عمران خان کی اداروں کے خلاف مہم، مقصد کیا ہے؟

شرجیل انعام میمن  جمعـء 19 اگست 2022
—فائل فوٹو

—فائل فوٹو

یکم اگست 2022 کو جب بلوچستان میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر کے لاپتہ ہونے کی خبر آئی تو ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ پوری پاکستانی قوم ہیلی کاپٹر میں سوار پاک فوج کے اعلیٰ افسروں کی خیریت کے لیے اس طرح دعائیں کر رہی تھی، جس طرح کوئی اپنے پیاروں کے لیے کرتا ہے۔ صرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان اور حامی ہی تھے، جو اس واقعہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر انتہائی سنگ دلانہ، شرمناک اور نفرت انگیز مہم چلا رہے تھے۔ پاک فوج کے خلاف پی ٹی آئی کی یہ مہم اس وقت اور تیز ہوگئی، جب دوسرے دن یہ خبر آئی کہ ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افسران شہید ہو گئے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سیاسی جماعت نے افواج اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف کھلم کھلا اس طرح کی منظم مہم چلائی ہو۔ ملک دشمن اور علیحدگی پسند تنظیمیں بھی اس طرح نہیں کرتی ہیں۔ کوئی صرف اندازہ ہی کر سکتا ہے کہ اس غلیظ مہم سے شہداء کے غمزدہ لواحقین کو کتنی تکلیف پہنچی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے ترجمان نے اس مہم پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور حکومت نے مہم چلانے والوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔

پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس مہم سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ عوام کا اپنا ردعمل ہے۔ قبل ازیں مخالف سیاسی قائدین کے ساتھ اندرون اور بیرون ملک بدتمیزی کے مختلف واقعات کے بارے میں بھی پی ٹی آئی کی قیادت یہ تاثر دیتی رہی ہے کہ ان واقعات سے پی ٹی آئی کا کوئی تعلق نہیں اور یہ عوامی ردعمل کا نتیجہ ہیں لیکن مسجد نبویؐ میں رونما ہونے والے واقعہ نے یہ ثابت کر دیا کہ اس طرح کے واقعات تو پی ٹی آئی کی منظم مہم کا حصہ ہیں۔ حرم نبوی کے تقدس کی پامالی، وہاں ہنگامہ آرائی اور بدتمیزی کرنے والوں کو جب سعودی عرب کی حکومت نے گرفتار کیا تو پتہ چلا کہ یہ پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور اس واقعہ کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے امریکا اور برطانیہ سے پی ٹی آئی کے رہنماوں کو سعودی عرب بھیجا گیا تھا اور یہ نام نہاد ” عوامی ردعمل ” دکھانے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے تھے۔

بالکل اسی طرح جب لسبیلہ ( بلوچستان ) ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد پاک فوج کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے بارے میں تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ یہ بھی عوامی ردعمل نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی کی منظم مہم کا حصہ ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے تو انکشاف کیا ہے کہ یہ مہم پی ٹی آئی اور بھارت کا مشترکہ پروجیکٹ تھی۔ پاکستان میں 529 ، بھارت میں 18 اور دوسرے ممالک میں 33 سوشل میڈیا اکاونٹس مختلف ناموں سے یہ مہم چلاتے رہے۔

اب سارے راز کھلتے جا رہے ہیں اور کڑیوں سے کڑیاں ملتی جا رہی ہیں۔ عمران خان کے معتمد ساتھی شہباز گل کا پاک فوج سے متعلق قابل مذمت بیان بھی اس مہم کے بعد آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شعوری طور پر سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ خود عمران خان کی فوج ، عدلیہ ، الیکشن کمیشن سمیت دیگر ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کے بارے میں بھی دنیا جان چکی ہے کہ یہ احمقانہ یا جذباتی ردعمل نہیں بلکہ سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ اب یہ راز بھی افشا ہو چکا ہے کہ عمران خان دنیا کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں ، جو بہت بڑے بجٹ کے ساتھ بہت بڑی سوشل میڈیا مہم چلاتے ہیں اور صبح اٹھ کر اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو ہدایت دیتے ہیں کہ آج کون سا ” ٹرینڈ ” بنانا ہے۔

سوشل میڈیا پر چلایا جانے والا مواد بھی عمران خان، بشریٰ بی بی اور پی ٹی آئی کے کچھ اور لوگ دیتے ہیں۔ اس بات میں ذرہ بھی شک نہیں رہا کہ اداروں کے خلاف عمران خان ، ان کے ساتھیوں اور پروپیگنڈہ مشینری کی طرف سے جو بھی بات کی جاتی ہے ، شعوری منصوبہ بندی اور منظم مہم کا حصہ ہے۔

تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ، جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے لوگ جارحانہ اور جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعہ کیسے اپنے آپ کو بڑا بنا لیتے ہیں۔ روس کے راسپوتین گریگوری سے لے کر عہد حاضر کے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی تک کئی لوگوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں ، جو ظالمانہ پروپیگنڈا کی پیدوار ہیں۔ عمران خان بھی انھی میں سے ایک ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی نے بھی اپنے آپ کو ” ہیرو ” بنانے اور اقتدار کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ انھوں نے بھی اپنی پروپیگنڈا مہم کے ذریعہ نفرت کو ہوا دی اور لوگوں کے جذبات سے کھیلا۔ انھوں نے بھی اپنی پروپیگنڈا مہم کے ذریعہ اعلی اخلاقی اقدار کو تاراج کیا۔ لیکن ان کی مہم کا مقصد اپنی ذات کے لیے طاقت حاصل کرنا تھا۔ انھوں نے کبھی ملکی اداروں کو نشانہ نہیں بنایا۔ عمران خان کی پروپیگنڈا مہم کا مقصد اور ہدف اس سے کہیں زیادہ ہے۔

عمران خان نے ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی نشانہ بنایا۔ سیاسی جماعتیں بھی اداروں کی طرح ہوتی ہیں ، جو ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے دیگر اداروں کی طرح اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عمران خان جن سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ، ان سیاسی جماعتوں نے  مارشل لاء￿  کے خلاف پرامن جمہوری جدوجہد ضرور کی مگر نہ تو فوج کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کیا اور نہ ہی فوج کے خلاف لوگوں کو اکسایا کیونکہ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج ہی ہیں ، جو بیرونی جارحیت کے خلاف پاکستان کا دفاع کر سکتی ہیں۔

فوج کے ادارے کو مزید مضبوط ہونا چاہئیے۔عمران خان کی اداروں کے خلاف شعوری اور منظم مہم کے خطرناک مقاصد فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد مکمل طور پر عیاں ہو چکے ہیں۔ فارن فنڈنگ کے بارے میں  ہوش ربا انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ فنڈ جمع کرنے والوں کے ڈانڈے امریکی اور برطانوی خفیہ اداروں سے مل رہے ہیں۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان بیرونی طاقتوں کا تیسری دنیا کے کسی ملک کے لیے سب سے مہنگا ” پولٹیکل پروجیکٹ ” ہے ، جس پر اربوں ڈالرز خرچ کیے گئے۔

انڈیا کے ٹی وی اینکرز اس بات پر تو خوش ہو رہے ہیں کہ عمران خان نے پاک فوج اور دیگر اداروں کے خلاف جو کام کیا ہے ، وہ انڈیا اربوں روپے خرچ کرکے بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ان انڈین ٹی وی اینکرز کو پتہ ہونا چاہیے کہ انڈیا اور دیگر ملکوں کے ” بااثر لوگوں نے عمران خان پر اربوں روپے نہیں اربوں ڈالرز خرچ کیے ہیں۔ جو لوگ خرچ کر رہے ہیں ، وہ بھی یقینا کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہوں گے۔ بس عمران خان کی ریاستی اور سیاسی اداروں کے خلاف مہم کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اور ابھی سے اس کا تدارک کیا جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔