سندھ میں وائس چانسلر کی تعیناتی کی شرائط

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 24 اگست 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سیکریٹری بورڈ جامعات حکومت سندھ نے وزیر اعلیٰ کو ایک سمری بھیجی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ وائس چانسلر کی اہلیت کے لیے پی ایچ ڈی اور 15تحقیقی مقالوں کی شرط ختم کی جا رہی ہے، اس سے قبل یہ شرط یونیورسٹی کے پروفیسرکی اہلیت میں بھی شامل ہے۔

یہ سمری بیوروکریٹس کی رائے کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ اب 61 سال کی عمر کے حامل شخص ، جس کے پاس 20 سال کا تجربہ ہو، وائس چانسلر کے عہدے کا اہل ہو سکتا ہے۔ ایک معروف اردو اخبار کے مطابق ہے کہ یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ داؤد انجنیئرنگ یونیورسٹی اور سکھر ویمن یونیورسٹی کے لیے دوبارہ اشتہارشایع کرایا جائے۔

90ء کی دہائی میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد دنیا میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ریاست کے تعلیم ، صحت اور دیگر شعبوں میں اختیارات کم ہونا شروع ہوئے۔ تعلیم کو ایک پروڈکٹ میں تبدیل کیا گیا اور یہ تصور پیدا ہوا کہ یونیورسٹی اپنے اخراجات کے لیے خود وسائل پیدا کرے۔ اس پالیسی کے بعد فیسوں میں زبردست اضافہ ہوا۔ طلبہ کی زیادہ توجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس ایڈمنسٹریشن جیسے مضامین پرمرکوز ہوگئی۔ ادب، تاریخ اور سوشل سائنس کے مضامین میں داخلے کم ہونے لگے۔

اسی طرح یونیورسٹی کے وائس چانسلر،ریکٹر اور رجسٹرار وغیرہ کی اہلیت میں یہ بات بھی شامل ہوئی کہ وہ زیادہ طلبہ کو یونیورسٹی میں داخلوں کے لیے حکمت عملی ترتیب دے سکیں ، مگر یورپی ممالک اور امریکا میں تعلیم کے بارے میں پالیسی بنانے والے ماہرین مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی بناتے ہیں۔ ان ماہرین کی تجویز پر ادب اور سوشل سائنس کے شعبے برقرار رکھے گئے۔ مختلف حکومتوں اور بڑے صنعتی اداروں نے ہر سال کروڑوں روپے کے اسکالرشپ جاری کیے۔ ان اسکالرشپ کا فائدہ پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش، فلسطین اور دیگر عرب ممالک کے طلبہ کو ہوا۔ ہر سال ان ممالک سے کئی ہزار طالب علموں نے تعلیم حاصل کی۔

پاکستان میں سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (U.G.C) کو ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.E.C) میں تبدیل کیا گیا۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اب یونیورسٹیوں میں تدریس کے ساتھ ریسرچ کو لازمی جز قرار دیا گیا۔ اساتذہ کی ملازمت کی ایک اہلیت میں پی ایچ ڈی اور ریسرچ پیپرز کی اشاعت لازمی قرار دی گئی۔ ہمارے ملک میں تعلیم سمیت کسی بھی شعبہ میں غیر قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کو برا نہیں سمجھا جاتا، اس لیے ریسرچ کے شعبہ میں بہت سے اسکینڈل عام ہوئے۔

سرکاری گرانٹ کی کمی اور ریسر چ کی سہولتوںکی کمی سے بھی صورتحال مزید خراب اور ناگفتہ بہ ہوئی۔ پاکستان میں صرف چند بڑے صنعتی ادارے یونیورسٹیوں کو خاطر خواہ گرانٹ دیتے ہیںجب کہ جاگیردار، قبائلی سردار اور گدی نشین شعبہ تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ سرکاری اور غیر سرکاری گرانٹ ہمیشہ ان یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروںکو دی جاتی ہے جہاں ایلیٹ کے بچے اور نوجوان تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایلیٹ کے کئی تعلیمی اداروں کو ملک کے صنعتی اداروں کے علاوہ امریکا اور یورپی حکومتیں اور غیر ملکی این جی اوز بھی گرانٹ دیتی ہیں ، لیکن ان یونیورسٹیوں کو کوئی گرانٹ نہیں دیتا جہاں غریبوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایلیٹ کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر یا ریکٹر کے لیے وہی شرائط ہوتی ہیں جو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے مقرر کی ہیں۔

سندھ میں یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کے تقرر میں بے ضابطگی عام سی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے تقرر کے معاملات برسوں سے عدالتوں میں زیرِ غور ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کے تقررکا معاملہ تین سال تک عدالتوں میں زیرِ التواء رہا اور اب بھی سپریم کورٹ نے اس معاملہ کو دوبارہ سندھ ہائی کورٹ کو ریفر کیا ہے۔

محکمہ تعلیم سندھ میں اقربا پروری اور کرپشن معمول بن چکی ہے۔ اساتذہ جو حج، عمرہ یا زیارتوں پر جاتے ہیں تو مخصوص افراد کو نذرانہ دیے بغیر انھیں این او سی نہیں ملتا۔ جو لوگ اعلیٰ حکام کی مختلف طریقوں سے خدمت کرتے ہیںوہ جونیئر بھی ہوں تو اگلے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ اسکولوں ، کالجوں اور سندھ ڈائریکٹریٹ میں جونیئر افراد اہم عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ ان تقرریوں میں لسانی تفریق و امتیاز بھی واضح نظرآتی ہے۔ پی ای ڈی اور تحقیقی پرچوں کو ختم کرنے کی جو تجویز دی گئی ہے ، اس میں کالج کا کوئی استاد بھی وائس چانسلر کے عہدہ کے لیے اہل قرار پاسکے گا۔

اسی طرح تعلیم و تحقیق سے لاتعلق افراد بھی اس عہدے کے اہل ہو جائیں گے۔ ملک کے باقی صوبوں میں ابھی تک ایسی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔ وائس چانسلر کی ذمے داری صرف انتظامی معاملات کی نگرانی کرنا نہیں ہوتی بلکہ نصاب، تدریس اور تحقیق کے معیار پر توجہ دینا بھی ان کی ذمے داریوں میں شامل ہوتا ہے ، اگر کوئی فرد جس کا ریسرچ کا کوئی تجربہ نہیں ہووہ کسی یونیورسٹی کے ریسرچ کے اعلیٰ ادارہ کی صدارت نہیں کر سکے گا۔

اسی طرح پی ایچ ڈی کے مقالوں کی منظوری کے وقت بھی مشکل صورت حال پیدا ہوگی۔ جب تھیسز جمع ہوتے ہیں تو ریفریز اور پھر زبانی امتحان کے لیے ممتحن کا فیصلہ یونیورسٹی کے اعلیٰ تحقیقی شعبہ جات میں کیا جاتا ہے جن کی صدارت وائس چانسلر کی ذمے داریوں میں شامل ہے اور وائس چانسلر کا انتہائی اہم فریضہ ہے۔ حکومت کی اس تجویز سے تدریس اور ریسرچ کے شعبے براہِ راست متاثر ہوںگے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ شعبہ تعلیم کے میں سرمایہ کاری کرنے اور تدریس و تحقیق کا معیار بہتر کرنے کے لیے پالیسی بنانے کے بجائے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یونیورسٹیوں کے معاملات غیر علمی شخصیات کے حوالے کر دیے جائیں۔ اس طرح انتظامی تجربہ کے حامل اور پارٹی کے منظور نظر افراد کے وائس چانسلر بننے کے لے راہیں ہموار کی گئیں ہیں۔

یونیورسٹیاں خود مختا ر ادارے ہوتے ہیں جن کے پاس فنڈز، ملازمتیں، زمینیں اور تعلیمی اسناد اور بہت کچھ ہوتا ہے۔ غیر علمی شخصیات کے وائس   چانسلر بن جانے سے یونیورسٹیوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوسکتی ہے اور ان کے پاس موجود اثاثے بھی غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر عزیز کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں میں علم و آگہی کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ علمی شخصیات ہی کو وائس چانسلر کے عہدے پر تعینات کیا جائے اور علمی آزادی کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کو ان کی ضروریات کے مطابق مالی وسائل فراہم کیے جائیں۔

انھوں نے کہا کہ سابق حکومت نے نوجوانوں کے لیے بنائے گئے مختلف پروگراموں کو سوشل میڈیا سے منسلک کیا۔ ملک میں نوجوان افراد کی فلاح و بہبود کے لیے بنائی جانے والی پالیسوں کو یونیورسٹی سے منسلک کرکے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، اسی طرح یونیورسٹی کی تنظیمی ڈھانچے میں انتظامی امور کے ماہرین کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔

یونیورسٹی بنیادی طور پر تعلیم و تدریس اور تحقیق کے ادارے ہوتے ہیں ان کی نگرانی کی حتمی ذمے داری اساتذہ کے پاس ہی رہنی چاہیے۔ جس طرح فوج کی کمان ایک ماہر جرنیل، عدالت کا اختیار ایک ماہر جج ہی سنبھال سکتا ہے ، اسی طرح یونیورسٹی کی پالیسی سازی کی ذمے داری اساتذہ سے نہیں لی جا سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔