گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز ، امسال ایک کروڑ30لاکھ بوری ہدف مقرر

ایکسپریس نیوز ڈیسک  اتوار 16 مارچ 2014
بار دانے کی تقسیم شفاف بنائیں گے، کسانوں کو فوری ادائیگی کے لیے بینکوں کو رقم فراہم کر دی، جام مہتاب ڈہر کی گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

بار دانے کی تقسیم شفاف بنائیں گے، کسانوں کو فوری ادائیگی کے لیے بینکوں کو رقم فراہم کر دی، جام مہتاب ڈہر کی گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

میر پور خاص: صوبائی وزیر خوراک جام مہتاب حسین ڈہر نے کہا ہے کہ حکومت سندھ کا رواں سال گندم کی خریداری کا ہدف ایک کروڑ30 لاکھ بوریاں ہیں۔ صوبے بھر سے 1200 روپے فی من گندم کے حساب سے خریدی جائے گی۔

کراچی کے علاوہ پورے سندھ میں گندم کی خریداری کے لیے 396 مراکز قائم کر دیے گئے ہیں۔ یہ بات انہوں نے میرپورخاص میں گندم خریداری کی افتتاحی تقریب کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے بتایا کہ گندم کی خریداری کے میرپورخاص ڈویژن میں کل 89 مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ میرپورخاص ضلع میں 20، عمرکوٹ میں 25 اور سانگھڑ میں 44 مراکز ہیں۔  ایک کروڑ30 لاکھ بوری گندم کی خریداری کیلیے باردانہ گوداموں میں مہیا کر دیا گیا ہے اور آبادگاروں کو فوری معاوضے کی ادائیگی کے لیے بینکوں میں محکمہ خوراک  نے رقم منتقل کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باردانے کی تقسیم کے لیے مربوط نظام وضع کیا گیا ہے، جبکہ آبادگاروں کی شکایات کے ازالے کو تحصیل، ضلع اور صوبے کی سطح پر شکایتی مراکز قائم کیے گئے ہیں، جبکہ صوبے بھر سے شکایات سیکریٹریٹ میں 021-99211104اور 021-99211515پر بھی درج کروائی جا سکتی ہیں۔

جام مہتاب ڈہر نے بتایا کہ بد عنوانی  روکنے کے لیے ایماندار افسران کو مقررکیا گیا ہے جن افسران پر الزامات ہیں انہیں تعینات نہیں کیا گیا جبکہ کرپشن کے الزامات کے تحت 14فوڈ انسپکٹرز کو برطرف کر کے ان کے مقدمات نیب اور اینٹی کرپشن کو بھیج دیے گئے ہیں۔  صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ گندم کے معاملے میں سندھ  نہ صرف خود کفیل بلکہ برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کے مفاد میں پالیسی مرتب کی گئی ہے۔ اس موقع پر آبادگارروں نے صوبائی وزیر کو در پیش مسائل سے متعلق آگاہی دی۔ افتتاحی تقریب میں آبادگار بورڈ کے جنر ل سیکریٹری عبدالمجید نظامانی اور ایوان زراعت کے جنرل سیکریٹری زاہد بھرگڑی اور محکمہ خوراک کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری محمد نصیر جمالی نے بھی خطاب کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔