شاہین کو اب فٹبال نہ بنائیں

سلیم خالق  منگل 30 اگست 2022
دبئی کے ٹیم ہوٹل میں شائقین کا تانتا بندھا رہتا ہے جو کھلاڑیوں کی ایک جھلک دیکھنے اور سیلفی کیلیے بے چین رہتے ہیں۔ فوٹو : رائٹرز

دبئی کے ٹیم ہوٹل میں شائقین کا تانتا بندھا رہتا ہے جو کھلاڑیوں کی ایک جھلک دیکھنے اور سیلفی کیلیے بے چین رہتے ہیں۔ فوٹو : رائٹرز

ارے یار جیتا ہوا میچ ہار گئے

اگر نسیم سو فیصد فٹ ہوتا تو جتوا دیتا

بابر نے آخری اوورمحمد نواز کو کیوں دیا؟

دبئی اسٹیڈیم سے نکلتے ہوئے میں نے پاکستانی شائقین کو اسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے پایا، سب کے منہ لٹکے ہوئے تھے، فتح کے اتنے قریب پہنچ کر شکست کو قبول کرنا خاصا دشوار ہوتا ہے، البتہ ٹیم کی فائٹنگ اسپرٹ کو سب نے سراہا، گذشتہ برس ورلڈکپ میں گرین شرٹس سے ہارنے پر بھارتی شائقین خاصے اپ سیٹ تھے، اب انھیں خوشیاں منانے کا موقع مل گیا،میں ہوٹل واپسی پر راستے میں میں بھی شکست کی وجوہات سوچتے رہا۔

ایک بات تو واضح ہو چکی کہ پاکستانی ٹیم فٹنس میں کافی پیچھے ہے،یقینا گرمی بہت تھی لیکن اسی موسم میں بھارتی کرکٹرز کو تو کچھ نہ ہوا، ہمارے پلیئرز کو کریمپس یا دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ان دنوں اتنے تواتر سے کھلاڑی انجرڈ ہو رہے ہیں اور پی سی بی بے بس ہے،میڈیکل پینل اور فزیو وغیرہ کیا ٹھیک کام کر رہے ہیں یہ دیکھنا ہوگا، شاہین شاہ آفریدی کو پہلے بولنگ مشین بنا کر ان فٹ کرایا گیا اور اب فٹبال بنا کر ایک سے دوسرے ملک گھمایا جارہا ہے۔

سب کہتے رہے کہ انھیں آرام دیں اور منتخب میچز کھلائیں مگر کسی نے نہ سنی، پھر لاہور میں ہی ری ہیب کرانا چاہیے تھا، مگر پہلے ساتھ نیدرلینڈز لے گئے، پھر دبئی لے آئے، اب لندن بھیج دیا، کوئی اپنے اہم ترین بولر کے ساتھ ایسا کرتا ہے،کہا گیا کہ بابر اعظم چاہتے تھے کہ شاہین ٹیم کے ساتھ رہیں،کیا بابر ڈاکٹر ہیں جو ان کی بات مان لی؟ یو اے ای میں ٹیم صرف ایک ہی وکٹ کیپر محمد رضوان کے ساتھ آئی ہے، بھارت سے میچ میں وہ بھی مشکلات کا شکار نظر آئے، اگر خدانخواستہ کسی میچ میں دستیاب نہ ہوئے تب ٹیم کس سے وکٹ کیپنگ کرائے گی؟

ٹیم میں سپورٹ اسٹاف کی بھرمار ہے، بورڈ کی موجودہ انتظامیہ بھی گورا کلچر سے بیحد متاثر ہے ، قومی ٹیم کی تربیت کے لیے پہلے لاکھوں روپے ماہانہ پر ایک غیرملکی کوچ کا تقررہوتا ہے، پھر اس کی ٹیم کے واجبی تعلیم یافتہ کھلاڑیوں کے ساتھ کمیونی کیشن کے لیے ایک پاکستانی منظورنظر کو لاکھوں روپے ماہانہ پر نائب مقرر کرکے نوازا جاتا ہے۔

اس کی تازہ مثال کچھ عرصے قبل نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں خاموشی کے ساتھ اسپیشل اسائنمنٹ کوچ مقرر ہونے والے عمر رشید ہیں، وہ بیٹنگ کوچ محمد یوسف، ہیڈکوچ ثقلین مشتاق اور ڈائریکٹر نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر ندیم خان کے لیے تمام کمپیوٹر ورک کرتے تھے،ان کی ’’خدمات‘‘ کا صلہ دیتے ہوئے پاکستانی ٹیم کے ساتھ اسسٹنٹ بولنگ کوچ مقرر کر دیا گیا،اس کے باوجود پاکستان ٹیم وائیڈ بالز سے پریشان ہے۔

بھارت کیخلاف لیکن بیٹنگ لائن کا ناکام رہنا سوال اٹھا گیا،کیا محمد یوسف کا ساتھ ہونا کوئی فائدہ بھی پہنچا رہا ہے؟ مڈل آرڈر پر ایک بار تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں،البتہ بعض سابق کرکٹرز کے ساتھ کچھ شائقین بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بابراعظم اور محمد رضوان کی سست بیٹنگ سے مڈل آرڈر پر دباؤ آ جاتا ہے اور کم اوورز میں زیادہ رنز بنانے کی کوشش میں پلیئرز وکٹیں گنواتے رہتے ہیں، ریکارڈز میں ان کے اوورز نہیں ناکامی ہی درج ہوتی ہے۔

اگر ہم بھارت سے میچ کا جائزہ لیں تو پاور پلے کے دوران 5 اوورز میں پاکستان کا اسکور صرف 30 رنز تھا، اس وقت تک بابر آؤٹ ہو چکے تھے، یہ ٹھیک ہے کہ دونوں اوپنرز سیٹ ہونے میں وقت لیتے ہیں مگر ہمیشہ سست بیٹنگ کا الزام درست نہیں،انہی دونوں نے بھارت سے ورلڈکپ میچ میں ٹیم کو10 وکٹ سے فتح دلائی تھی،شاید ان کے ذہن میں یہ بات ہو کہ اگر ہم جلدی آؤٹ ہو گئے تو کہیں باقی بیٹنگ لائن پھنس نہ جائے،کئی بار ایسا ہوا بھی ہے،البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں میں سے ایک اوپنر کو چانس لینا ہوں گے،اس سے اسکور بورڈ متحرک رہے گا۔

بعض حلقوں نے فخر زمان سے اوپننگ کرانے اور بابر کو تیسرے نمبر پر بیٹنگ کا مشورہ دیا ہے،البتہ بنی بنائی جوڑی کو تبدیل کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں لگتا، رہی بات مڈل آرڈر کی تو وہ یقینی طور پر ناکامیوں کا شکار ہے،کم اوورز ملنے کا جواز نہیں، جب آپ درست کھلاڑیوں کا انتخاب ہی نہیں کریں گے تو مسائل کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا، سلیکشن کمیٹی کی غلطیوں کا ٹیم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے، شعیب ملک کی جگہ بنتی ہے مگر عمر آڑے آ رہی ہے، فٹنس اور فارم پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔

اگر انھوں نے بھی شناختی کارڈ پر بعض دیگر کھلاڑیوں کی طرح غلط عمر درج کرائی ہوتی تو اب بھی کھیل رہے ہوتے، نہ صرف پاکستانی بلکہ بھارتی کرکٹرز بھی اپنے پہلے میچ میں پھنس کر کھیلے، سب کا ناکامیوں کا ڈر تھا، میچ میں کوئی نصف سنچری بھی نہ بنی، بیشتر کھلاڑیوں نے نیچرل کھیل سے گریز کیا، البتہ لو اسکورنگ مقابلے کو بھی پاکستانی بولرز نے بہترین کارکردگی سے سنسنی خیز بنا دیا، پہلے پاکستانی اور بھارتی کرکٹرز کے درمیان سخت مسابقت نظر آتی تھی البتہ ان دنوں دوستی چل رہی ہے۔

بھارتی فلمی نقاد کمال آر خان نے عجیب سا بیان دیا کہ آئی پی ایل میں شرکت کیلیے پاکستانی کھلاڑی بھارتیوں کے ساتھ اتنے سوئٹ بن رہے ہیں، وہ یہ بھول گئے کہ بھارتی حکومت نے شرکت پر پابندی لگائی ہے اور کرکٹرز جتنے دوست بن جائیں کوئی فرق نہیں پڑنا، دراصل بھارتی کرکٹرز بھی اب خاصے دوستانہ رویے کے حامل ہیں خصوصا ویراٹ کوہلی کا رویہ اچھا ہوتا ہے، اس میچ کے بعد بھی وہ حارث رؤف سے ملاقات میں کرکٹ پر باتیں کرتے رہے اور شرٹ کا تحفہ بھی پیش کیا۔

دبئی کے معروف صحافی عبدالرحمان رضا بتا رہے تھے کہ ایک دن پریکٹس کے بعد روہت شرما سے جب ایک مداح نے شرٹ مانگی تو انھوں نے مذاق میں جواب دیا کہ ’’یارٹورنامنٹ تو ختم ہونے دو‘‘ وہ وہاں موجود پاکستانی مداحوں کے ساتھ بھی خوش اخلاقی سے ملتے رہے،اسی رویے سے دوست بنائے جاتے ہیں اور تلخیاں کم ہوتی ہیں، ہمارے کھلاڑی تو ہمیشہ سے ہی دوستانہ رویے کے حامل رہے ہیں،آج آرام کا دن تھا، ٹیم کا تھنک ٹینک شکست کی وجوہات تلاش کرتے رہا۔

دبئی کے ٹیم ہوٹل میں شائقین کا تانتا بندھا رہتا ہے جو کھلاڑیوں کی ایک جھلک دیکھنے اور سیلفی کیلیے بے چین رہتے ہیں، چونکہ کلوز میچ ہارے اس لیے کسی کو غصہ نہیں البتہ سب کی یہ خواہش ہے کہ اگلے میچ میں مزید بہترین کارکردگی سامنے آئے،امید ہے ایسا ہی ہوگا، ویسے ہانگ کانگ کے خلاف تو شکوک بھی نہیں ہونے چاہیئں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔