گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ ٹیکس کے بقایاجات کی وصولی پر غور

ظفر بھٹہ  ہفتہ 27 اگست 2022
عدالتوں نے وفاق کو 453 ارب روپے کی وصولی کرنے کیخلاف حکم امتناع جاری کیا تھا۔ فوٹو: فائل

عدالتوں نے وفاق کو 453 ارب روپے کی وصولی کرنے کیخلاف حکم امتناع جاری کیا تھا۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: ماتحت عدالتوں کی جانب حکم امتناع کے بعد بڑے کاروباری افراد اور فرٹیلائزر صنعت نے وفاق کو گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کی مد میں 453 ارب روپے کی ادائیگی روک دی تھی تاہم اب وزیر اعظم آفس نے ایک وزارتی کمیٹی قائم کی ہے تاکہ وہ کھاد ساز اداروں کا فارنزک آڈٹ کے علاوہ دیگر کاروبار اور مختلف تجاویز کا جائزہ لے سکیں۔

جی آئی ڈی سی کے خلاف مختلف عدالتوں میں 2 ہزار 496 پٹیشنز دائر ہیں جن میں سے 2 ہزار سے زائد پٹیشنز سندھ ہائی کورٹ جبکہ دیگر 474 لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہیں۔ کھاد ساز اداروں کا موقف تھا کہ ان کا حکومت سے دس سالہ معاہدہ ہے جس میں فرٹلائزر پالیسی 2001 کے تحت حکومت انھیں 70 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو گیس فراہم کرے گی اور اس میں ہر قسم کا ٹیکس، فیس اور چارجز شامل ہے چاہے وہ وفاقی ٹیکس ہو یا صوبائی اور اس میں صرف جنرل سیلز ٹیکس کا استثنا شامل تھا، یعنی وہ اس میں شامل نہیں تھا.

اسی لیے کھاد ساز اداروں، صنعتوں اور سی این جی مالکان کا موقف ہے کہ انھوں نے اس جی آئی ڈی سی کو آگے صارفین تک منتقل نہیں کیا اسی لیے وہ اس مد میں وفاق کو رقم جمع کرانے کے پابند نہیں ہیں۔

تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ان تمام کمپنیوں اور اداروں کو cess کی مد میں 50 فیصد رعایت دی تھی اور اس ضمن میں ایک آرڈیننس میں جاری کیا تھا جس کے تحت cess کے دیگر بقایاجات ان کمپنیوں نے اقساط کی صورت میں جمع کرانے تھے.

صوبائی عدالتوں نے اس حوالے سے مختلف پٹیشنز کے تحت فی الحال حکم امتناع جاری کیا تھا اور وفاق کو cess کی مد میں رقم وصول کرنے سے روک دیا تھا، تاہم اب نئی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد وفاق نے ایک بار پھر cess کی رقم وصول کرنے پر غور شروع کردیا ہے اور اس سلسلے میں وزارتی کمیٹی بھی قایم کردی گئی ہے جو اس معاملے کا جائزہ لے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔