گفتار کے غازی، عمل سے دور

تزئین حسن  جمعـء 19 اگست 2022
ہماری قوم بحیثیت مجموعی منافقت کی شکار ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہماری قوم بحیثیت مجموعی منافقت کی شکار ہے۔ (فوٹو: فائل)

2017 کی بات ہے، کینیڈا کے ایک مقامی اردو ٹی وی چینل نے روہنگیا کے خلاف برما حکومت کے مظالم پر میرا پروگرام ریکارڈ کیا تو آخر میں اینکر کا سوال تھا ’’آپ کے خیال میں روہنگیا کے مسئلے کا حل کیا ہے؟‘‘

میرا کہنا تھا کہ مسلمان علم حاصل کرنا شروع کریں اور تحقیق کا راستہ اختیار کریں، ایڈووکیسی اور ڈپلومیسی کے فن پر توجہ دیں۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔

مجھے یاد ہے اینکر کے چہرے پر بیزاری آگئی۔ اس کا ردعمل کچھ یوں تھا کہ یہ تو بہت دور کی بات ہے، کوئی فوری حل بتائیں کہ چٹکی بجاتے روہنگیا کا مسئلہ حل ہوجائے اور زیادہ محنت کرنی پڑے نہ انتظار۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا۔ میرا جواب تھا کہ اگر اس دوررس حل پر ہم راضی نہیں تو ہمیں دنیا کے سامنے لائن سے کھڑے ہوجانا چاہیے اور سکون سے اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ ہم سب کی باری آنی ہے۔

ایسا اس لیے ہے کیونکہ دنیا اقوام متحدہ کے کنونشنز پر نہیں ڈارون کے survival of the fittest (طاقتور کی بقا) کے نظریے پر چلتی ہے۔ بقول نوم چومسکی بین الاقوامی تعلقات کا صرف ایک اصول ہے اور وہ ہے Might is power یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ڈارون بھی کافر جہنمی سہی یہی بات کہہ کر گئے ہیں۔ امید ہے ان کی بات پڑھنے سننے سے ہم کوئی جہنمی نہیں ہوجائیں گے، ہمارے عقائد اپنی جگہ ان کے اپنی جگہ۔

اس اصول کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محض ریلیاں نکالنے اور دشمن کو برا بھلا کہنا اس کے مظالم کی دہائیوں تک دہائی دینے سے ہمارے حالات نہیں بدلیں گے۔ نہ ہی یہ سمجھنے سے ہمارے حالات میں تبدیلی آئے گی کہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ہم اچھے ہیں، دوسرے لوگ مسلمان نہیں اس لیے وہ بہت برے ہیں۔ ہم الله کے چہیتے ہیں باقی لوگ مبغوض ہیں۔ الله نے ہم سے ایسا کوئی وعدہ محض کلمہ پڑھنے کی بنیاد پر نہیں کیا۔ جہاں کوئی وعدہ کیا اس میں ایمان لانے کے ساتھ ساتھ عمل کو بھی شرط رکھا گیا-

اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ (رعد:11)
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے۔

ایک غلط فہمی ہمارے ہاں ایک بڑے طبقے میں یہ پائی جاتی ہے کہ اسلامی نظام نافذ ہوگیا تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ گویا اسلامی نظام نہیں کوئی جادو کی چھڑی جس سے ہمارا علمی، فکری، اخلاقی انحطاط سب منٹوں میں ختم ہوجائے گا۔ پاکستان اقوام عالم میں ایک باعزت مقام حاصل کرلے گا۔ ہم لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کی اہلیت حاصل کرلیں گے۔

اکثر یہ جملہ بولا جاتا ہے کہ دین پر عمل شروع کردیں گے تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بظاہر یہ کہنے کے باوجود کہ اسلام میں دین اور دنیا الگ الگ نہیں، دین صرف چند ظاہری اعمال کو سمجھا جاتا ہے۔ صدیوں سے غوروفکر، کائنات کی تسخیر، اس کرۂ ارض کی سیر کرکے تاریخ سے عبرت پکڑنے اور الله کے قوانین کی کھوج لگانے سے متعلق قرآنی آیات کو عملاً دین کا حصہ سمجھا ہی نہیں گیا۔

استنبول میں قیام کے دوران ایک ایغور نوجوان (چین کے زیر کنٹرول سنکیانگ نامی خطے کے مقامی نسل کے لوگ ایغور کہلاتے ہیں) کے قائم کردہ لینگویج اسکول کے دورے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک ٹیچر نے مجھے کہا کہ ہماری سو سال تک یہی اسٹریٹجی رہی کہ ہم صرف دین کا علم حاصل کرلیں لیکن اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں دین اور دنیا دونوں کا علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے استفسار پر کہ وہ دنیا کا علم کسے سمجھتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا، تاریخ، سیاسیات اور دیگر سماجی علوم مینجمنٹ اور انگریزی، ترکی، عربی اور دیگر یورپی زبانیں۔ ان نوجوانوں میں مجھے باخبری کی رمق نظر آئی، لیکن بحیثیت مجموعی امت میں اس حوالے سے کوئی شعور نظر نہیں آتا۔

قرآن میں 13 مقامات پر سیرو فی الارض کا حکم موجود ہے لیکن مجھے قرآن کی کسی تفسیر کا کوئی شارح اس کا مفہوم سمجھاتا دکھائی نہیں دیتا۔ نہ سفر کی برکتوں کے حوالے سے کوئی درس کہیں سنائی دیا۔

حالانکہ مسلم دنیا میں ابتدائے اسلام سے سفر کی روایت بہت مضبوط رہی۔ حج کی صورت ساری دنیا کے استطاعت رکھنے والے مرد اور عورتوں پر سفر فرض کیا گیا۔ تجارت کو رزق کے ننانوے حصے قرار دینے والے نبی کی امت قرون وسطیٰ میں ساری دنیا میں پھیل گئی۔ ملائیشیا، انڈونیشیا، کینیا، صومالیہ، برما، سری لنکا، مالدیپ کے ساحلوں پر کوئی فوج کشی نہیں کی گئی لیکن تجارتی سفر دنیا کے ان اہم ترین خطوں میں دعوت کا بھی ایک اہم ذریعہ ثابت ہوئی اور یقیناً اس نے دنیا کو کھلی آنکھ سے دیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا ہوگا۔ لیکن آج کچھ کم نظر مبلغین مسلمانوں کے مغربی ممالک میں رہائش اختیار کرنے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے نسلیں بگڑ جائیں گی، ایمان چلا جائے گا۔ ہم ایمان کو اس قدر کمزور شے تصور کرتے ہیں کہ ذرا سی مخالف نظریات کی ہوا چلی اور وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

برصغیر کے ایک معروف عالم سید مودودی نے کوئی ستر سال پیشتر دارالاسلام سے دارالکفر ہجرت کی مخالفت کی تھی لیکن اس وقت حالات کچھ اور تھے۔ آج اگر وہ خود بھی مغرب کا دورہ کرتے تو وہ اپنی رائے سے رجوع کرتے بلکہ ان کا آخری انٹرویو جو جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر خرم جاہ مراد نے امریکا میں ان کے علاج کے دوران ریکارڈ کیا، اس میں ان کی گفتگو سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا تھا۔ لیکن کچھ کم نظر آج بھی ان کی پچھلی رائے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کی مغرب میں ہجرت کی عملی برکتوں کو دیکھنے کے باوجود اس کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض دوسرے مذہبی طبقات اس کو جائز تو قرار دیتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ تبلیغ کےلیے تو جائز ہے لیکن اپنی دنیا کو بہتر بنانے کےلیے یا اپنا معیار زندگی بلند کرنے کےلیے جائز نہیں۔ یہاں آکر ہمارے مبلغین اور مفتیان خود یہ ثابت کردیتے ہیں کہ وہ مسلمان کے دین اور دنیا کو الگ الگ چیزیں سمجھتے ہیں۔

مسلمان کی دنیا بہتر ہورہی ہو، اس کا کوئی تعلق ہمیں براہ راست دین سے نظر نہیں آتا۔ ان حضرات کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ دین کی خدمات صرف وہ لوگ کر رہے ہیں جو اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر طویل مدت کےلیے تبلیغی دوروں پر نکل جاتے ہیں۔ مغرب میں منتقل ہونے والے مسلمانوں نے عملاً ان حضرات کے بیش قیمت خیالات کو غلط ثابت کردیا ہے لیکن یہ کج بحث اپنے خیالات سے رجوع کرنے پر راضی نہیں۔

ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں کی تعداد میں مساجد، تراویح، درس کے حلقے، اسلامی اسکول، حجاب میں ملبوس مسلم اسکاؤٹس یہاں تک کہ چرچ خرید کر مساجد میں بدل دینے کے واقعات اگر سید مودودی کے سامنے آتے تو کیا وہ پھر بھی مسلمانوں کی ہجرت کے ثمرات دیکھنے کے بعد بھی اس کی مخالفت کرتے؟

اس سے آگے بڑھ کر کچھ کم نظر مغربی تعلیم کے خلاف فتوے دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مغربی تعلیم ہمارے دین کےلیے سم قاتل ہے۔ ڈیڑھ سو سال بعد سرسید کا یہ قصور معاف کرنے پر راضی نہیں کہ انہوں نے مغربی تعلیم حاصل کرنے کو قوم کی نجات سمجھا۔ ان کا خیال ہے کہ پچھلے چوہتر سال میں پاکستانی قوم کے انحطاط کی ساری ذمے داری سرسید پر آتی ہے، جنہوں نے مسلمانوں کو مغربی طرز کے اسکولوں اور تعلیمی اداروں پر اکسایا۔

یہ دوسری بات ہے کہ خود ان کے اپنے لیڈران اور اپنے حلقے کے لوگ جو ان کی تائید میں سر ہلاتے ہیں، ایک دوسرے کو ان کی پوسٹیں فارورڈ کرتے ہیں، اپنے بچوں کو پڑھنے کےلیے امریکا و یورپ ہی بھیجنا پسند کرتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ لیکن ان کے معیارات کارکنان کےلیے الگ ہیں اور لیڈران اور ان کے بچوں کےلیے الگ۔ ایک طرف امریکا کے ایوانوں کو آگ لگانے کا نعرہ لگوایا جاتا ہے، اس سے نفرت کرنا سکھائی جاتی ہے، دوسری طرف خود اپنی اولاد کو تعلیم کےلیے وہیں بھجوایا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی کی سوچ اتنی وسیع نہیں یا اس کا اظہار نہیں کیا جاتا کہ یہ اسٹریٹجی سراسر منافقت پر مبنی ہے۔ اور منافق کا درجہ قیامت میں کافر سے نچلا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تزئین حسن

تزئین حسن

تزئین حسن ہارورڈ یونیورسٹی امریکا میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انکے مضامین پاکستان سمیت شمالی امریکا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے اخبارات و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ تعلیم، بین الاقوامی سیاست، حقوق نسواں، میڈیا اور بہت سے دوسرے موضوعات پر مستقل لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔