فرار کی تلاش

مدیحہ ضرار  منگل 23 اگست 2022
ہمیں ہر مسئلے سے بھاگنا ہی آسان حل لگتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہمیں ہر مسئلے سے بھاگنا ہی آسان حل لگتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہمیں مشکل حالات کا سامنا کرنا بدتر لگتا ہے اور ایسے میں ہماری کوشش حقیقت سے نظریں چُرا کر خود کو کہیں بھگا لینے کی ہوتی ہے۔

زندگی چونکہ ایک مشقت کا نام ہے، اس لیے اس میں پریشانیاں، مسائل اور تنگی تو بہرحال رہتی ہی ہے لیکن مشکلوں کا سامنا کرنے اور ان کو حل کرنے کے بجائے منشیات، شراب، تفریح، ایسی کوئی بھی چیز جو ہمیں وقتی طور پر ہمارے مسائل سے دور لے جائے، کے ذریعے فرار ہونا ہمیں آسان لگتا ہے۔ کیونکہ ہم حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتے، اس لیے ہم ہمیشہ فرار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اپنے مسائل سے، اپنی پڑھائی سے، اپنے کام سے، اپنے ماحول سے یا روزمرہ کی زندگی کی تلخ حقیقتوں سے، ہمیں ہر چیز سے فرار چاہیے ہوتا ہے۔

کیا انسان کے خمیر میں فرار ہونے کی فطرت بھی ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم ذہنی اور جسمانی طور پر اتنا کمزور ہوچکے ہیں کہ ہمیں ہر مسئلے کا حل بھاگنا لگتا ہے؟ کیونکہ ابتدائی دور کا انسان ہمارے جیسا نہیں تھا۔ وہ چاروں طرف سے تلخ حقیقتوں میں گھرا ہوا تھا۔ وہ اپنی بھوک مٹانے کےلیے اپنے سے چھوٹے جانوروں کو مارنے کی کوشش میں رہتا تھا اور ساتھ ہی اپنے آپ کو اپنے سے بڑے اور طاقتور جانوروں سے بچانے کی جدوجہد بھی تھی۔ وہ ان سب مسائل اور پریشانیوں سے بچ نہیں سکتا تھا اور اس کی جبلت میں زندہ رہنے کا جنون خود کو کسی نہ کسی طرح سے ان مسائل سے نکال لاتا تھا۔ لیکن یہ مسائل اس کی زندگی کا ایسا حصہ رہتے تھے جن کا حل ہی اس کی نجات کا ذریعہ تھا۔

لیکن پھر انسان نے اقتصادی اور سماجی لحاظ سے بہت ترقی کی اور اب اس کے گرد ویسا سخت ماحول نہیں رہا جو اس کو ہر وقت چوکنا رہنے پر مجبور کرتا۔ آہستہ آہستہ زندگی میں آسانیاں آئیں۔ ہم آرام طلبی کا شکار ہوئے اور سہولتیں ایسی آئیں کہ سہل پسند بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔ ٹیلی ویژن، سنیما، ورچوئل گیمز اور منشیات، یہ سب فرار کی ایک شکل بن گئیں۔

فطرتی طور پر انسان کے شعور میں کسی بھی مشکل سے نمٹنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ لڑ کر مقابلہ کیا جائے یا بھاگ کر فرار حاصل کیا جائے۔ بہت سے لوگوں کو فرار کی راہ لینا آسان لگتا ہے کیونکہ لڑنا ان کےلیے ذہنی اور جسمانی مشقت کا کام ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ آسان آپشن یعنی فرار کا سہارا لیتے ہیں۔ چونکہ آج کا انسان سہل پسند ہے اور ہر لمحہ بھرپور اور اچھا گزارنا چاہتا ہے، اس لیے ہر مسئلے یا پریشانی کا سب سے آسان حل بھاگ جانا لگتا ہے۔

لیکن بھاگنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ عارضی طور پر فرار سے سکون مل جاتا ہے اور تھوڑی دیر کےلیے درد سے بچ جاتے ہیں لیکن بعد میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ مسئلہ جوں کا توں برقرار رہتا ہے۔ حقیقت موجودہ لمحہ ہے اور اس لمحے میں رہنا اور جینا بے حد ضروری ہے۔ یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ فرار ہونے کی ضرورت کیوں ہے۔ اگر حقیقت سے فرار ہے تو اس کے نتائج اچھے نکلنے کا امکان نہیں۔ کیونکہ جدید دنیا میں زندگی عدم تحفظ، خوف، جنگ، پریشانیوں اور تناؤ سے بھری ہوئی ہے۔ انسان کو ہر وقت ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتیں زندگی کو ناگوار اور ناقابل برداشت بنا دیتی ہیں۔ اس لیے وہ اپنی پسند کی دنیا میں فرار ہونا چاہتا ہے لیکن یہ فرار عارضی ہے۔

زیادہ عرصے کےلیے یہ فرار مزید مسائل کو جنم دے جاتا ہے۔ مسئلے سے بھاگنے سے آپ کو ایک عارضی سکون ملتا ہے اور یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ آپ اس خطرے سے بچ گئے ہیں لیکن اصل میں آپ اپنے آپ سے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلےتو یہ سمجھیے کہ اپنے مسائل سے بھاگنا ایک دوڑ ہے جو آپ کبھی نہیں جیت سکتے۔ کیونکہ ایک دن آپ کو ان سے نمٹنا ہی پڑے گا۔ آپ کو ان کو ٹھیک کرنا ہی پڑے گا۔

اپنے آپ کو ماضی کی کوئی بھی پریشان کن صورت حال یاد دلائیے جہاں چیزیں بہت مشکل تھیں لیکن پھر بھی آپ کسی طرح ان سے گزر گئے۔ ان کے حل نے یقیناً ذات کو مضبوط بنایا اور یقیناً کچھ ایسی خوبیاں دیں جو پہلے پاس محسوس نہیں ہوتی تھیں۔ اس لیے جب بھی آپ کو کوئی مسئلہ نظر آئے تو اس کے حل کا سوچیے۔ سوچیں کہ ایک بار جب آپ یہ کرلیں گے تو آپ خود کو کتنا مختلف محسوس کریں گے۔ اس لیے بھاگنے یا دبانے یا کسی اور مزاحمت کے بجائے خوف کو سمجھیے۔ یعنی اسے دیکھیں، پرکھیں اور اس کے بارے میں جاننے کی بھرپور کوشش کیجیے۔ ہمیں خوف کے بارے میں سیکھنا ہے کہ اس سے کیسے بچنا ہے۔ جب خوف قابو میں آئے گا تو مسئلے کا حل بھی سمجھ میں آنے لگے گا۔

اس لیے مسئلے سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ اسے حل کرنا ہے، نہ کہ اس سے ہر بار بھاگتے رہنا۔ جب آپ مسائل کو سمجھ لیں گے تو آپ باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرسکیں گے۔ مسائل کبھی رکنے کی نشانیاں نہیں ہوتے بلکہ یہ تو صرف آپ کو بہتر بنانے کےلیے رہنما اصول ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں سمجھنے اور حل کرنے میں وقت گزاریے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار ایک سوچ کا نام ہے جو ایک خاص زاویئے سے دیکھی گئی تصویر کے دوسرے رُخ کی عکاسی کرتی ہے۔ معاشرتی صورت حال کے پیش نظر انہیں مایوسیاں پھلانے سے سخت الرجی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سوچ اور امید کے ساتھ سمت کا بھی تعین کر دیتی ہے۔ ان کی سوچ کو فیس بک پر madhe.aden@ سے مزید پرکھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔