بارش اور سیلاب سے انفرا اسٹرکچر تباہ

ایڈیٹوریل  پير 22 اگست 2022
شدید بارشوں سے ملک کے مختلف علاقوں میں بھاری نقصان ہوا۔ ہزاروں گھر ، فصلیں، باغات تباہ اور مال مویشی مر گئے۔ فوٹو: فائل

شدید بارشوں سے ملک کے مختلف علاقوں میں بھاری نقصان ہوا۔ ہزاروں گھر ، فصلیں، باغات تباہ اور مال مویشی مر گئے۔ فوٹو: فائل

ملک میں جاری مسلسل بارشوں کے نتیجے میں کئی مکانات منہدم ، درجنوں ڈیمز سمیت انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے، جب کہ سیلابی ریلوں میں پھنسے سیکڑوں افراد کو ریسکیو کرنے کا آپریشن تاحال جاری ہے۔ اس دوران سندھ اور بلوچستان کے درمیان کئی روز تک زمینی رابطہ منقطع رہا ، جب کہ بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے والی شاہراہوں کو بھی سیلابی ریلوں سے بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

شدید بارشوں سے ملک کے مختلف علاقوں میں بھاری نقصان ہوا۔ ہزاروں گھر ، فصلیں، باغات تباہ اور مال مویشی مر گئے، صوبائی حکومتوں کی جانب سے متاثرین کی بحالی کی کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے باعث پانی میں پھنسے ہزاروں افراد بے یار و مدد گار ، مایوسی اور پریشانی کی حالت میں ہیں، اگر حکومت نے جلد موثر اقدامات نہ کیے، تو بڑا انسانی المیہ بھی جنم لے سکتا ہے۔

حکومت کی طرف سے بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع کو صرف آفت زدہ قرار دے دینا کافی نہیں،بلکہ متاثرین کی بھرپور مدد کی بھی ضرورت ہے۔ سیلابی ریلے آبادیوں میں داخل ہونے کی وجہ سے رابطہ سڑکیں بہہ گئیں اور متاثرہ علاقوں تک اب بھی زمینی رسائی ممکن نہیں ہو پائی ہے۔ پنجاب میں راجن پور میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، پنجاب حکومت متاثرین سیلاب کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ ملک میں رواں برسات خونیں ثابت ہوا ہے۔ بارشوں نے ملک کے طول و عرض میں ایسی تباہی پھیلا دی ہے کہ جس کے زخم آسانی سے بھرنے نہیں پائیں گے۔

سب سے زیادہ نقصان پسماندہ صوبے بلوچستان میں ہوا جہاں پہلے ہی ریلیف اور ریسکیو کا نظام کمزور ہے۔ بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے کے لیے جو وسائل اور انفرا اسٹرکچر ضرورت ہوتا ہے ریاست اسے پورا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ بڑا اور اس کے دیہات دور دراز ہونے کے سبب امدادی کارروائیوں کے بہتر نتائج کے حصول میں رکاوٹیں آ رہی ہیں۔

پاکستان کے تین بڑے شہر کراچی، لاہور اور فیصل آباد موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اِنتہائی خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی عالمگیر سطح پر ایک مسئلہ ہے مگر پاکستان کے لیے یہ ایک شدید خطرے سے کم نہیں۔ عالمی ماہرین پاکستان میں درجہ حرارت بڑھ جانے کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیر پگھلنے اور سیلاب آنے کے خدشات بھی دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔

سیلابوں کے حوالے سے پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے۔ کلائمیٹ رسک کنٹری پرو فائل کے مطابق پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا ہے اور 191ممالک میں رسک کے حساب سے پاکستان کا نمبر اٹھارہواں ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک نتیجہ قحط اور معاشی تباہی کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ گو پاکستان میں ہر تباہی کا حجم اور اثر دنیا بھر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر زمین کے درجہ حرارت میں یوں ہی اضافہ ہوتا رہا تو عنقریب بہت سے ممالک کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بحیرہ عرب کی سطح سمندر میں اضافہ سے کراچی اور ملیر کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے۔

دوسری جانب بین الااقوامی اِداروں نے بھی خبردار کیا ہے کہ کراچی کے بڑے حصے کو سمندر برد ہونے سے بچانے کے لیے اگر فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مستقبل میں ساڑھے 3 سے 4 کروڑ افراد ماحولیاتی مہاجرین بن سکتے ہیں۔ مون سون بارشوں کے نتیجے میں کراچی میں قیوم آباد سے کورنگی کراسنگ جانیوالی سڑک اور کورنگی کاز وے مسلسل آٹھ دن سے بند ہونے کی وجہ سے صبح سے لے کر رات گئے تک شدید ترین ٹریفک جام رہتا ہے ، اس کے علاوہ شہر میں بارشوں کی وجہ سے کئی متاثرہ جگہوں تک رسائی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

سندھ کی صوبائی حکومتی عہدیداروں کے امدادی سرگرمیوں سے متعلق اعلانات و تشہیر اپنی جگہ ، لیکن سندھ کے اکثر اضلاع میں متاثرین ، حکومتی عدم توجہی اور امدادی سرگرمیاں شروع نہ ہونے کا شکوہ کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے وسیع حصے میں آفت کی صورتِ حال ہے، بارشوں اور سیلاب کے باعث معمولاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں اور متاثرین شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ متاثرین کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل درکار ہیں کہ صوبائی حکومت کے محدود وسائل میں نقصانات کا ازالہ ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا۔ پرانا کراچی جس میں صدر کے علاقے آتے ہیں بتایا جاتا ہے کہ سطح سمندر سے تین فٹ نیچے ہے ، جو علاقے سطح سمندر سے نیچے ہیں ان علاقوں میں دنیا بھر میں ویسے ہی پانی کی نکاسی کے لیے پمپنگ جیسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پرانے کراچی کے علاقوں میں انگریز دور ہی سے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اب کراچی شہر پھیل چکا ہے۔

کراچی میں کسی زمانے میں چار بڑے نالے جن کو لیاری ندی ، ملیر ندی ، اورنگی نالہ اور گجر نالہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے سمیت درجنوں چھوٹے نالوں پر اس وقت تجاوزات قائم ہیں۔ نالوں کے ذریعے پانی کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ ہے کہ کراچی اربن فلڈنگ کا شکار مسلسل ہورہا ہے۔

بدلتا موسم، بڑھتی ماحولیاتی آلودگی، آئے روز کے زلزلے، سمندری طوفان، تباہ کن سیلاب، برفباری، سیلاب، قحط سالی، گلیشئیرز کا پگھلاؤ، لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کے درجہ حرارت کا بڑھنا۔ یہ سب وہ عناصر ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں گلوبل وارمنگ، اوزون کی تہہ میں واضح کمی، سمندر کی سطح میں اضافہ، گلیشئیرز کا پگھلاؤ اور مسکن کی تباہی شامل ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی تدابیر یا تجاویز اِختیار کریں جو ماحول دوست ہوں، زیادہ سے زیادہ درخت لگایے، کوڑا کرکٹ کو جلانے سے گریز کیا جائے، کچرے کو لینڈ فلز میں دفن کیا جائے۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے قابِل جدید انرجی کے ذرائع استعمال کیے جائیں۔ ماحولیات دوست مشینوں اور ذرائع آمدورفت کو فروغ دیا جائے، ری سائیکلنگ کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے۔

صنعتوں سے نکلنے والا دھواں اور فضلہ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔ پٹرول، فیول اور ڈیزل کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے اور اسے سی این جی سے تبدیل کیا جائے۔ جنگلات کے کٹاؤ کو کم سے کم کیا جائے۔ ایرو سول اسپرے کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے۔ کھادوں کے بے جا استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ بجلی بنانے کے طریقوں کو موثر، کم قیمت اور ماحول دوست بنایا جائے۔ زراعت کے سیکٹر کو بہتر بنانے کے لیے آب پاشی کے طریقوں کو موثر بنایا جائے۔

ہمیں اس وقت نئے ڈیمزبنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرکے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے۔ پاکستان میں بھی ان تدابیر کو اپنانے اور لاگو کرنے کے لیے حکومت کو مختلف اِقدامات اٹھانے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔