اولین ایجنڈا

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 1 ستمبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ایک طرف قدرتی آفات ہیں۔ ریلیف دینے میں ریاست کی ناکامی نے عام آدمی کے اعتماد کو مجروح کیا ہے تو دوسری طرف انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں بھی مسائل اسی طرح ہیں۔ لاپتہ افراد کے معاملات تاحال مکمل طور پر حل نہیں ہوسکے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کا پونے چار سالہ اقتدار بھی انسانی حقوق اور ذرائع ابلاغ کے حوالے سے اچھا نہیں رہا، عمران خان کی کابینہ میں ڈاکٹر شیریں مزاری انسانی حقوق کی وفاقی وزیر رہی ہیں۔ ان کا بیانیہ یہ ہے کہ ان سمیت وفاقی کابینہ کے کئی اراکین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے حق میں نہیں تھے مگر فروغ نسیم کے پرزور دلائل پر عمران خان اس پر تیار ہوئے تھے۔

فروغ نسیم نے اپنے خلاف اس موقف کی نفی کی ہے۔ بہرحال شیریں مزاری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اینکر کے سوالات پر کہا کہ شہری کو جبریہ لاپتہ کرنے Enforced disappearance کا بل کابینہ کے سامنے زیرِ غور آیا تو خان صاحب نے کہا کہ بہت دیر ہوگئی ہے، ہمیں اس کو منظور کرنا ہے، یہ بذریعہ سر کولیشن بل کا ڈرافٹ منظور ہوا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے اس حقیقت کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ سینیٹ نے لاپتہ افراد کا بل منظور کرلیا تھا۔

کچھ دنوں کی خاموشی کے بعد ڈاکٹر شیریں مزاری نے یہ انکشاف کیا کہ بل کا سینیٹ سے منظور کردہ مسودہ لاپتہ ہوگیا ہے۔ پارلیمنٹ کی ہزار سال کی تاریخ میں کسی منتخب ایوان کے منظور شدہ بل کا لاپتہ ہونا تاریخ کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ ڈاکٹر شیریں وفاقی وزیر بننے سے پہلے شیریں مزاری ساکھ بہت اچھی تھی مگر انھوں نے اپنی ناکامی پر استعفیٰ دینے کے بارے میں نہیں سوچا۔ ذرائع ابلاغ سے دستیاب اطلاعات کے مطابق سینیٹ نے دوبارہ اس بل کے مسودہ کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔

گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کی گرفتاری پر تحریک انصاف کی قیادت نے خاصا واویلہ کیا حالانکہ شہباز گل کو فوج میں نفر ت پھیلانے کے جرم پر ایف آئی اے اور پولیس نے گرفتار کیا تھا ۔ ان کا ڈرائیور گرفتاری سے بچنے کے لیے بنی گالہ میں روپوش ہوا تو ڈرائیور کی اہلیہ کو بچی سمیت حراست میں لیا گیا تاہم اسے پوچھ گچھ کے بعد رہا کردیا گیا۔

اس پر تحریک انصاف کے ٹائیگرز نے سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا دیا، عمران خان نے جارحانہ پالیسی اختیار کی ۔ شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دینے پر عمران خان نے بھرے جلسے میں پولیس افسران اور خاتون مجسٹریٹ کو نام لے کر دھمکیاں دیں اور اب وہ توہین عدالت کے الزام میں عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ طاقت ور لوگوں اپنے ساتھیوں کی گرفتاری پر واویلہ مچاتے ہیں، لیکن اگر کسی غریب آدمی کو گرفتار کرلیا جائے یا کوئی عام آدمی کو نامعلوم لوگ کہیں لے جائیں اور وہ واپس نہ آئے تو اس پر طاقتور لوگ کوئی توجہ نہیں دیتے ۔گزشتہ روز پتہ چلا کہ کتابیں فروخت کرنے والے ایک نوجوان فہیم حبیب اپنی دکان سے چند نامعلوم افراد کے ہمراہ کہیںچلے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔

اس کے لواحقین کے بقول فہیم ٹائیفائیڈ اور لو بلڈ پریشر کا مریض ہے اور اسے چکر بھی آتے ہیں ۔ متعلقہ تھانہ کے اہلکاروں کو بھی اس نوجوان کے اچانک کہیں جانے کا علم نہیں ہے۔ فہیم حبیب کو کتابوں سے عقیدت ہے مگر یہ غریب ہے، اس لیے تحریک انصاف سمیت کوئی سیاسی رہنما فہیم کے بارے میں کچھ کہنے کو تیار نہیں ہیں۔

تھانوں اور جیلوں میں غیرقانونی تشدد یا شہریوں کا ماورا عدالت اغواء بین الاقوامی جرم قرار دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشن میں تشدد کی ہر قسم کو خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی تشدد ہو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشن کی توثیق کرنے والے ممالک اس بارے میں قانون سازی کے پابند ہیں۔

پرویز مشرف ، میاں نواز شریف اور آصف زرداری کی حکومتوں نے اس حوالے سے جامع قانون سازی پر توجہ نہ دی۔ عمران خان کے بارے میں بعض خوش گمان کارکنوں کو امید تھی کہ وہ کیونکہ برطانیہ کے قانونی نظام کی اچھائیوں کو بیان کرتے رہتے ہیں تو وہ ضروری بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ان قوانین کو پارلیمنٹ سے منظور کرائیں گے بلکہ ان کے عملی اطلاق کے لیے ایک مضبوط طریقہ کار طے ہوگا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے چند ماہ قبل ایک فیصلہ میں لکھا تھا کہ اب دنیا بھر میں ہتک عزت اور توہین عدالت پر فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہوتا۔ جسٹس اطہر من اﷲ نے اس فیصلہ میں مزید لکھا ہے کہ اب تو افریقی ممالک میں بھی یہ قانون متروک ہوچکا ہے۔ پاکستان میں اس کے اطلاق کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ ہتک عزت سول کیس ہے، یہ فوجداری کیس نہیں ہوتا۔برطانیہ میں لا آف ٹارٹ سول رائٹس کے حوالے سے مقدمات کو ڈیل کرتا ہے۔

بہرحال عمران خان حکومت کو روندنے کے جس گھوڑے پر سوار ہیں، انھیں کچھ دنوں کے لیے اس گھوڑے سے اترنا چاہیے۔ موجودہ وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید بھی ریاستی تشدد سے گزرے تھے۔ علی وزیر اور بہت سے سیاسی کارکنوں کے ساتھ روزانہ ایسا ہی ہوتا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کو اس طرح کے واقعات کی مذمت کرنی چاہیے۔ 30 اگست کو جبری گمشدگی کی روک تھام کا عالمی دن منایا گیا۔ حکومت تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو تشدد کی روک تھام کے بل اور لاپتہ افراد کے قانون کی منظوری کو اولین ایجنڈا بنانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔