔ انتخابی عمل میں نوجوانوں کی بطور نمائندہ اور ووٹر دونوں طرح سے شرکت بہتر قیادت کو سامنے لانے کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں تو بھر پور دلچسپی لیتی ہیں لیکن نوجوانوں کو پارلیمنٹ میں لانے کے حوالے سے کسی واضح پالیسی کے فقدان کا شکار ہیں۔

اور نوجوان قیادت بھی صرف سیاسی جماعتوں کے ایک انتخابی نعرہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اگرچہ پارٹی منشوروں میں نوجوانوں کو الیکشن میں ٹکٹس دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس سے متضاد ہے۔نوجوانوں کی صلاحیتوں پر عدم اعتماد اور نوجوانوں کے امور خاص کر سیاسی عمل اور فیصلہ سازی میں اْن کی شرکت کو یقینی بنانے میں ارباب اختیار کی دلچسپی کا فقدان نوجوانوں کو انتخابات میں اپنا حق رائے دہی کے استعمال سے دور رکھتا ہے۔

بلوچستان میں اس وقت نوجوان ووٹر کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ الیکشن کمشن آف پاکستان کے اِن اعداوشمار سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کے تجزیہ کے مطابق 4 نومبر2021 تک صوبے کے رجسٹرڈ ووٹرز کے 22 فیصد کی عمر 18 سے 25 سال کے درمیان ہے۔ جو صوبے میں عمر کے گروپ کے حوالے سے ووٹرز کادوسرا بڑا تناسب ہے جبکہ پہلے نمبرپر26 سے 35 سال کی عمر کا گروپ ہے جو کل صوبائی رجسٹرڈ ووٹرز کا 27 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنما اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ نوجوان سیاسی عمل میں شامل ہونے کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے ہیں۔

اور اس طرح کے کسی بھی فیصلے کو رسک قرار دیا جاتا ہے اور کوئی بھی پارٹی انتخابات میں اس طرح کا رسک لینے سے کتراتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین کی تعداد میںجن4 4 ممبران کی تاریخ پیدائش اسمبلی کی ویب سائیٹ پر موجود ہے ۔ ان میں سے صرف3 ارکان کی عمر 2018 کے انتخابات کے وقت29 سال یااس سے کم تھی۔

بلوچستان میں نوجوانوں کا ایک اورغور طلب پہلو یہ ہے کہ صوبے میں موجود نوجوانوں کا 43 فیصد شادی کے بندھن میں بندھا ہوا ہے۔مرد نوجوانوں کا 33 فیصد اور خواتین جن کی عمر 15 سے29 سال کے درمیان ہے اُن کا 54 فیصد اور15 سے 24 سال کی عمر کی لڑکیوں کا 41.5 فیصد شادی شدہ ہے۔

اور یہ سب تناسب فاٹا کے بعد ملک بھر میں دوسرے نمبر پر ہیں۔اس وقت صوبے میں 15سے24 سال کی عمر (ماں بننے کا سب سے زیادہ متحرک عمر کا گروپ ) کی خواتین کے تناسب کا اگر ہم جائزہ لیں تو صوبے کی تمام خواتین کی تعداد کا18.2 فیصدہے یعنی صوبے کی ہر چھٹی خاتون اس گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ 15 سے 29 سال کی عمر کی خواتین صوبے میں موجود خواتین کی کل آبادی کے 25.4 فیصد پر مشتمل ہیں۔صوبے کی تقریباً ایک چوتھائی تعدادپر مشتمل نوجوان خواتین کے حوالے سے ہمارے معاشرتی رویئے بھی قابل توجہ ہیں۔ انھیں آگے بڑھنے کے کم مواقع مہیا کرنا اور ایسا کرنے کی بنیاد ان کی شادی کو بنانا ہمارا ایک عمومی طرزعمل بن چکا ہے۔

کیونکہ کافی قابل اور لائق بچیوںکی شادی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہے اور پھرکم عمری میں ماں بننا بچیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ اْن کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز اور آئی سی ایف کے پاکستان مٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019 (PAKISTAN MATERNAL MORTALITY SURVEY 2019) کے مطابق بلوچستان میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی تعداد 298 فی لاکھ کیسزہے جو ملک بھر میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔جس کی ایک نمایاں وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے مخصوص قبائلی ماحول میں خواتین کے علاج اور خاص کر زچگی کے کیسز میں اکثر مرد حضرات خواتین کو کسی مرد ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے ہر صورت میں گریز کرتے ہیں یہ طرز عمل صوبے میں لیڈی ڈاکٹر ز کی زیادہ تعداد کی صحت کے اس خاص شعبے میں موجودگی کو بڑھا دیتا ہے لیکن حقیقت ضرورت کے برعکس ہے ۔

حکومت بلوچستان کے ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف بلوچستان کے مطابق 2018-19 میں صوبہ میں خواتین ڈاکٹرز کی تعداد محض 538 تھی جو صوبہ کے ڈاکٹرز کا صرف 22 فیصدتعداد ہے۔ اور اس کمی کی سب سے بنیادی وجہ بھی لڑکیوں کو ڈاکٹری پڑھنے کے بعد پریکٹس کی اجازت نہ دینا اور اُن کی شادی کردینا ہے۔اور جو لیڈی ڈاکٹرز پریکٹس کرتی بھی ہیں تو اُ ن کی اکثریت کوئٹہ شہر میں ہی موجود ہے صوبے کے دیگر علاقوں میں یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے۔

سماجی و ثقافتی حوالوں سے اگر دیکھیں تو ہمارے معاشرے میںعورت کو صحت کی سہولتوں تک رسائی سے قبل خاندان کے افراد کی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ ان کی حیثیت گھر میں ہمیشہ کمتر فرد کی سی ہوتی ہے۔ ان کی خود مختاری کے فقدان اور فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی عدم شرکت عورتوں کی صحت اور حاملہ ہونے کے لئے سنجیدہ نتائج کا باعث بنتی ہے۔ ثقافتی اقدار کی وجہ سے عورت کی کم سماجی حیثیت انہیں صحت کی سہولتوں تک رسائی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔

جو ماؤں کی بلند شرح اموات اوردیگر بیماریوں کا شکار ہونے کی بڑی وجہ ہے۔اس کے علاوہ ناخواندگی کی وجہ سے دیہی علاقوں کی عور تیں مانع حمل ادویات اور خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے بھی عموماً نا بلد ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں شر ح بارآوری زیادہ ہے۔پاکستان سوشل اینڈ لیوونگ اسٹینڈرڈز میزرمنٹ سروے2019-20 کے مطابق بلوچستان کے دیہی علاقوں میں 15 سے24 سال کی عمر کی خواتین میں خواندگی کی شرح صرف31 فیصد ہے۔ جبکہ صوبائی سطح پر یہ شرح40 فیصد ہے جو وطن عزیز کے تمام صوبوں میں سب سے کم شرح ہے اسی طرح مجموعی طور پر صوبے میں نوجوانوں(15 سے24 سال) میں شرح خواندگی صرف 57 فیصد ہے جوملک بھر میں سب کم تر شرح ہے۔

نقیب اللہ خالدبلوچستان کے ضلع پشین کی تحصیل برشور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک مخصوص اسکالر شپ پر گجرات یونیورسٹی سے ایم اے ابلاغیات کرچکے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر عملی صحافت سے منسلک ہیںفیس بک پر اور یوٹیوب پر اپنا نیوز شو کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایسوسی ایشن پاکستان کے ترجمان ہیںخود بھی نوجوان ہیں اور بے روزگار بھی ہیں۔ اپنے صحافتی پراجیکٹس کے سلسلے میں نوجوانوں سے ملتے رہتے ہیں۔ مختلف امور پر صوبے کے نوجوانوں کا نقطئہ نظر جاننے اور اسے رپورٹ کرنے کے آپ کو بہت سے مواقع ملتے رہتے ہیں۔بطور طالب علم اِنھیںبلوچستان کے علاوہ پنجاب میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ دونوں کے تعلیمی معیار کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ بلوچستان اور پنجاب کے تعلیمی نظام میں بہت فرق ہے۔

بلوچستان کے تعلیمی نظام میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی رونمائی موجودہ حالات میں نہیں ہوئی یا اگر ہوئی بھی ہے تو بالکل اوائل میں ہے۔ پنجاب میں تعلیمی نظام بہت ہی دوستانہ سہولیات سے بھراہوانظام ہے جسمیں طلباء بھرپور طریقے سے مستحکم ہو کر خوش اسلوبی کے ساتھ نہ صرف اپناتعلیمی کیریئر کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں بلکہ ملکی ترقی میں بھی اپنے حصے کا دیا جلا کے ملکی دانشوروں کے ہم نام ہو جاتے ہیں‘‘۔

کیا بلوچستان کے نوجوانوں کو ملک کی دیگر جامعات میں تعلیم کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملنے چاہیئے؟ ۔ اس سوال کے جواب میں نقیب اللہ کا کہنا ہے کہ’’ بلوچستان ایک بہت ہی پسماندہ صوبہ ہے ملک کے ہر جامعہ میں بلوچستان کے طلباء کو پڑھنے کیلئے مواقع میسر ہونا لازمی ہے ، ایک تو یہ طلباء باہر سے پڑھ کر بلوچستان کے تعلیمی نظام میں بہترین کارکردگی اداکر سکتے ہیں ۔دوسری طرف مختلف لوگوں کی بنائی ہوئی Mind Setکا قریب سے مشاہدہ کر کے اپنی سوچ و فکر کے ذریعے ملکی ترقی کیلئے کمر بستہ ہو سکتے ہیں۔

ملک کی دیگر جامعات میں پڑھنے سے بلوچستان کے طلباء کو مختلف تہذیبوں کا مطالعہ اور نزدیک سے مشاہدہ کرنے میں بہت آسانی ہو سکتی ہے یہی مطالعے اور مشاہدات خود بخود بلوچستان کے طلباء کی سوچ و فکر میںترقی یافتہ تبدیلی کا محرک بنے گا۔ یہ عمل پنجابی،سندھی اور دیگر اقوام کے ساتھ یگانگت اور ہم آہنگی اور بالخصوص ملکی ترقی میں دوسرے صوبوں کے طلباء کے ساتھ ہم صف ہونے کیلئے معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

ملک کے دیگر جامعات میں پڑھنے سے بلوچستان کے طلباء دنیا کے ساتھ ربط پیدا کرنے کافی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ پنجاب سندھ اور کے پی میں پہلے ہی سے لوگ باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ میں ہیں‘‘۔بلوچستان کے نوجوانوں کے مسائل اور اُن کے حل کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’ بلوچستان کے نوجوان باہمت ،باصلاحیت اور مستقل مزاج ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ملکی معیشت کو بدلنے والے صوبے کے نوجوان زیادہ تر بے روزگار ہیں۔ سہولیات کی عدم دستیابی، انٹرنیشنل لابیز ، صوبائی سطح پر نوجوانوں کی بطور سیاسی لیڈرشپ کی عدم موجودگی، بلوچستان کے لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بغض و تنگ نظری ، قبائلیت ، سرداری ،ملکی اور خانی نظام، اپنے ساحل اور وسائل پر عدم حاکمیت کی وجہ سے بلوچستان کے نوجوان شدید محرومیوں کا شکار ہیں اور اُن میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے نوجوان قانون شکن بنتے جارہے ہیں کیونکہ بے روزگاری میں کوئی بھی انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔

ان سارے مسائل کے حل کیلئے سب سے پہلے بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا پڑے گاہر ایک کو اپنے کام اور پیشے کے ساتھ مخلص ہوکر ملکی تعمیرات کو اپنا سمجھ کر آئیندہ نسلوں کیلئے حُب الوطنی کا ثبوت دینا ہوگا۔ دوسری طرف ملک کے بڑے صوبوں اور حکمرانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان کیلئے فی الفور کار آمد اصلاحات پر علمدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل ،معدنیات ،انٹرنیشنل روٹس میں بلوچستان کا حصہ مختص کیا جائے، تعلیم، صحت ، معیشت کے نظام میں بہتری ، اچھی سیاسی لیڈر شپ اورنوجوانوں کو باہر کے ساتھ جوڑکر ان سارے مسائل کو حل کیا جاسکتاہے مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب ان تمام چیزیں پر حقیقی معنوں میںمخلصانہ بنیادوں پر عمل کیا جائے‘‘۔

صوبے میںغربت بھی ایک بڑی وجہ ہے جو بلوچستان میں تولیدی صحت کی سہولیات اور ان سے استفادہ کے رجحان کی بد حالی کا باعث بن رہی ہے۔ غربت زدہ علاقوں میں اکثر اوقات عورتیں مردوں سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔بلوچستان کے دیہی علاقے غربت کی زیادہ لپیٹ میں ہیں جہاں لوگ احساس محرومی کا شکار ہیں کہ نہ تو روزگار بہتر ہے اور نہ ہی اجرت معقول ہے۔

صحت کی موزوں سہولتیں بھی میسر نہیں۔ پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں اور نہ ہی نکاسی آب کا نظام ہے۔ تعلیمی سہولیات بھی ناکافی اور زیادہ تر غیر معیاری ہیں۔اِن سہولیات کی دستیابی اور معیار کے حوالے سے خصوصاًصوبے کے دیہی عوام کے انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ جس کا واضح ثبوت ملٹی ڈائمینشن پورٹی اِن پاکستان نامی رپورٹ میں موجود ہے جس کے مطابق 2014/15 میں بلوچستان کے دیہی علاقوں کی 84.6 فیصد آبادی کثیر الجہت غربت کا شکار تھی جو ملک کے تمام صوبوں کے دیہی سطح کا سب سے زیادہ تناسب تھا۔

یہ کثیر الجہت غربت انڈکس آکسفورڈ یونیورسٹی کا مرتب کردہ ہے ۔ یونیورسٹی نے حال ہی اپنا (Global Multidimensional Poverty Index 2021)جاری کیا ہے۔ یہ انڈکس لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس اشاریوںکی بنیاد پر مرتب کیا جاتاہے۔ غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 65.32 فیصد آبادی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہیں۔جو کہ صوبائی سطح پر سب سے زیادہ غربت کی شرح ہے۔

صوبے میں غربت کی ایک جھلک یوں بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ پاکستان سوشل اینڈ لیوونگ اسٹینڈرڈز میزرمنٹ سروے2019-20 کے مطابق بلوچستان میں درمیانی نوعیت یا شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار گھرانوں کا تناسب23.36ہے جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔اس کے علاہ صوبے کے 19.6 فیصد گھرانوں نے سروے سے گزشتہ ایک سال پہلے کی نسبت اب اپنے معاشی حالات کو بہت خراب قرار دیا جبکہ 22 فیصد نے اسے خراب کہا۔صوبے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کم پیداواری، عارضی اور اس طرح کے دیگر کاموں/ نوکریوں میں Trap ہے جو اْن کی توقعات کو پورا نہیں کرتیں اور اْن کے لئے ایسے مواقع پیدا نہیں کرتے جو انھیں زیادہ اچھی، مستقل اور زیادہ اجرت کی حامل پوزیشنز دلاسکیں۔یوں غربت کے شکنجے کو توڑنا ممکن نہیں ہوتا اور غربت کے خاتمے میں نوجوان اپنا کوئی کردار ادا نہیں کر پاتے۔دوسری جانب یہ غربت چاہے معاشی ہو یا سہولیات کی تشنگی کی نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہے اوربلوچستان اِن دونوںکیفیات کا شکار ہے۔ جبکہ بین الاقوامی تحقیق یہ کہتی ہے کہ نوجوانوں کو بااختیار بنانے سے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

٭رازق فہیم لورالائی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹرز کیا اور یونیورسٹی آف برمنگھم برطانیہ سے پوسٹ گریجویشن مکمل کی ہے۔ آپ کو پاکستان میںپسماندہ کمیونٹیزکے نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے کا 20 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔رازق کالج آف یوتھ ایکٹیوزم اینڈ ڈویلپمنٹ (CYAAD) کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ پاکستان میں امن کی تعلیم کے لیے رازق کا کام ایک معتبر حوالے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

CYAAD بنانے سے پہلے رازق نے انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اسٹڈیز اینڈ پریکٹسزپاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔انہیں 2009 میں اشوکا فیلوشپ، 2007 میں چیوننگ فیلوشپ اور سالزبرگ گلوبل فیلوشپ 2015 سے نوازا گیا ہے۔جب ان کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ کیا بلوچستان کے نوجوانوں کو درپیش مسائل کی نوعیت پاکستان کے دیگر صوبوں کے نوجوانوں کو درپیش مسائل جیسی ہے یا ان میں کوئی فرق ہے؟ تو ان کا کہنا ہے کہ’’بلوچستان کے نوجوانوںکو دیگر صوبوں کے نوجوانوں کی نسبت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ یہاں بنیادی انفراسٹرکچر جو یوتھ کی اپنے کرئیر بلڈنگ میں، کاروبار کی طرف آنے میں، انٹرپرائزز بنانے میں ، بہتر تعلیم کے حصول میں معاونت کرے وہ باقی پاکستان کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔

پنجاب کے نوجوانوں کا بنیادی مسئلہ روزگار ہوسکتا ہے مگر اُن کو تعلیم کے بلکہ معیاری تعلیم کے بے تحاشا مواقع حاصل ہیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اِن کا نہ تو روزگار کے مواقع میسر ہیں اور نہ ہی معیاری تعلیم کے۔ اور اگر وہ کسی طرح معیاری تعلیم حاصل کر بھی لیں تو صوبے کا سیاسی اور سماجی ماحول اس قدر آلودہ ہے کہ اُنکے Misguide اورmanipulate ہونے کا ہمیشہ سے خطرہ رہتا ہے۔اس کے علاوہ صوبے میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے نیشنل پروگرامز سے بھی اتنا استفادہ نہیں کیا جاسکتا بانسبت باقی صوبوں کے کیونکہ یہاں ان کی مانٹرنگ بہت کمزور ہوتی ہے اور بد عنوانی کا عنصر اس میں رہتا ہے۔

صوبے میں ا گر چہ نوجوانوں کے امور کی وزارت موجود ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے یوتھ ایمپاورمنٹ کے پراجیکٹس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیونکہ منسٹری کے اپنے فنڈز دیگر کاموں میں زیادہ استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اگر کوئی پراجیکٹ ہے بھی تو وہ کاسمیٹک لیول پر اِن کی موجودگی دیکھائی دیتی ہے۔صوبائی یوتھ پالیسی کا ڈرافٹ بنتا ہے کابینہ میں ٹیکنیکل جائزہ کے لیے پیش ہوتا ہے ۔اُس کے بعد ڈرافٹ کو کچھ پتا نہیں چلتا اور حکومت تبدیل ہوجاتی ہے ۔ بلوچستان میں تقریباً دو تین بار یوتھ پالیسی کا ڈرافٹ جائزہ کے لیے پیش ہوا لیکن ابھی تک یوتھ پالیسی منظوری کے مراحل سے نہیں گزریـ کیونکہ یہ حکومت ہو یا پچھلی حکومتیں ان کی ترجیحات میںیوتھ ایمپاورمنٹ کے مقابلے میں صوبے کی سیاسی اور سیکورٹی ضروریات کو زیادہ اہمیت حاصل ہیـ‘‘۔ صوبے کے نوجوانوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے تجاویز دیتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ ـ’’صوبے میں یوتھ سپورٹنگ انفراسٹرکچر کا ہونا بہت ضروری ہے۔

یہ انفراسٹرکچر یونیورسٹی سے لیکر کمیونٹی سیٹنگ تک اور کمیونٹی سیٹنگز سے لیکر حکومت کی پالیسیوں کے اندر ترجیحات کی صورت میں جھلکتا ہونا ضروری ہے۔ اس انفراسٹرکچر کے اردگرد ایک کورڈینیشن میکنزم کا بھی ہونا ضروری ہے یعنی منسٹریز، این جی اوز، سول سوسائٹی، یوتھ گروپس، یوتھ انٹرپرائزز ان سب کاایک کورڈینیٹنگ میکنزم ہو جو اُس انفراسٹرکچر کو بڑھنے پھولنے میں مدد کرے۔اس کے علاوہ جو چیز نوجوانوں کی تربیت میں بہت مثبت کردار ادا کرسکتی ہے وہ اُن کی Civic engagement  ہے۔ اس کے لیے سول سوسائٹی کا ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ نوجوانوں کو سول سوسائٹی کی طرف لیکر آتے ہیں تو اُن کے اندر civic skills پیدا ہوتی ہیں ۔ civic skills یہ ہیں کہ ڈائیلاگ پر یقین کیا جائے۔مکالمہ پر یقین کیا جائے۔مسائل کو حل کیا جائے۔ آپ اسٹیٹ اور اُس کے میکنزم کو سمجھیں۔ آپ ایسے چینلز کی نشاندہی کریں جس میں آپ اپنے تحفظات کو لیکر جائیں۔ اگر سوک انفراسٹرکچر موجود ہوتا ہے تو لوگ تشدد اور مسلح جارحیت کی طرف کم جاتے ہیں۔

اور زیادہ تعداد legitimate channels کی طرف آئے گی۔ اس کے علاوہ یوتھ اسٹارٹ اپس پر موثر طریقے سے کام کریں جو کام ہورہا ہے وہ غیر موزوں اور نا کافی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ بیوروکریٹک ہے۔ صوبے کی کلچر اور سوک لائف کی لیڈر شپ نوجوانوں کو دی جائیــ‘‘۔ رازق فہیم کا کہنا ہے کہ ـ’’ بلوچستان میں آپ نوجوانوں کو ایک سیکورٹی رسک کے طور پر نہ دیکھیں اگر آپ انھیں سیکورٹی رسک کے طور پر دیکھیں گے تو آپ کے تمام آپشنز سیکورٹی کے اردگرد تشکیل پائیں گے۔اس کی بجائے آپ نوجوانوں کو ایک dividend  کے طور پر دیکھیں ایک ایسا dividend جو اپنے ملک، اپنے صوبے اور اپنے علاقے کی بہتری میں بھرپور کردار ادا کر سکتا ہے اور اس کردار کو آپ مضبوط بنائیں۔ ان کے اردگرد معاونت کا ایک جامع سسٹم بنائیں اِن کو لیڈ کرنے میں اِن کی مدد اور حوصلہ افزائی کریں‘‘۔

نوجوانوں کے لئے مناسب تعلیم ، ٹریننگ اور روزگار کے مواقعوں کی کمی کے بہت سے منفی نتائج سٹریٹ کرائمز، چوریوں، اغواء برائے تاوان ، دہشت گردی ، تخریب کاری اور منشیات کے استعمال اور فروخت کے واقعات کی صورت میںآج ہمارے سامنے ہیں۔اگر ہم بلوچستان کی معیشت اور ترقی کے پہلو کو سب سے اوپر دیکھنا چاہتا ہے تو ہمیں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبے پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔کیونکہ بلوچستان میں ایک اچھی تربیت یافتہ افرادی قوت کی اشد اور انتہائی ضرورت ہے۔ یہ پہلو بلوچستان کے لیے روزگار کے بہت سے مواقع کھولے گا۔

نوجوانوں کے حوصلے اور اعتماد کی سطح کو صرف اسی صورت میں بڑھایا جا سکتا ہے جب انہیں روزگار ملے۔ یہ ہنر، تجربہ کی سطح اور تعلیم کی کمی ہے جو بلوچستان کے نوجوانوں کو پسماندگی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اگر انہیں کافی مقدار میں تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت دی جائے گی تو کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو انہیں پیچھے چھوڑ دے۔صوبے میں وکیشنل ٹریننگ کے لیے BTEVTA کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے ۔ لیکن یہاں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ صوبے میں رسمی تعلیم میں مصروف مجموعی طلباء کا صفر عشاریہ2 فیصد(0.2% ) کوئی ڈپلومہ کرتے ہیں ۔یہ صورتحال BTEVTA کے لیے کسی چلینج سے کم نہیں کہ وہ کس طرح لوگوں کو دستی مہارت کی جگہ وکیشنل ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے قائل کر پاتا ہے۔

بہتر مستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجائے نوجوانوں کی دیہات سے شہروں اور ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی کا عمل بھی جاری ہے۔ جسے ہم Drain  Brainکی اصطلاح کے استعمال سے یاد کرتے ہیں۔بلوچستان کے تناظر میں اس کی کچھ جھلک ہمیں 1998 اور2017 کی مردم شماری کے نتائج کے تجزیہ سے ملتی ہے ۔ 1998 میں صوبے کی15 سے29 سال کی عمر کے74 فیصد نوجوان دیہہ میں رہتے تھے جن کا تناسب 2017 تک کم ہوکر 70 فیصد ہوچکا ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی سطح پر نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے فوری ، دیرپا اور وسیع بنیادوں پر جامع اقدامات کیے جائیں لیکن افسوس جو صوبہ پچھلے 75 سال میں نوجوانوںکے لیے کوئی پالیسی فائنل نہیں کر پایا وہ اپنے نوجوانوں کوصوبائی ترقی کا انجن کیسے بنائے گا؟

٭…٭…٭

بلوچستان کی باصلاحیت بیٹیاں

بلوچستان کی جن دو باصلاحیت نوجوان بیٹیوں کا تعارف قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ اِن بچیوں نے ثابت کر دیکھا یا ہے کہ فاصلے، پسماندگی، مواقعوں کی کمی ، مقامی رسم رواج اور حالات بھی آپ کی تخلیقی سوچ ، آپ کی ہمت اور اپنے مقصد کے حصول کو متزلزل نہیں کر سکتے۔ بلوچستان کے علاقے پسنی ضلع گوادر سے تعلق رکھنے والی بانل سید شیر جان اور شاہدہ ابراہیم نے ’’پاور پیڈل ‘‘ کے نام سے ایک ایسی ایجاد کی ہے جو SDG چیلنج کپ2021 کے فاتحین میں سے ایک ہے جسے گورنمنٹ انوویشن لیب (GIL)، یونیورسٹی آف بلوچستان نے UNDP پاکستان کے تعاون سے کرایا۔

اس کے علاوہ’’ پاور پیڈل‘‘ کا انتخاب اگنائٹ(Ignite)  نے آخری سال کے پروجیکٹ کی فنڈنگ کے لیے بھی کیا تھا۔ She loves Tech (SLT) جوکہ خواتین اور ٹیکنالوجی کے لیے دنیا کا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ مقابلہ ہے۔ ’’پاور پیڈل‘‘ کو علاقائی راؤنڈ میں منتخب کیا گیا ہے۔ یہ دونوں بچیاں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے سی ایس اینڈ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے سیشن2017-2021 کی گریجویٹس ہیں۔

’’پاور پیڈل‘‘ دراصل ورزش کے عمل کو پرلطف بنانے کی ایک ایجاد ہے۔ جس میں تھری ڈی ماحول، نیٹ ورک گیمز، خوبصورت مناظر اور بجلی کی پیداوار شامل ہے۔ تھری ڈی مناظر صارف کو بور ہونے نہیں دیتے اور صارف ورزش کے دوران خوبصورت مناظر کا تجزبہ کرکے مصروف رہ سکتا ہے۔ جسمانی طور پر کم غیر متحرک بچے یا دیگر بچے دوران ورزش اس کی گیم کی خصوصیت کی وجہ سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ جہاں آپ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے اور مقابلہ کرنے کے لیے نیٹ ورک گیمز کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ پیڈلنگ سے پیدا ہونے والی توانائی بیٹری میں محفوظ ہوتی ہے جو موبائل فون، لیپ ٹاپ، پاور بینک وغیرہ کو چارج کرسکتی ہے۔اس سے ایک چھوٹے سے کمرے کو بھی بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔

’’پاور پیڈل ‘‘دراصل ورزش میں تفریح لاتا ہے جس کی وجہ سے ہر عمر کے افراد روزانہ کی بنیاد پر یکسانیت اور بوریت سے محفوظ رہتے ہوئے ورزش کرنا آسان محسوس کرینگے ۔ ’’پاور پیڈل ‘‘ کو ایک ماڈیولر سسٹم کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے جسے ایک عام سائیکل پر نصب کیا گیا ہے تاکہ شرکاء کے جسمانی اور بایو مکینیکل پیرامیٹرز کو ٹریک اور ریکارڈ کیا جاسکے اور ایک مصنوعی مناظر میں ضم کرتے ہوئے صارف کو بصری تاثرات فراہم کیے جاسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔