- سعودی معاون وزیر دفاع کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
- پختونخوا؛ دریاؤں میں سیلابی صورتحال، مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو الرٹ جاری
- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
- تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں، اسرائیل ایران پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں کریگا، ایکسپریس فورم
- اصحابِ صُفّہ
- شجر کاری تحفظ انسانیت کی ضمانت
- پہلا ٹی20؛ بابراعظم، شاہین کی ایک دوسرے سے گلے ملنے کی ویڈیو وائرل
- اسرائیل کا ایران پرفضائی حملہ، اصفہان میں 3 ڈرون تباہ کردئیے گئے
- نظامِ شمسی میں موجود پوشیدہ سیارے کے متعلق مزید شواہد دریافت
- اہم کامیابی کے بعد سائنس دان بلڈ کینسر کے علاج کے لیے پُرامید
- 61 سالہ شخص کا بائیو ہیکنگ سے اپنی عمر 38 سال کرنے کا دعویٰ
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر خودکش حملہ؛ 2 دہشت گرد ہلاک
- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
ریاست ٹیکسوں کا منصفانہ نظام نافذ کرنے میں ناکام
اسلام آباد: ٹیکسیشن (محصول کاری) ممکنہ طور پر ریاست اور شہریوں کے درمیان سب سے اہم واسطہ یا تعلق ہے۔
شہری ریاست کو ٹیکس ادا کرتے ہیں جس کے عوض ریاست انھیں مختلف خدمات جیسے تعلیم و صحت، انفرا اسٹرکچر وغیرہ فراہم کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسیشن پاکستان میں جبراً وصولی میں بدل گئی ہے۔ اس کی ایک مثال سپرٹیکس ہے۔ یہ ٹیکس کسی نہ کسی شکل میں لیا جارہا ہے۔
موجود فنانس ایکٹ میں یہ ایک ہی بار 10 فیصد کی شرح سے لیا جانیوالا ٹیکس ہے جو سوشل سیکیورٹی ٹیکسوں کے ساتھ مل کر 39فیصد تک جا پہنچتا ہے۔ اس ٹیکس کا اطلاق سگریٹ، کیمیکل، مشروبات کی صنعتوں، ایل این جی ٹرمینلز، ایئرلائنز، ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، شوگرملز، آئل اینڈ گیس ، فرٹیلائزر، اسٹیل، بینکنگ اور سیمنٹ پر ہوتا ہے۔ اب چونکہ ٹیکس کا بوجھ بڑھ کر 50 فیصد تک پہنچ جائے گا تو ان صنعتوں کو سال کے 6مہینے حکومت اور 6مہینے اپنے شیئرہولڈرز کے لیے کام کرنا ہوگا۔
اسی طرح موجودہ بجٹ میں اور بھی کئی متنازع ٹیکس عائد کیے گئے ہیں ان میں متصور انکم ٹیکس ( deemed income tax) ، تخفیف غربت ٹیکس، فکسڈ ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ حکومتی ٹیکس پالیسیاں مفید ثابت نہیں ہوسکیں۔ بجٹ میں ان بینکوں پر انکم ٹیکس 37 فیصد سے بڑھا کر 49 فیصد کردیا گیا جن کا ایڈوانسڈ ٹو ڈپازٹ تناسب 50 فیصد سے کم ہے۔
بینک اس اضافی ٹیکس کا بوجھ صارفین کو منتقل کردیں گے، جس سے زر کی گردش بڑھے گی اور افراطِ زر میں اضافہ ہوگا۔ اس نوع کی پالیسیاں ناکام ثابت ہوں گی۔ اس تناظر میں ریاست ٹیکسوں کا منصفانہ نظام نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ملک میں کم از کم 11ملین ٹیکس دہندگان ہونے چاہیئں مگر یہ تعداد اس وقت صرف 3 ملین ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔