ذرا سوچئے…اور جواب تلاش کیجیے

رئیس فاطمہ  ہفتہ 15 مارچ 2014

ایک دن صبح کے وقت میں ایک مشہور اسپتال میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی، تاکہ چشمے کا نمبر چیک کرواسکوں، جو باوجود ایک نامی گرامی ڈاکٹر کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے کلینک سے لیا تھا لیکن مجھے مسلسل لکھنے اور پڑھنے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ دو بار الگ الگ فیس دے کر ان سے شکایت بھی کی لیکن ان کے پاس میری شکایت سننے کا وقت نہیں تھا ۔ سو انھوں نے دونوں بار یہ کہہ کر فارغ کردیا کہ یہ صرف میرا وہم ہے۔ آپ کو میرے اسسٹنٹ نے نمبر بالکل درست دیا ہے۔ مسئلہ اس بدنصیب ملک کا یہ ہے کہ جس طرح کوئی پراڈکٹ اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے ایک مقام بنا لیتی ہے ، تو چند ماہ بعد اس کا معیار گر جاتا ہے۔ صرف نام بکتا ہے۔ اسی طرح وہ ڈاکٹرز جو بچپن ہی سے ’’قوم کی خدمت‘‘ کا جذبہ لے کر اس میدان مسیحائی میں قدم رکھتے ہیں تو وہ چند ایک جن کے پاس اصلی ڈگری ہوتی ہے وہ ابتدا میں نہایت توجہ اور جانفشانی سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ فیس بھی بہت زیادہ نہیں لیتے۔ اس طرح آہستہ آہستہ ان کا کلینک رش لینے لگتا ہے اور پھر فیس ککڑی کی بیل کی طرح بڑھنے لگتی ہے۔ ہر تین ماہ بعد 40 تا 50 فیصد اضافہ لازمی ہے۔ان کے کلینک کی توسیع اور تزئین و آرائش ہوتی رہتی ہے۔ ملازمین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ ان کا کام وہی ہوتا ہے۔ جو قصائی کے ہمراہ بوٹیاں بنانے اور کھال اتارنے والے نوآموزشاگردوں کا۔

بھاری فیس لے کر ڈاکٹر صرف دو منٹ میں مریض کو Ok کرکے دوسرے بکرے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔ ریڈنگ کا نمبر تین بار چیک کروانے کے باوجود مجھے مسلسل شکایت تھی۔ سو آج ایک دوسرے آنکھوں کے اسپتال میں بیٹھی تھی۔ اسی دوران ریڈیو پاکستان کراچی سے ایک فون آیا جس میں وہ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے میرے تاثرات ریکارڈ کرنا چاہتی تھیں۔ ۔ چند منٹ کی بات ریکارڈ کروا کے جب میں انتظار گاہ میں واپس آئی تو اچانک اپنے مقابل بیٹھی دو فیشن ایبل خواتین پر نظر پڑی، دونوں کی عمریں غالباً 30 اور 35 کے آس پاس لگ رہی تھیں۔ میں نے وقت گزاری کے لیے بیگ میں سے ایک کتاب نکالی ہی تھی کہ ایک دھوئیں کی ناگوار بو نے مجھے چونکا دیا۔ نظریں دوڑائیں تو دونوں خواتین کو سگریٹ کے کش لگاتے دیکھا۔ انداز ان کا ایسا تھا جیسے وہ اس دنیا کی مخلوق نہ ہوں بلکہ کسی اور سیارے سے آئی ہوں۔ دونوں جس انداز میں کش لے رہی تھیں اس سے لگ رہا تھا کہ وہ برسوں سے اس کی عادی ہیں اور انھیں اردگرد کے ماحول کی بھی کوئی پرواہ نہیں ۔ بدقسمتی سے میرے لیے یہ سب کچھ برداشت کرنا ممکن نہ تھا لیکن افسوس اور تعجب اس بات پر ہو رہا تھا کہ وہاں موجود اسپتال کا عملہ اور مریض سب انھیں ناگواری سے دیکھ رہے تھے لیکن ایسا پوز دے رہی تھیں جیسے کوئی کارنامہ سرانجام دے رہی ہوں۔ مجھ سے برداشت نہ ہوسکا۔

اپنی جگہ سے اٹھ کر میں ان کے قریب گئی اور نرمی سے کہا کہ وہ شوق سے سگریٹ نوشی کریں لیکن باہر جاکر، یہ اسپتال ہے۔ ان میں سے ایک نے برا سا منہ بناکر اکھڑے اکھڑے لہجے میں کہا ’’کیوں۔۔۔۔یہ کیا تیرے باپ کی جاگیر ہے جو حکم چلا رہی ہے۔ بڑی آئی منع کرنیوالی‘‘ میں نے کہا کہ یہ اسپتال نہ تمہارے باپ کی جاگیر ہے نہ میرے لیکن تمہارے انداز گفتگو سے تمہارا بیک گراؤنڈ ضرور معلوم ہوگیا کہ تمہارا کس طبقے سے تعلق ہے‘‘۔ بس اتنا کہہ کر میں اسپتال سے باہر نکل آئی اور سوچنے لگی کہ اگر ریڈیو والوں کا فون پہلے آجاتا تو میں بتاتی کہ خواتین میں بڑھتی ہوئی نشے کی لت کیا رنگ دکھائے گی۔ مجھے اپنی ملازمہ پہ رحم آیا۔ جو کام کرنے سے پہلے چھپ کر واش روم میں ایک سگریٹ پی کر کام شروع کرتی تھی۔ جب میں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا تو وہ بولی۔ باجی! ہمارے گاؤں میں تو اس کو برا نہیں سمجھتے۔ وہاں زیادہ تر عورتیں بیڑی، سگریٹ اور حقہ پیتی ہیں۔ مجھے بھی عادت ہے لیکن کراچی کی باجیاں اسے بہت برا سمجھتی ہیں اس لیے میں باتھ روم کی صفائی کرتے وقت پی لیتی ہوں۔ تب میں نے اسے اجازت دی کہ وہ چھپ کر نہ پئے بلکہ گیلری میں بیٹھ کر پی لیا کرے۔

سوسائٹی بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ہماری سو کالڈ اپر کلاس میں پینا پلانا کبھی معیوب نہ رہا لیکن یہ ’’اپر کلاس‘‘ وہ ہے، جو دولت، سیاسی وابستگیوں اور بیوروکریسی کے خاندانی خدمت گار ہیں۔ان کی پہچان چونکہ نہ علم ہے نہ شرافت۔ کوئی اور اخلاقی خوبی۔ اس لیے یہ طبقہ سر عام سگریٹ نوشی کرکے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

افسوس کہ ان شہرت یافتہ خواتین کا تعلق شعر و ادب سے بھی ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی کچھ دوسری شاعرات نے بھی جلدی مشہور ہونے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے سر عام سگریٹ نوشی کو اپنا شعار بنالیا جو آج تک باقی ہے۔ ان میں بعض معزز ہستیاں ایسی بھی ہیں جن کی وجہ شہرت ان کے ہینڈ بیگ میں موجود مشروبات کی خوبصورت اور قیمتی بوتلیں بھی ہیں۔ گزشتہ سال ایک ایسی تقریب میں جو جاں سے گزر جانیوالوں کی یاد میں منعقد کی گئی تھی، میں بھی وہاں موجود تھی اور میرے برابر کی نشست پہ بیٹھی خاتون جو عموماً جاگتے میں بھی سوتی ہوئی لگتی ہیں۔ انھوں نے محفل کی سوگواری کا احساس کیے بغیر بیگ سے سگریٹ نکالا اور بولیں۔ یہیں پی لوں۔ میں نے اٹھ کر انھیں احتراماً کہا کہ۔ بہتر ہے کہ کسی کونے میں جاکر پی لیں کیونکہ ہم لوگ بالکل اگلی نشستوں پہ بیٹھے تھے۔ شکر ہے انھوں نے ماحول کی نزاکت کو محسوس کیا اور پنڈال سے باہر جاکر اپنا شوق پورا کیا۔

مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ کوئی بھی اپنی ذاتی زندگی میں کیا کرتا ہے۔ البتہ یہ بات میں سوسائٹی کے لیے خطرے کا باعث سمجھتی ہوں کہ سر عام وہ حرکات کی جائیں جو مہذب مسلم معاشرے میں معیوب سمجھی جاتی ہیں۔ اپنے گھروں میں یا بنگلے ہوٹلوں کے بند کمروں میں آپ جو نشہ کرنا چاہیے کریں۔ آپ کا ذاتی معاملہ ہے لیکن جب آپ دفتروں میں، ادبی محفلوں میں، مشاعروں میں، ادبی اور ثقافتی اداروں کی راہداریوں میں، ادبی کانفرنسوں میں یہ مذموم حرکات کریں گی تو آپ کا تو کچھ نہ بگڑے گا لیکن کچے معصوم ذہن کی لڑکیاں آپ کو آئیڈیل بناکر وہی حرکات کرنی شروع کردیں گی یہی وجہ ہے کہ اب بات سگریٹ سے بڑھ کر مختلف اقسام کے نشوں تک جا پہنچی ہے۔ یونیورسٹیاں بھی اب اس سے محفوظ نہیں۔ لیکن خدارا! یہ خواتین ان ثقافتی اور ادبی اداروں کو تو اپنی ناشائستہ حرکات سے بخش دیں۔

کیا وہ لوگ جو ادبی محفلیں سجاتے ہیں۔ کانفرنسیں کرتے ہیں ان کو جب یہ سب نظر آتا ہے تو وہ اس کی بیخ کنی کیوں نہیں کرتے۔ میری طرح کی سوچ رکھنے والے سوسائٹی میں نہ صرف مس فٹ ہیں بلکہ دوسروں کی تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ میں نے جب بھی ایسے رویوں کے خلاف احتجاج کیا الٹا یہی کہا گیا۔ ارے چھوڑیں اب تو یہ نارمل بات ہے۔ سگریٹ پینا کوئی معیوب بات نہیں اور جب مرد پی سکتے ہیں تو عورتیں کیوں نہیں؟ بعد میں پتہ چلا کہ وہ خاتون خود اسی سسٹم کا حصہ ہیں اور اسی لیے ہر جگہ بلائی جاتی ہیں۔ بڑے بڑے نیک نام چھپے ہیں ان کی شہرت کے پیچھے۔

کیا ہمیں اسی طرح ہر برائی سے آنکھیں بند کرلینی چاہئیں؟ یہ سوچ کر کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے؟ ذرا سوچیے اور خود ہی جواب تلاش کیجیے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔