مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

سلیم خالق  پير 29 اگست 2022
’’پاکستان زندہ باد،جیتے گا بھئی جیتے گا پاکستان جیتے گا، دل دل پاکستان‘‘۔ فوٹو: سوشل میڈیا

’’پاکستان زندہ باد،جیتے گا بھئی جیتے گا پاکستان جیتے گا، دل دل پاکستان‘‘۔ فوٹو: سوشل میڈیا

’’پاکستان زندہ باد،جیتے گا بھئی جیتے گا پاکستان جیتے گا، دل دل پاکستان‘‘

ہر بار جب پاک بھارت میچ دیکھنے اسٹیڈیم جائوں تو یہی نعرے ،گانے اور پرجوش ماحول ملتا ہے، آج بھی ایسے ہی مناظر نظر آئے، یو اے ای میں لاکھوں پاکستانی اور بھارتی رہتے ہیں، ان میں بیشتر کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی کرکٹ میچ ہو تو اسٹیڈیم جا کر دیکھیں مگر ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں ہوتا، چند ہزار خوش نصیب ہی میچ کے ٹکٹس خرید پاتے ہیں، باقی دوستوں یا رشتہ داروں کے ساتھ ٹی وی پر ہی مقابلے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یو اے ای میں اب اتوار کو ہفتہ وار تعطیل ہوتی ہے،ویسے بھی میچ تو شام کو شروع ہونا تھااسی لیے کسی کو اپنے کاروبار یا ملازمت کے حوالے سے کوئی ٹینشن نہیں تھی، جس دن میچ کے ٹکٹ فروخت کیلیے پیش ہوئے چند منٹ میں ہی غائب ہو گئے، دوسرے مرحلے میں بھی یہی ہوا،شائقین کی مایوسی دور کرنے کیلیے بعض ریسٹورینٹس وغیرہ نے بڑی اسکرینز پر میچ دکھانے کا پلان بنایا جہاں اسٹیڈیم جیسا ہی ماحول بن گیا،اس بار میرے لیے ایک منفرد تجربہ تھا۔

آپ سب جانتے ہیں پی سی بی والے مجھ پر کتنے مہربان رہتے ہیں، چند برس قبل جب ساتھی صحافی مرزا اقبال بیگ کو نجم سیٹھی نے پی ایس ایل کی ایکریڈیٹیشن دینے سے انکار کیا تو اپنے پاس کارڈ موجود ہونے کے باوجود میں نے اقبال بھائی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلیے ایک باکس میں بیٹھ کر میچ دیکھا تھا،چیئرمین اور میڈیا ڈپارٹمنٹس کے لوگ بدل جاتے ہیں مگر سوچ وہی رہتی ہے، اس بار تو اے سی سی سے کہہ کر کارڈ ہی نہیں بننے دیا اس حوالے سے باقاعدہ گیم کھیلا گیا جس کی تفصیلات کسی آف ڈے میں آپ کو بتائوں گا۔

خیر اسٹیڈیم میں گذشتہ سال ورلڈکپ جیسا ہی ماحول دکھائی دیا، پاکستانی اور بھارتی شائقین کی بڑی تعداد اپنے قومی پرچم لیے باہر موجود تھی، کئی نے ٹیموں کے جیسی شرٹس زیب تن کی ہوئی تھیں، چہرے پر جھنڈے بھی پینٹ کروائے تھے، بڑے ہی منظم انداز میں قطار میں لگ کر سب اندر داخل ہو رہے تھے،یہاں جدید اسلحے سے لیس پولیس اہلکار تو نظر نہیں آتے لیکن خاموشی سے سب پر نظر رکھی ہوئی ہوتی ہے تاکہ کوئی قانون کی خلاف ورزی نہ کرے۔

پولیس کا رعب بھی بہت ہے اور لوگ خود اہلکاروں کو دیکھ کر محتاط ہو جاتے ہیں، انتظامات بہت سخت تھے ،ہیلی کاپٹرز بھی موجود تھے،اسٹیڈیم میں اپنے انکلوژر میں پہنچا تو سامنے ہی پی سی بی کے ایک اعلی افسر کوپایا جنھوں نے مجھے ایسے گھورا جیسے سوچ رہے ہوں کہ یہ یہاں کیسے آیا،موبائل پر کام کرنے کا تجربہ میچ میں بہت کام آیا،پاکستانی کرکٹرز نے سیلاب زدگان سے اظہار یکجہتی کیلیے ہاتھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر میچ میں حصہ لیا، انھوں نے متاثرین کی مدد کا بھی اعلان کیا تھا، اس مسئلے کو اجاگر کرنے کیلیے پاک بھارت میچ سے بڑا کوئی پلیٹ فارم ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

’’ایکسپریس نیوز‘‘ کے اینکر عمران حسن نے بھی چند روز قبل مارننگ شو اور ٹویٹر پر یہی بات کہی تھی،پی سی بی نے انگلینڈ سے پہلے میچ کی آمدنی عطیہ کرنے کا خوش آئند اعلان کیا ہے۔

ویسے مقابلے سے قبل ہی پاکستانی ٹیم کے لیے حالات کچھ اچھے نہ تھے، گذشتہ برس ورلڈکپ کا میچ جتوانے والے شاہین شاہ آفریدی اس بار انجری کے سبب دستیاب نہ تھے،محمد وسیم جونیئر بھی زخمی کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہو کر ایشیا کپ سے باہر ہو گئے، حیران کن بات یہ ہے کہ پی سی بی نے دونوں کو ری ہیب کیلیے وطن واپس بھیجنے کے بجائے یو اے ای میں ہی ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا ، کیا ہائی پرفارمنس سینٹر میں کوئی اس قابل نہیں کہ دونوں پیسرز کی مدد کر سکے،کیا سارے اچھے لوگ ٹیم کے ساتھ ہی بھیج دیے گئے ہیں؟

اس کا جواب تو پی سی بی ہی دیکھ سکتا ہے، حسن علی میچ کی صبح ہی دبئی پہنچے اور پہلے ہی انھیں بھارت کیخلاف نہ کھلانے کا اعلان ہو چکا تھا، ویسے بھی وہ اعتماد کی کمی کا شکار ہیں اور بھارتی بیٹرز کا آسان ہدف بن سکتے تھے۔ ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق کی زیادہ توجہ میڈیا کمٹمنٹس پر تھی، بجائے اہم میچ پرتوجہ مرکوز رکھنے کے وہ ایک بھارتی ویب سائٹ کے ایکسپرٹس پینل میں شامل ہو کر تبصرے کرتے رہے، کیا چند ہزار ڈالر کیلیے ایسا کرنا درست تھا؟

پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ اپنے صحافیوں کو تو کھلاڑیوں اور کوچز تک رسائی نہیں دیتا پھر بھارتی کیسے ان تک پہنچ گئے، یہ لمحہ فکریہ ہے، ویسے ہی اسکینڈلز بنتے دیر تک لگتی، میڈیا منیجر تو ویڈیو گرافر زیادہ ہیں اور اپنے کام سے بڑھ کر ان کی کوشش ویڈیوز بنانے پر ہوتی ہے،دبئی میں گرمی بہت ہے جس سے کھلاڑی خاصے پریشان رہے،ہمارے پیسرز تو ان فٹ بھی ہوئے،البتہ بھارتیوں کی فٹنس بہتر نظر آئی،اسٹیڈیم کے اندر پاکستانی بھی موجود رہے لیکن بھارتیوں کی تعداد زیادہ تھی۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک دوسرے کے ملک کے گانے بجنے پر سب مل کر رقص کرتے،خصوصا علی سیٹھی کے گانے پسوڑی پر تو بھارتیوں نے خوب ڈانس کیا، میچ میں سخت مقابلہ ہوا،پاکستان ٹیم کی بیٹنگ نہیں چلی مگر ٹیل اینڈرز نے اسکور فائٹ کے قابل پہنچا دیا،گوکہ شاہین شاہ آفریدی موجود نہ تھے مگر نسیم شاہ نے کمی محسوس نہ ہونے دی۔

اگر فخر زمان ابتدا میں کوہلی کا کیچ تھام لیتے تو ورلڈکپ کی طرح دو وکٹیں جلدی ملنے سے پاکستان حاوی ہو جاتا،فاضل رنز بھی بہت دیے،کم اسکور کے باوجود بولرز نے میچ پھنسا دیا تھا مگر پھر ہردیک پانڈیا کی برق رفتار اننگز نے پانسہ پلٹ دیا،ان کے آخری اوور میں چھکے نے شائقین کے دل توڑ دیے،تقریباً جیتا ہوا میچ ہاتھ سے نکلنے پر سب بیحد مایوس نظر آئے مگر خود کو ایسے ہی تسلی دے دیتے ہیں کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔