- پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی، شوہر کو تین ماہ قید کا حکم
- پشاور میں معمولی تکرار پر ایلیٹ فورس کا سب انسپکٹر قتل
- پنجاب میں 52 غیر رجسٹرڈ شیلٹر ہومز موجود، یتیم بچوں کا مستقبل سوالیہ نشان
- مودی کی انتخابی مہم کو دھچکا، ایلون مسک کا دورہ بھارت ملتوی
- بلوچستان کابینہ نے سرکاری سطح پر گندم خریداری کی منظوری دیدی
- ہتھیار کنٹرول کے دعویدارخود کئی ممالک کو ملٹری ٹیکنالوجی فراہمی میں استثنا دے چکے ہیں، پاکستان
- بشریٰ بی بی کا عدالتی حکم پر شفا انٹرنیشنل اسپتال میں طبی معائنہ
- ویمن ون ڈے سیریز؛ پاک ویسٹ انڈیز ٹیموں کا کراچی میں ٹریننگ سیشن
- محکمہ صحت پختونخوا نے بشریٰ بی بی کے طبی معائنے کی اجازت مانگ لی
- پختونخوا؛ طوفانی بارشوں میں 2 بچوں سمیت مزید 3 افراد جاں بحق، تعداد 46 ہوگئی
- امریکا کسی جارحانہ کارروائی میں ملوث نہیں، وزیر خارجہ
- پی آئی اے کا یورپی فلائٹ آپریشن کیلیے پیرس کو حب بنانے کا فیصلہ
- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
- پختونخوا؛ صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز بحال
- لاہور؛ پولیس مقابلے میں 2 ڈاکو مارے گئے، ایک اہل کار شہید دوسرا زخمی
- پختونخوا؛ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کئی اضلاع میں 30 اپریل تک طبی ایمرجنسی نافذ
گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ ٹیکس کے بقایاجات کی وصولی پر غور
اسلام آباد: ماتحت عدالتوں کی جانب حکم امتناع کے بعد بڑے کاروباری افراد اور فرٹیلائزر صنعت نے وفاق کو گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کی مد میں 453 ارب روپے کی ادائیگی روک دی تھی تاہم اب وزیر اعظم آفس نے ایک وزارتی کمیٹی قائم کی ہے تاکہ وہ کھاد ساز اداروں کا فارنزک آڈٹ کے علاوہ دیگر کاروبار اور مختلف تجاویز کا جائزہ لے سکیں۔
جی آئی ڈی سی کے خلاف مختلف عدالتوں میں 2 ہزار 496 پٹیشنز دائر ہیں جن میں سے 2 ہزار سے زائد پٹیشنز سندھ ہائی کورٹ جبکہ دیگر 474 لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہیں۔ کھاد ساز اداروں کا موقف تھا کہ ان کا حکومت سے دس سالہ معاہدہ ہے جس میں فرٹلائزر پالیسی 2001 کے تحت حکومت انھیں 70 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو گیس فراہم کرے گی اور اس میں ہر قسم کا ٹیکس، فیس اور چارجز شامل ہے چاہے وہ وفاقی ٹیکس ہو یا صوبائی اور اس میں صرف جنرل سیلز ٹیکس کا استثنا شامل تھا، یعنی وہ اس میں شامل نہیں تھا.
اسی لیے کھاد ساز اداروں، صنعتوں اور سی این جی مالکان کا موقف ہے کہ انھوں نے اس جی آئی ڈی سی کو آگے صارفین تک منتقل نہیں کیا اسی لیے وہ اس مد میں وفاق کو رقم جمع کرانے کے پابند نہیں ہیں۔
تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ان تمام کمپنیوں اور اداروں کو cess کی مد میں 50 فیصد رعایت دی تھی اور اس ضمن میں ایک آرڈیننس میں جاری کیا تھا جس کے تحت cess کے دیگر بقایاجات ان کمپنیوں نے اقساط کی صورت میں جمع کرانے تھے.
صوبائی عدالتوں نے اس حوالے سے مختلف پٹیشنز کے تحت فی الحال حکم امتناع جاری کیا تھا اور وفاق کو cess کی مد میں رقم وصول کرنے سے روک دیا تھا، تاہم اب نئی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد وفاق نے ایک بار پھر cess کی رقم وصول کرنے پر غور شروع کردیا ہے اور اس سلسلے میں وزارتی کمیٹی بھی قایم کردی گئی ہے جو اس معاملے کا جائزہ لے گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔