مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

امجد اسلام امجد  اتوار 28 اگست 2022
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

میرؔ صاحب نے پتہ نہیں کس دھن میں اور کس حوالے سے یہ شعر کہا تھا کہ

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

لیکن آج کل آپ اخبار کھولیے ، ٹی وی لگایئے یا سوشل میڈیا سے رابطہ کیجیے ہر جگہ آپ کو وطنِ عزیز کے بیشتر حصے میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی خبریں ہی نظر آئیں گی حالیہ بارشوں کی پیدا کردہ یہ تباہی اتنی خوفناک ہے کہ اس نے 2010کے سانحے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

بعض معاملات میں اعداد کس قدر بے حسی کے ترجمان ہوجاتے ہیں اس کا مشاہدہ اور تجربہ بھی اب کسی کے لیے نیا نہیں ہے کہ کتنے ہزار ایکٹر پر لگی ہوئی کس قدر فصلیں اور سبزیاں اور وہاں موجود کتنے مال مویشی ان سیلابی ریلوں کا حصہ بن کر اپنے مالکوں کو مزید غریب اور بے آسرا کر گئے ہیں اور پانی کی اس سینہ زوری میں کتنے انسان اور اُن کے بچے بہہ گئے ہیں۔

یہ سب اعداد و شمار بار بار سننے کے باعث اب ایک انتہائی تکلیف دہ خبر کے بجائے اس کا ایک معمول کا حصہ بن چکے ہیں، مجھ سمیت وہ لوگ جو ان علاقوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے دور پُر امن حالت میں رہ رہے ہیں، ان خبروں کو دیکھ کر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور اس کے کارندوں کو برا بھلا بھی کہتے ہیں اور کچھ لوگ الخدمت اور اس جیسے بعض دوسرے رفاعی اداروں کو برسرِ عمل دیکھ کر اُن کو کچھ donationبھی بھجوا دیتے ہیں مگر عمومی طو ر پر اس قدر میڈیا ہونے کے باوجود اس بار عوامی ردّعمل نسبتاٍ بہت مایوس کن ہے کہ زیادہ تر لوگ سیاسی محاذوں پر ہونے والی کشمکش میں اُلجھے ہوئے ہیں اور اس صورتِ حال کو اس دردمندی اپنائیت اور دردِ دل کے ساتھ دیکھ اور سمجھ نہیں پا رہے جو اس کا تقاضا ہے ۔

بارشوں کے پانی کا مختلف علاقوں میں سیلابی لہروں کا رُخ اختیار کر جانا کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے مگر زمین پر انسانی آبادی اور تعمیرات کے اضافے نے اس عمل میں عجیب طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں اور اتفاق سے وطنِ عزیز سے وہ پیچیدگیاں نسبتاً زیادہ ہیں، ہوتا یوں ہے کہ بارشوں کا پانی پہاڑوں پر برستا ہے اور پھر قدرت کے بنائے ہوئے ایک راستے سے ندی نالوں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا سمند ر میں مل جاتا ہے اور یوں سیلابی ریلے اول تو شدّت نہیں پکڑپاتے اور اگر غیر متوقع زیادہ بارشوں کی وجہ سے ایسا ہو بھی جائے تو فالتو پانی بہت جلد اس قدرتی رستے کا حصہ بن کر زیادہ علاقے کو متاثرنہیں کر پاتا۔

2010 کے سیلابوں میں پتہ چلا کہ حیدر آباد اور کراچی کے نواح میں اس قدرتی رستے پر بے شمار غیر قانونی تعمیرات کی گئی تھیں جن کی وجہ سے پانی کو نکلنے کا قدرتی راستہ نہیں مل سکااور وہ ہفتوں ان علاقوں میں کھڑا رہا، اس بار بھی خبریں کچھ اس طرح کی ہیں کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بہت سی تعمیرات پانی کے اخراج کے قدرتی راستے پر کرلی گئی ہیں جن کی وجہ سے یہ قابو سے باہر ہوجاتا ہے اور نکاس کے نئے راستوں کی تلاش میں ہر طرف پھیل جاتا ہے، میں کوئی ماہر ارضیات نہیں ہوں کہ اس تھیوری کے بارے میں سنجیدہ رائے دے سکوں لیکن اگر ماہرین ایسا کہہ رہے ہیں تو ان کی بات کو وزن ضرور دینا چاہیے کہ اس مسئلے کے حل کے بغیر یہ آفت اپنے آپ کو دہراتی رہے گی۔

اب دیکھیے کہ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں اس حالیہ تباہ کاری سے جان و مال اور فصلوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کا پھیلاؤکتنا ہے اور کس طرح جلد سے جلد ان لاکھوں بے گھر ، بے زمین اور بے مستقبل لوگوں کو ہم گھر اور روزگار فراہم کرسکتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ کچے گھر بے نام ونشان ہوگئے ہیں اور ان میں رہنے والے مختلف جگہوں پر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیںکہ کوئی بچاؤ کی ٹیم وہاں پہنچے اور کم از کم انھیں زندہ رہنے کے لیے کھانا مہیا کر دے اس پر بارشیں ہیں کہ ابھی مزید برسنے کو تیار بیٹھی ہیں اس خلقِ خدا کے پاس زندہ رہنے۔

سر چھپانے اور اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کے لیے اب کچھ بھی نہیں بچا، سو ایسے میں صرف حکومتی امداد کے مختلف اعلانات سے ان کا گزارا نہیں ہوسکتا ہے ضروری ہے کہ سب محفوظ علاقوں سے لوگ انفرادی طور پر یا تنظیموں کے حوالے سے نکلیں اوران بھائیوں کے لیے اپنے دل اور ہاتھ کھول دیں اور پھر سب مل کر حکومت پر یہ دباؤ بھی ڈالیں کہ پانی کے رستے میں کی جانے والی غلطیوں کو جلد از جلد دور کیا جائے کہ بصورت دیگر دو چار برس بعد پھر یہی صورتِ حال سامنے آسکتی ہے پانی کی ا س تباہ کاری پر میں نے غزل کے انداز میں کچھ شعر کہے تھے اس وقت انھیں دہرانے کو جی چاہ رہا ہے کیا خبر کوئی اس سے کچھ سیکھ ہی جائے۔

کہہ کے گزرا ہے اماں پانی
پھر وہی تلخ داستاں پانی

کھیت، گھر، مسجدیں نہ آدم ذاد
بستیوں کا ہے اب نشاں پانی

لے گیا ساحلِ یقین بھی ساتھ
ایسے آیا تھا بے گماں پانی

پانی پانی ہے یوں تو حدِّ نظر
پھر بھی پینے کو ہے کہاں پانی

موت وادی میں جو اترتی ہیں
بن گیا ایسی سیڑھیاں پانی

سر پہ چھت ہے نہ پیٹ میں روٹی
کچھ اگر ہے تو ہے یہاں پانی

ایک ریلے میںگم ہوئی بستی
کھا گیا سب کو ناگہاں پانی

بن گیا رات کے اندھیرے میں
حشر کے دن کا ترجماں پانی

اب تو یہ یاد بھی نہیں آتا
کبھی ہوتا تھا مہرباں پانی

ہاتھ کو ہاتھ کی خبر نہ رہی
آگیا ایسے درمیاں پانی

وہ جو گلیاں تھیں زندگی افروز
اب وہاں پر ہے نوحہ خواں پانی

جانور ، لوگ ، خواب، بام ودر
کر گیا سب کو بے نشاں پانی

بین کرنے کو سر چھپانے کو
رہ گیا ایک ہی مکاں پانی

موت اُس کے جَلو میں رقصاں تھی
جا رہا تھا جہاں جہاں پانی

جس جگہ گھاس تک نہ اگتی تھی
ہم نے دیکھا وہاں وہاں پانی

نہیں رکتا کس کی خاطر یہ
نہیں سنتا کوئی فغاں پانی

آنکھ میں اور اس کے باہر بھی
ایک سا ہے رواں دواں پانی

کس طرح ہو مکالمہ اس سے
بولتا ہے عجب زباں پانی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔