دردمندوں کی پارٹی…

شیریں حیدر  ہفتہ 15 مارچ 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

پارٹی کے انتظامات زوروں پر تھے… کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، کام کرنے والے بھاگے پھر رہے تھے۔ اتنے بڑے شخص کے ہاں پارٹی تھی اور بڑی اسکرین پر میچ دکھایا جانا تھا، میچ کا تو بہانہ تھا ورنہ اصل مقصد تو ’’تقریب کچھ تو بہر ملاقات‘‘ تھا کہ ملک کے حالات کے باعث دولت مندوں کو پیسہ خرچ کرنے کو موقع نہیں مل پاتا۔

اسکرین سیٹ ہو چکی تھی، ہال کے ایک کونے میں شطرنج کی میز سیٹ کی ہوئی تھی کیونکہ دادا جی کو میچ کے دوران شطرنج کھیلنے کا خاص شوق تھا۔ پوتے تو انتظامات کروا ہی رہے تھے مگر اصل منتظمہ تو ممی تھیں، ڈیڈی تو فقط خود تیار ہو جائیں اتنا کافی تھا۔ ممی انتظامات میںکسی قسم کی کسر نہ چھوڑتیں اسی لیے کسی پر اعتماد بھی نہ کرتی تھیں، اسکرین سیٹ ہوئی تو اسے کیبل کے ساتھ منسلک کر دیا گیا کہ میچ براہ راست دیکھنا تھا، مل بیٹھ کر میچ دیکھتے، میچ پر تبصرہ ہوتا، ساتھ ساتھ پارٹی چلتی… جیت ہوتی تو اسے مل کر منایا جاتا۔ سب انتظامات مکمل تھے، ممی بھی تیار ہونے جا چکی تھیں، ڈیڈی تیار ہو کر دادا جان کی ہمراہی میں پارٹی والے حصے میں مہمانوں کے استقبال کو بالکل تیار تھے۔

مہمان آنا شروع ہو چکے تھے مگر میچ ابھی تک شروع نہ ہوا تھا، دادا اپنے بیٹے کے پہلے مہمان کو وصول کر کے اسی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ شطرنج کی میز پر لے جا چکے تھے، وہ صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی شطرنج کھیلنے پر مجبور تھے کہ اسی باپ کے بیٹے کے کاروبار سے اس کے کئی مفادات وابستہ تھے… فضا میں قیمتی خوشبوئیں پھیل رہی تھیں مگر ان سب سے بڑھ کر پھیلنے والے خوشبو وہ تھی جو بار بی کیو کے لیے سلگائے جانے والے کوئلوں کی تھی جن کی حدت نے سردی میں بھی سماں باندھ دیا تھا… بڑے بڑے کڑاہوں میں مچھلی تلی جا رہی تھی۔ میچ شروع کیا ہوتا، کیبل والے کی بجلی چلی گئی، یہ تو پلان میں شامل ہی نہ تھا، نوجوان بھاگ دوڑ کرنے لگے کہ کسی نہ کسی طرح میچ دیکھا جا سکے۔

واحد چینل جو بغیر کیبل کے آ رہا تھا وہ سرکاری تھا، دھندلے دھندلے سے کچھ اور چینل بھی تھے مگر سرکاری چینل دیکھنا مجبوری بن گیا تھا۔ مہمانوں سے پنڈال بھر گیا تھا، اب نگاہیں منتظر تھیں ممی کی جو حسب عادت سب سے آخر میں انٹری دیتی ہیں کہ دیکھنے والوں کی نظر کسی اور چیز پر نہ  پڑے…

ممی سفید رنگ کے جھلملاتے جوڑے میں انٹری دیتی ہیں، نگاہیں ان کے گلے اور کانوں میں پہنے ہوئے ہیروں کی چمک سے خیرہ ہوئے جاتی ہیں۔ ان کی انٹری کے ساتھ اسکرین میں پس منظر پر… تھر کے صحرا میں، اس شدید سردی میں ننگ دھڑنگ بچوں کے وجود دکھائے جا رہے تھے جنھیں بھوک اور بیماری کا عفریت نگل رہا ہے… ممی کی عمر کی ایک عورت… جو اس لیے بوڑھی، بد نما اور سیاہ رو لگ رہی تھی کہ وہ اس بڑے شہر میں پیدا ہوئی تھی نہ ایک مالدار شخص کی لاڈلی بیوی تھی، بدقسمتی سے اس نے تھر کے صحرا میں جنم لیا تھا، وہیں اس کی پرورش ہوئی اور اسی خطے کی ایک جفا کش کی بیوی بن کر اس کے مریل بچوں کو جنم دے کر انھیں بھوک، قحط اور غربت کی وادی میں لیے بیٹھی تھی…

’’واؤ… زبردست‘‘ صرف مردوں کے ہی نہیں، عورتوں کے منہ بھی حیرت سے سکڑ گئے تھے، ممی اس بیک گراؤنڈ کے ساتھ تو بالکل اپسرا لگ رہی تھیں…

’’آپ کے بچوں کو سردی نہیں لگتی، بیمار نہیں ہوتے…‘‘ کسی نے اس قحط ماری سے سوال کیا تھا۔

’’کیا زبردست لیس کی قمیص ہے…‘‘ کسی نے بیگم صاحبہ کی بغیر بازؤں کی اس جھلملاتی قمیص کی تعریف کی… ’’کہاں سے لی آپ نے؟‘‘ اس خوشامدی آواز نے قمیص کا حدود اربعہ پوچھا۔

’’دو ہزار روپیہ مہینہ میرے سائیں کی تنخواہ ہے، اس میں کھائیں کیا، بچوں کو پہنائیں کیا… بیماری تکلیف بھی ہے، اوپر سے چار بچے چھ سالوں میں!!!‘‘

’’جاہل لوگ…‘‘ ایک بھاری مردانہ آواز آئی، ’’پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہیں؟‘‘

’’فرانس سے لائی تھی میں… بہت سستی مل رہی تھی، شینٹلے لیس کہاں ستر ہزار میں ملتی…‘‘

’’آپ نے اسی لیے بچے پیدا نہیں کیے ملک صاحب…‘‘ ایک صاحب نے مزاحیہ انداز میں سوال کیا، ’’مگر آپ تو پال سکتے ہیں…‘‘ ملک صاحب اپنی بے اولادی پر چوٹ خاموشی سے سہہ گئے۔

’’بی بی… کتنے گندے پانی سے آپ اپنے بچے کا منہ دھو رہی ہیں…‘‘  پلاسٹک کی بوتل میں سیاہ پانی کا کلوز اپ دکھایا جاتا ہے…’’ بچے ایسے پانی سے منہ دھو کر بیمار نہ ہوں تو اور کیا کریں؟‘‘ پروگرام کے میزبان نے اسے صاف پانی کی اہمیت بتانا چاہی۔

’’مگر ہم تو یہی پانی پیتے بھی ہیں، ہم بھی، ہمارے بچے بھی اور ہمارے مویشی بھی!‘‘ اس سیاہ رو عورت نے حیرت سے اسے دیکھ کر کہا، تھوڑا سا پانی ایک پیالے میں ڈال کر اپنے بچے کو پینے کو دیا، جس کا پیٹ اس کی پسلیوں سے بھی پیچھے تھا۔

’’ Oh my, oh my‘‘ چیخ نما آواز آئی، ’’ایسا پانی کوئی کیسے پی سکتا ہے…‘‘

’’میں تو اپنے ٹامی کو بھی منرل واٹر پینے کو دیتی ہوں…‘‘

’’ہم تو دانتوں کو برش بھی tap waterسے نہیں کرتے… mineral water ہی استعمال کرتے ہیں، یہ لوگ مریں نا تو اور کیا ہو، بیماری کو تو خود ہی دعوت دیتے ہیں نا…‘‘

’’کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ ان کے پاس کوئی choiceہے ؟‘‘ دادا نے سوال کیا۔

’’بیٹا اٹھو اور چیک کرو… میں نے مینیجر کو بتایا تھا کہ سارے برتن منرل واٹر سے دھونے ہیں، کہیں tap water نہ استعمال کر رہے ہوں !!!‘‘ ممی نے فوراً پریشان ہو کر کہا…

’’ریلیکس رہیں ممی!!‘‘ ایک بیٹا اٹھا اور اس طرف چل دیا جہاں پارٹی کے انتظامات  ہو رہے تھے۔

اسکرین پر ایسے ایسے مناظر دکھائے جا رہے تھے جنھیں دیکھنا ہی تکلیف دہ اوردرد ناک تھا۔

’’کوئی چینل تبدیل کر سکتا ہے… کھانا بھی نہیں کھایا جا رہا!!!‘‘ ایک صاحب نے بڑا سا چکن تکہ ادھیڑا… اسکرین پر دکھایا جا رہا تھا کہ صوبے کے سینئیر وزراء تھر کے دورے پر خود گئے تھے، کوئی متاثر ہوا کہ کتنا اچھا کیا تھا انھوں نے … ساتھ ہی اسکرین پر ان کے دستر خوان دکھائے جانے لگے اور انھیں پیش کیے جانے والے منرل واٹر کے بوتلوں کے کلوز اپ…

’’کیا یہ لوگ ایک دن کھائے پئے بغیر مر جاتے… کاش یہ کھانا ان لوگوں کو کھلا دیتے جنھیں کئی کئی دن سے کھانا نصیب نہیں ہوا…‘‘

’’ہم بھی تو بھوک سے نہیں مرنے والے، جو کھانا ہم کھا رہے ہیں یہ بھی ان لوگوں کو بھیجا جا سکتا ہے… کسی نہ کسی طرح امداد کی صورت… نقد، خشک راشن، پینے کا صاف پانی…‘‘ دادا نے چال چل کر بلند آواز سے کہا۔

’’امداد تو ہم سب کرنا چاہتے ہیں! مگر نظام ایسا ہے کہ مستحق تک امداد پہنچ نہیں پاتی… ورنہ ہم تو اپنے منہ کا نوالہ بھی دینے کو تیار ہیں…‘‘ خلال کر کے دانت میں پھنسی بوٹی نکال کر اسے دوبارہ سے چباتے ہوئے انھوں نے عجیب سے انداز سے کہا۔

’’صاحب آپ تو اپنے دانت سے خلال کی ہوئی بوٹی کا ٹکڑا کسی کتے کو بھی کھانے کو نہ دیں!!‘‘ اتنی تلخ حقیقت اور اتنے واضح الفاظ میں کوئی کہہ دے…

’’ووٹ کس کو دیں گی بی بی؟‘‘ پروگرام کے میزبان نے اسی عورت سے پوچھا۔

’’پپل پارٹی کو…‘‘ اس کی سیاہ حلقوں میں دھنسی آنکھوں میں چمک اور گندے پیلے دانتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ مسکرائی تھی۔

’’وہ کیوں …‘‘

’’کیونکہ بے نظیر جیتے گی تو ہم غریبوں کا خیال رکھے گی، یہ اس کے باپ کا وعدہ ہے جسے اس نے نبھانا ہے…‘‘ اس لاعلم عورت کو یہ بھی علم نہ تھا کہ بے نظیر کو گئے بھی عرصہ بیت گیا تھا اور اس کے شوہر نے بھی اپنا عرصہء اقتدار اپنے انداز سے پورا کر لیا تھا اب بیٹا پر تول رہا ہے۔

’’ایسے جاہل لوگوں کے ووٹوں سے ہمارے ملک میں پارٹیاں جیتتی ہیں اور جو تبدیلی لانا چاہتا ہے وہ ہار جاتا ہے…‘‘ کسی نے جل کر کہا، ’’ان لوگوں کو روٹی اور دوا سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے… تب اس ملک میں تبدیلی آئے گی…‘‘

’’کوئی بند کر سکتا ہے یہ سب…‘‘ کسی نے زورسے آواز لگائی، کھانے کا مزہ بھی کرکرا کر دیا، ایمان سے کھانا بھی نہیں کھایا گیا ان سب کو دیکھ دیکھ کر بھوک مر گئی، بات کرتے کرتے ان کے منہ سے با آواز ڈکار نکل گئی۔

’’اور خالی پیٹ آپ کو بڑے بڑے ڈکار بھی آ رہے ہیں…‘‘ کسی نے ہنس کر کہا۔

’’خالی پیٹ اور خالی جیب انسان کو وہ علم اور تجربہ سکھاتے ہیں جو دنیا کا کوئی استاد نہیں سکھا سکتا… بھوک اور غربت بذات خود بہت بڑی استاد  ہیں!!!‘‘ دادا نے آخری چال چل کر ’’شہ مات‘‘ کہا اور اٹھ کر چل دیے…

دادا سب کو خدا حافظ کہہ کر چل دیے… اسکرین بند کر دی گئی تھی، اس تاریک پس منظر کے سامنے چمکتے چہروں والے لوگ بیٹھے تھے، میٹھے کا دور چل رہا تھا، مگر وہ سب کہہ رہے تھے کہ تھر کے لوگوں کی حالت دیکھ کر ان کے دل کڑھ رہے تھے… چشم فلک دردمندوں کی اس پارٹی کو حیرت سے تک رہی تھی!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔