- چاقو کے حملے سے 7 سال بعد موت؟ قتل کی تحقیقات شروع
- حکومت کا ملک میں افراتفری پھیلانے والے عناصر سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ
- زمان پارک پولیس آپریشن کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کل ہوگی، فواد چوہدری
- کراچی: ٹک ٹاک بنانے پر پڑوسیوں کے درمیان جھگڑا، فائرنگ سے خاتون زخمی
- کراچی: گھریلو تنازع پر بڑے نے چھوٹے بھائی کا گلا کاٹ کر قتل کردیا
- کراچی کے مختلف علاقوں میں ہلکی بارش
- معاشی استحکام کیلیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے کام لیا جائے، ڈاکٹرعطاالرحمان
- صدام حسین کی ذاتی کشتی پکنک پوائنٹ میں تبدیل
- مبینہ آڈیو لیک؛ مریم نواز کے بارے میں گھٹیا گفتگو قابل مذمت ہے، وزیراعظم
- اسکرین ٹائم کی زیادتی، خودکشی کی جانب دھکیل سکتی ہے!
- ایک گھر میں تین بیویاں، اٹھارہ اٹھارہ بچے، مردم شماری کرنے والی خاتون اہلکار پریشان
- پاکستان کے جوہری اثاثوں سے متعلق کوئی شرط عائد نہیں کی، آئی ایم ایف
- چین کے صدر یوکرین جنگ پر پوتن سے ملاقات کیلیے روس پہنچ گئے
- ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم کی ’مریم نواز‘ سے متعلق مبینہ آڈیو لیک
- نارتھ کراچی میں ڈکیت کو ہلاک کرنیوالے بہادر سکیورٹی گارڈ کو پولیس کا نقد انعام
- عدالت کا حسان نیازی سے وکلاء اور اہل خانہ کو ملاقات کرانے کا حکم
- ہری پورمیں گاڑی پر راکٹ حملہ اور فائرنگ؛ پی ٹی آئی رہنما سمیت 7 افراد جاں بحق
- بیٹے کی ویڈیو گیمز کھیلنے کی عادت چھڑانے کیلیے باپ کی ’سخت سزا‘ کام کرگئی
- اسلام آباد پولیس کو عمران خان کی پیشی 2 کروڑ 18 لاکھ روپے کی پڑگئی
- چاند پر انسانی آبادکاری کے لیے برطانوی کمپنی نیوکلیائی ری ایکٹربنائےگی
آئیے! پھر سے ووٹ ڈالیں

ووٹر باکردار امیدوار اور جماعت کا انتخاب کریں۔ (فوٹو: فائل)
بالآخر کراچی میں ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ یہ وہی انتخابات ہیں جن کا انعقاد بار بار ٹالا جاتا رہا ہے، اور اس بار بھی یہ سننے میں آرہا ہے کہ بعض گروپ یا جماعتیں ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیں گی۔
واضح رہے کراچی میں کچھ عرصہ قبل ہی قومی اسمبلی کے حلقہ 245 کے ضمنی الیکشن ہوئے تھے، جس کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ ووٹنگ کی شرح بہت مایوس کن یعنی صرف 12 فیصد رہی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شاید بلدیاتی انتخابات میں بھی ووٹنگ کی شرح کم رہے گی۔ لیکن پھر بھی بلدیاتی انتخابات انتہائی اہم ہیں۔ خاص کر گزشتہ بارشوں کے بعد سے جب شہر کی سڑکیں، گلی کوچے سب کے سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور شہر گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے، ان کی درستی کےلیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ اس بار شہریوں کی بہت بڑی تعداد گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے آئے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گلی محلوں کی صفائی وغیرہ جیسے کام بلدیاتی سطح پر ہی ہوتے ہیں اور بلدیاتی نمائندے ہی ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایسے میں شہریوں کو یہ بات ذہین نشین کرلینی چاہیے کہ یہ بلدیاتی انتخابات ان کے گھر کی دہلیز تک کے مسائل حل کرنے کا ایک بہترین موقع اور ذریعہ ہیں۔ ان انتخابات میں شہری شرکت کرکے ہی اس شہر کو صاف ستھرا اور پھر سے خوبصورت بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہی بات راقم نے اپنے ایک دوست سے کہی تو ان کا خیال تھا کہ لوگ اس ملک کی سیاست اور سیاست دانوں کی کرپشن سے اس قدر بیزار آگئے ہیں کہ وہ اب ان سیاسی لوگوں کےلیے گھر سے نکل کر ووٹ ڈالنے کی زحمت بھی گوارا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اس انتخابی عمل کو غیر شفاف اور فضول سمجھتے ہیں۔
ہمارے دوست کی بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے اور یقیناً لوگ سیاسی شخصیات کی کرپشن اور ان کی سیاسی جنگ سے کافی حد تک بیزار آچکے ہیں اور انھیں اس بات کی کم ہی امید ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں مخلص ہوکر عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گی۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ تو یہ بھی ہے کہ اگر لوگ یونہی گھروں میں لاتعلق بیٹھ جائیں تو مزید غلط قسم کے لوگ منتخب ہوکر اقتدار میں آجائیں گے۔ عوام کے ووٹ ایسے لوگوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے میں سو فیصد نہ سہی لیکن بڑی حد تک اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کےلیے یہ کیسے طے کریں کہ کون سا امیدوار منتخب ہونے کے بعد ان کے علاقے کے مسائل حل کرنے میں سب سے بہتر ثابت ہوسکتا ہے؟
یاد رکھیے کہ بلدیاتی حلقوں کےلیے اب پہلے کے مقابلے میں فنڈز کم دستیاب ہوتے ہیں اور وسائل بھی پہلے کی بہ نسبت کم ہوتے ہیں۔ لہٰذا اب اگر کوئی امیدوار صاحب کردار ہو، یعنی اس کی شہرت ایماندار شخص کی ہو، اس پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں، اس کا ماضی اس حوالے سے بے داغ ہو تو ایسا ہی امیدوار کم فنڈ اور کم وسائل کے باوجود علاقے کے مسائل بہت حد تک حل کرسکتا ہے۔ اسی طرح ووٹ دینے کےلیے کسی امیدوار کا پندرہ بیس سالہ ریکارڈ ضرور جانیے کہ اس کا معیار زندگی پہلے کی بہ نسبت کس قدر بلند ہوا ہے؟ اگر کسی امیدوار کے اثاثے یعنی بینک بیلنس یا مال و دولت میں اضافہ ہوا ہے تو اس کا کردار خود مشکوک ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی مثالیں بہت ہیں کہ جو شخص کل تک ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا، جس کا ذریعہ معاش بھی کوئی خاص نہیں تھا، مگر دیکھتے ہی دیکھتے وسیع کاروبار اور جائیداد کا مالک بن گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسے افراد منتخب ہونے کے بعد اپنے خاندان کے مسائل ہی حل کرتے ہیں، اپنے حلقے کے نہیں کرتے۔
ایک مسئلہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات کا بھی ہے۔ ماضی میں منتخب اراکین شہر کے مسائل حل کرنے میں ناکامی کی وجہ اختیارات کا نہ ہونا بتاتے رہے، چنانچہ اب ایسے امید واروں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہے جو اداروں کے اختیارات میں اضافے کا مطالبہ تو ضرور کریں مگر ساتھ ہی دستیاب فنڈز اور وسائل سے شہر کے مسائل حل کرنے کا عہد بھی کریں۔ کیونکہ اختیارات کا مسئلہ تو بہت طویل ہوگا جبکہ شہر کے مسائل حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
گویا مذکورہ صورتحال میں ووٹر کو چاہیے کہ وہ یہ دیکھے کہ کون سی جماعت یا امیدوار باکردار ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ اور دستیاب اختیارات اور وسائل ہی سے عوام کے مسائل حل کرنے کا عزم اور دعویٰ کررہا ہے۔ اس وقت کراچی کو ایسے ہی باہمت اور باکردار نمائندوں کی ضرورت ہے جو یہ کہہ کر اپنے ہاتھ نہ کھڑے کرلیں کہ ان کے پاس اختیارات ہی نہیں، فنڈز ہی نہیں، بلکہ جم کر کھڑے ہوجائیں اور کام کےلیے گلیوں، محلوں میں نکل جائیں۔
سب سے بڑی مشکل ایک عام ووٹر کی یہ ہوتی ہے کہ ووٹ کےلیے کس امیدوار کا انتخاب کریں؟ اس کےلیے مندرجہ بالا خوبیوں والی جماعت کا جائزہ لیں، پھر اس کے امیدوار کا بھی جائزہ لیں اور بالکل غیر جانبدار ہوکر، مذہب، نسل اور رنگ سے ہٹ کر جائزہ لیں تو یقیناً ووٹر کسی ایک ایسےامیدوار تک پہنچ جائیں گے جو سو فیصد نہ سہی، بہت حد تک اس شہر کے مسائل حل کرنے میں ایک اچھا امیدوار ثابت ہوسکتا ہو۔
اس وقت تک کراچی کے حوالے سے جو جماعتیں اور امیدوار منظر عام پر آئے ہیں اور جنھیں عوام میں پذیرائی ملی ہے ان میں جماعت اسلامی سرفہرست دکھائی دیتی ہے، جس کی ایک وجہ ان کا بے داغ اور کرپشن سے پاک چہرہ ہی نہیں بلکہ کراچی کے مسائل پر مسلسل آواز اٹھانا بھی ہے۔ شہری بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ اب باکردار اور کرپشن سے پاک ماضی والوں کو لاکر ہی اس شہر کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ بحیثیت ووٹر آئیے مایوسی چھوڑ کر پھر سے ووٹ ڈالیں اور باکردار امیدوار اور جماعت کا انتخاب کریں۔ کیونکہ کل کسی شکوے سے بہتر ہے آج اپنے ووٹ کا درست استعمال کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔