نظریہ توا پرات

طلعت حسین  اتوار 16 مارچ 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

میں اپنے تما م اساتذہ کرام سے پیشگی معذرت طلب کرتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہو ں کہ انھوں نے سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کی بابت مجھے جو بھی نظریے اور مجدد خیالات پڑھائے وہ سب فضول اس طرح سے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی پاکستان کی حکومتوں کی پالیسوں کی وضاحت نہیں پیش کرتا۔ فکر و نظر کے وہ تمام پیرائے جو انھوں نے اپنی محنت سے موٹی موٹی کتابوں میں سے نکال کر ہمیں رٹے لگوانے پر مجبور کیا اس ملک میں ناکارہ اور غیر ضروری نظر آتے ہیں۔ ہماری خارجہ اور دفاعی پالیسی کو پرکھنے کے لیے نہ تو ’طاقت کا نظر یہ‘ معنی رکھتا ہے جس کے تحت تمام اقوام اپنے مفادات کو اپنی طاقت کے بڑھانے اور دشمنو ں کو کمز ور کرنے کے عمل سے جوڑتی ہیں۔ اور نہ ہی ہماری پالیسی کو بین الاقوامی سیاست میں ’’توازن یا اُس کے فقدان‘‘ کے کلیے کے ذریعے بیا ن کیا جا سکتا ہے۔ نہ کارل مارکس کی مغز ماری سے بنے ہوئے فارمولے کارآمد ہیں اور نہ ہی انسانی ترقی کے پیمانے کا فلسفہ ہم پر لا گو ہوتا ہے۔ یہ سب فالتو اور نامطلوب باتیں ہیں۔

مگر اس سے مراد یہ نہ لی جائے کہ جیسے ہماری قومی پالیسیاں اور اقدامات ماوراء فکری تجزیہ ہیں۔ میر ے پاس ایک ایسا قاعدہ موجود ہے جو ہمیں اپنی پیاری سرزمین پر موجود حکمرانو ں کے انداز ایسے سمجھا سکتا ہے کہ جیسے کوئی کامل استاد مودب شاگرد پر دانش کے دروازے کھو ل دیتا ہو۔ اس نظریے کو بیا ن کرنے سے پہلے میں آپ کو یہ بتلا دوں کہ یہ مکمل طور پر نئی تخلیق ہے۔ یہ آپ کو کسی کتاب میں نہ ملے گا اور نہ ہی کوئی فال نکالنے کا ماہر آپ کو بیا ن کر سکتا ہے۔ یہ سو فیصد تجزیے اور مشاہدے پر مبنی ہے۔ اس کو سمجھنے کے بعد آپ اس ملک کے چلانے والو ں کے انداز کی تمام تر پرسراریت کو ہمیشہ کے لیے جان جائیں گے۔ اس نظر یے کا نام ہے ’’نظر یہ توا اور پرات‘‘۔ جی ہاں آپ نے درست پڑھا۔ یہ وہی توا ہے جس پر ہمارے گھرو ں میں روٹی پکتی ہے اور یہ وہی پرات ہے جس میں آٹا گوندھا جاتا ہے۔ اس نظر یے کو پنجابی کے ایک محاورہ سے اخذ کیا گیا ہے جو کچھ یوں ہے ’جتھے ویکھیا توا پرات اُوتھے گزاری ساری رات (جہاں پر بھی میں نے مفت لنگر کا انتظام دیکھا وہیں پر پڑائو ڈال لیا) اس فارمولے کے مطابق آپ کو کسی خا ص قومی نظریے یا مفاد کے ساتھ جڑنے کی ضرورت نہیں۔ اور نہ ہی قومی اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کے لیے نئے جسم، جاں اور دماغ کو مشقت کی راہ پر ڈالنا ہے۔

حکومتوں کو ملکی معاملات کی ذمے داری سرانجام دینے کے لیے صر ف اور صرف یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ مفت مال کس کے ذریعے سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اگر مال مفت نہ بھی مل رہا ہو تو دوسرا معیار صرف اتنا سا ہے کہ کتنی جلدی یہ مال اپنی ضرورت کی آگ بجھا نے کے لیے پایا جا سکتا ہے۔ جس سمت میں مفت (یا جلدی) توا اور پرات موجود ہوتے ہیں وہ ہماری پالیسی کی سمت بن جاتی ہے۔ ہماری تمام تر فیصلہ ساز قوتیں فوراً وہاں پر قیام کر کے خود کو اسی ماحول میں فوراً ڈھال کر موقع سے مستفید ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس دوران اس خیال کو ذہن سے نکال کر پھینک دیا جاتا ہے کہ کل اس قافلے کا رخ کس طرف تھا اور آج کس طرف ہے۔ چونکہ اس قسم کی سوچ کا تعلق ضمیر کی آواز سے ہے لہذا اس کی آمد کی اول تو کوئی جگہ ہوتی ہی نہیں ہے مگر اگر کبھی اتفاق سے کوئی بھولا بھٹکا وہم آ بھی جائے تو یہ کہہ کر اس کے اثر کو زائل کر دیا جاتا ہے کہ ’تمام ممالک ایسے ہی کرتے ہیں، ہم کوئی انوکھا کام نہیں کر رہے!‘ اور چونکہ قافلے کے تمام اراکین (یعنی ہم اور آپ) توے پرات کے فوری فوائد سے استفادے کا سوچ رہے ہوتے ہیں ہم اس لولی لنگڑی وضاحت کو ماننے میں کوئی تأمل نہیں کرتے۔

اس ’توا پرات نظریے کی بابت حکومتی پالیسی‘ کی تازہ ترین مثال اسحاق ڈار کا یہ بیان ہے کہ ہمارے دوست ممالک نے ہمیں 1.5 ارب ڈالر (ویسے ان ڈالروں کو عرب ڈالر لکھیں تو زیادہ درست ہو گا) کی خطیر رقم تحفے میں دی ہے۔ اس بیان نے ریاستی تعلقات کی اُس بنیاد کو اجاگر کیا ہے جو ہمارے ملک میں بہرحال جانی پہچانی ہے۔ مگر دنیا میں کسی اور جگہ پر اس کا وجود نہیں ہے۔ اقوام ایک دوسرے کو تحفے تحائف نہیں دیتیں۔ نہ کوئی قرض حسنہ ہوتا ہے اور نہ ہی انسانی ہمدردی کے تحت حکومتیں اپنی جیبوں میں سے ڈھیروں ڈالر نکال کر دوسروں کے ہاتھ میں تھماتی ہیں۔ ہر ایک پائی کے بدلے کچھ مانگا جاتا ہے جس کی شرائط طے کیے بغیر ’تحفے‘ کی بات بھی شروع نہیں ہوتی۔

امریکی گندم ہو یا عسکری امداد، چین کی طرف سے نہ ختم ہونے والا تعاون ہو یا مشرق وسطیٰ اور گلف کے ممالک کا تیل و ترقیاتی کاموں کے لیے وسائل بہت کچھ مشروط ہوتا ہے۔ مگر ہماری حکومتو ں نے کبھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا۔ اور اگر کیا بھی ہے تو ہمیشہ قوم کو یہی بتایا ہے کہ اس مرتبہ جو مدد آئی ہے وہ جذبہ الفت سے لدی ہوئی ہے۔ دوسری اقوام بشمول یا بالخصوص وہ جو ہمیں وقتاً فوقتا تحفوں سے نوازتی رہی ہیں ہم سے کتنی محبت کر تی ہیں اس کو جاننے کے لیے آپ کو صر ف ان ممالک کے ایئر پورٹس پر اتر کر اپنا پاسپورٹ دکھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آپ سے جو سلوک ہو گا اُس سے آپ کو فوری سمجھ آ جائے گی کہ ہماری حکومتو ں کی پالیسو ں نے اس ملک کے باسیو ں کو جگ میں کتنا معتبر و معروف کیا ہے۔ مگر چونکہ ہمارے اکثر و بیشتر حکمرانو ں کے پاسپورٹوں کا رنگ مختلف ہے اور ان سب نے دنیا میں تقریبا ہر جگہ پر اپنے کاروبار اور اولاد کے ذریعے بہترین رابطے رکھے ہوئے ہیں لہذا وہ ان حقائق کو نہیں جانتے اور اگر جانتے بھی ہیں تو یہ ان کا دردسر نہیں ہے۔

مگر اصل معاملہ تحفے یا امداد آنے یا اُس کے ساتھ چپکی ہوئی شرائط کا نہیں ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ ہم کیو ں اور کیسے طے کر لیتے ہیں کہ اب ہمیں دوستوں کے تحا ئف کی ضرورت ہے؟ اس کا جواب آپ کو صرف توا پرات تھیوری سے مل سکے گا۔ اسحا ق ڈار نے معیشت کو وقتی طور پر چلانا ہے کیونکہ اس کو وقتی طور پر چلائے بغیر میا ں نواز شریف کی حکومت کے باقی چار سال مشکل سے کٹیں گے۔ وزیر خزانہ کو اس سے غرض نہیں ہے کہ اس خلوص میں کیا نیت چھپی ہوئی ہے۔ اُن کے لیے بس یہی چرچہ کافی کہ 1.5 ’ارب‘ ڈالر آ گئے ہیں۔ ویسے ہی جیسے پہلے امر یکی ڈالر آتے تھے۔ ویسے ہی جیسے چین ہماری مدد کرتا ہے۔ کبھی خوراک اور کبھی جہاز، کبھی سیلاب اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کے لیے امداد اور کبھی راولپنڈی میں ملٹر ی اسپتالو ں کی توسیع۔ میاں نواز شریف کی حکو مت نے کوئی نیا کام نہیں کیا ہے۔ پاکستان کو ایسے ہی چلایا جاتا رہا ہے۔ ’’جتھے ویکھیا توا پرات اوتھے گزاری ساری رات‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔