آج کا کام کل پر چھوڑنا

سعد اللہ جان برق  منگل 23 اگست 2022
barq@email.com

[email protected]

پرانے زمانے کے سیانے جن کے گھر میں دانے بھی ہوتے تھے، کچھ کام وام تو کرتے نہیں تھے، جہاں یورپ، امریکا اورچین وجاپان طرح طرح کی مشینیں، موٹریں، ریلیں وغیرہ بناتے تھے، وہاں ہمارے لوگ ’’اقوال زریں‘‘ بناتے اورایجاد کرتے تھے ۔کر بھلاسو بھلا، نیکی کردریا میں ڈال ،تین چیزیں تین چیزوں کو کھاجاتی ہیں ،تین چیزوں کی کوکھ سے تین چیزیں پیدا ہوتی ہیں،کم کھا، کم پی۔ان بزرگوں کے اقوال زریں جو گزر بھی چکے، آج کل بھی بچوں کے رسائل ، نصاب،اخبار کی خالی جگہوں میں پائے جاتے ہیں ۔

ویسے تو ہمیں ان اقوال ہی سے چڑ اورخدا واسطے کا بیر ہے لیکن ان میں چند تو ایسے ہیں کہ جی چاہتاہے، کسی ٹائم مشین میں بیٹھ کر اس بزرگ سے خوب گلہ اور شکوہ کریں بلکہ ان کے والدین سے بھی بات کریں کہ یہ اور ان کے اقوال زریں پیدا ہونے سے پہلے ہی ناپید ہوجائیں اورپھر خاص طوران میں یہ جو قول زریں بلکہ ہمارے خیال میں درست قول نہیںہے کہ آج کاکام کل پر مت چھوڑو۔بات وہی جاکر ٹھہرے گی کہ وہ کام کرتے ہی نہیں تھے تو آج اورکل میں کیوں فرق کرتے۔

اگرکل بلکہ پرسوں، ترسوں کرتے تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے کشکول اورجھولی بھی ان سے مانگتے اورخرچ کرنے کے طریقے بھی، کیوں کہ ہمارے اپنے دامنوں میں اقوال زریں نے سوچھید جو ڈالے ہیں۔

خود یہ اقوال زرین کیاکم تھے کہ بعد میں آنے والوں نے ان پر اضافے بھی کیے، ایک سائیں کبیر تھے جو نام ہی سے سائیں یعنی نکمے نکھٹو لگتے تھے ،سنا ہے اتنے نکمے تھے کہ کپڑوں کی استطاعت نہیں رکھتے، اس لیے مٹکے میں بیٹھے رہتے تھے حالاں کہ خود جلاہے بھی تھے۔چنانچہ مٹکے ہی سے انھوں نے یہ ترمیم شدہ بلکہ اضافہ شدہ قول زریں ارشاد کیا ہے جو کل کرے سو آج کرجو آج کرے سو اب۔

ارے خدا کے نادان بندے ،یہ کیسے ممکن ہے، آج اورکل پھر بھی ٹھیک ہے لیکن یہ ’’اب ‘‘؟

خیر کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کہ وہ بزرگ بھی تھے اوراب ’’گزرگ‘‘ بھی ہو چکے ہیں ۔

اس گزرگاہ سے پہنچیں تو کسی منزل تک

جو بھی گز رے گی گزاریں گے گزرنے والے

اوپرسے’’توہین عدالت‘‘کی طرح یہ پابندی بھی کہ خطائے بزرگان گرفتن خطاست،یعنی اگرانھوں نے غلط بھی کہا ہے تو اسے غلط نہ کہاجائے، عدالتوں کی طرح ان کو بھی پہلے سے معلوم تھاکہ قول زریں پر کچھ لوگ اعتراض کریں گے، اس لیے پہلے سے ہی ان کے منہ پر ٹیپ لگادیاجائے،بہرحال کوئی مانے نہ مانے لیکن آج کاکام ‘‘آج‘‘ بالکل نہیں کرنا چاہیے کہ اسے ’’کل‘‘پرچھوڑنے میں بھلائی ہی بھلائی ہے، مثلاً ہوسکتاہے کہ کل نہ وہ کام رہے، نہ اس کی ضرورت یاکام کرنے والا ہی نہ رہے،اورپھر ان ہی بزرگوں نے یہ بھی توکہاہے کہ ٹھنڈاکرکے کھاناچاہیے یاجلدی کاکام شیطان کا کام ہے۔آج کاکام کل پر چھوڑنے میں جو مزہ ہے جو فلسفہ ہے اورجو عافیت ہے ، اسے بس ہم نے سمجھاہے یا ہماری حکومتوں اورسیاسی لیڈروں نے۔

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ یا تو ہم ان ہی  حکومتوں پرگئے ہیں یاحکومتیں ہم پر گئی ہیں جتناتجربہ ہمیں ہے، آج کاکام کل پر چھوڑنے کا۔اتناہی تجربہ ہماری حکومتوں کو بھی نہیں،یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کاکام کل پر چھوڑنے کاہمیں پچھترسالہ تجربہ حاصل ہے، البتہ ایک معاملے میں پاکستانی حکومتیں ہم سے آگے ہیں، ہم تو آج کاکام کل پر یاپرسوں، ترسوں پر چھوڑتے ہیں اورہماری حکومتیں برسوں پر چھوڑنے کی قائل ہیں بلکہ لگتاہے کہ چندبرسوں میں بات صدیوں تک درازہوجائے۔

یادش بخیراپنے ایک سابق وزیر ریلوے جو اس قول کے زبردست مبلغ ہیں یہاں تک شادی کاکام بھی کل پر چھوڑتے چھوڑتے بوڑھے ہوگئے،ایک دن اسی کے محکمے کی ایک ریل گاڑی جب پلیٹ فارم پر ،عین وقت پرپہنچی تو ایک مسافر نے تحسین کرتے ہوئے کہا کہ شیخ صاحب خود تو بے ٹائم ہیں لیکن گاڑیوں کو وقت پر کردیا۔لیکن دوسرے شخص نے کہا، یہ آج والی گاڑی نہیں بلکہ وہ کل والی گاڑی ہے جو آج پرچھوڑی گئی اورآج والی کل آئے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔