سب بہہ گیا ہے کچھ بھی نہیں بچا

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 1 ستمبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

ملک و قوم ابھی کورونا کے نقصانات اور اثرات سے نہیں نکل پائی تھی کہ پاکستانی تاریخ کے بدترین سیلاب نے آن گھیرا، ایسا خوفناک سیلاب ہم نے تو اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔

پنجاب بچا، نہ خیبرپختونخوا، سندھ بچا، نہ بلوچستان، سیلاب نے تباہی مچا کر رکھ دی۔ جون سے شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں کے باعث ابتدائی طور پر سندھ اور بلوچستان میں تباہی کی اطلاعات آئیں، بعد ازاں پنجاب اور خیبرپختونخوا سے بھی دل دہلا دینے والی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔

زندگی پانی کی بے رحم موجوں کے سامنے بے بس ہوگئی، جہاں جہاں سے سیلابی ریلے گزرتے گئے وہاں وہاں موت کا رقص ہوتا گیا۔ چند دنوں میں ایک ہزار سے زائد افراد کی شہادت کی اطلاعات ملی ہیں۔ یہ مرنے والوں کی معلوم تعداد ہے اندازہ کیجیے نامعلوم موت کو گلے لگانے والوں کی تعداد کیا ہوگی؟ کیونکہ میڈیا کا کیمرہ یا ریسکیو ٹیمیں ابھی تک بیشمار متاثرہ علاقوں تک پہنچ ہی نہیں پائی ہیں۔

سیکڑوں دیہات، قصبے اور شہر ڈوب گئے، متعدد گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ سڑکیں اور پل پانی میں بہہ گئے۔ چند روز پہلے تک جن علاقوں میں زندگی پورے جوبن پر تھی آج وہاں موت کا رقص دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں لوگوں کی رونقیں تھیں آج کوئی آواز دینے والا ہے نہ کوئی سننے والا۔

سیلاب میں ہونے والے حادثات کی ویڈیوز اور تصاویر نے لوگوں کے دل دہلا دیے، جب کہ 25اگست کو خیبرپختونخوا میں سیلاب میں مدد کے منتظر افراد کے ڈوبنے سے لوگ آبدیدہ ہوگئے اور سوشل میڈیا صارفین نے کے پی حکومت کوآڑے ہاتھوں لیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک مختصر ویڈیو میں خیبرپختونخوا کے علاقے کوہستان میں تیز سیلاب میں پانچ افراد کو ایک پتھر پر مدد کے لیے منتظر دیکھا جا سکتا ہے۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اسی روز ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں خیبرپختونخوا کے سرکاری ہیلی کاپٹر پر سوار وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سوار تھے، دونوں شخصیات بظاہر سیلابی علاقوں کے دورے پر نکلی تھیں لیکن اس ویڈیو میں عمران خان متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے کے بجائے صرف اپنے موبائل میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔

انھیں اگر موبائل ہی دیکھنا تھا تو اس کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر میں سوار ہونا ضروری تھا؟ وہ اگر بنی گالہ میں آرام سے بیٹھ کر موبائل میں مشغول رہتے اور صوبائی حکومت کو حکم دیتے کہ یہ سرکاری ہیلی کاپٹر کوہستان میں سیلابی ریلے میں پھنسے نوجوانوں کو بچانے کے لیے  بھیج دیں مگر لگتا ہے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ہیلی کے پٹر استعمال کا ایسا چسکا پڑا کہ وزارت عظمٰی سے محروم ہونے کے باوجود شوق کم نہیں ہوا۔ جو لیڈر اس ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویدار تھا،ان کی صوبائی حکومت سیلاب میں پھنسے پانچ نوجوانوں کی جان نہ بچا سکی۔ حالانکہ اس کے پاس ہیلی کاپٹر موجود تھا۔

حقیقی ریاست مدینہ کے ایک حاکم خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اللہ سے اس قدر ڈرتے تھے وہ کہتے تھے دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک یا پیاس سے مر گیا تو کل قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں عمر جوابدہ ہوگا۔ خان صاحب! آپ کے صوبے میں پانچ لوگ محض اس لیے سیلاب میں بہہ گئے کہ انھیں بچانے کے لیے ریاست اور حکومت کے پاس وقت نہیں تھا۔ تبدیلی کے قارئین کو یاد ہوگا کہ رحمان ملک صاحب مرحوم کے بچے اور بیوی ناران پھنس گئے تھے، تو وہ ہیلی کاپٹر لے کر خود پہنچ گئے تھے۔

ایسے ہی حالات میں چترال میں پھنسی عمران خان کی  بہن علیمہ خان کو ریسکیو کرلیا گیاتھا۔ میاں صاحب کے ہیلی کاپٹر کے’’سری پائے اور چائے کی کیتلی‘‘ کے لیے اڑان بھرنے کے بھی چرچے رہے ہیں۔ بیچارے پانچ کوہستانی زندگی کی راہ دیکھتے دیکھتے موت کا لقمہ بن گئے۔

اس دل دہلا دینے والے واقعہ کے بعد ہر کوئی یہی سوچتا ہوگا کہ تکریم انسانیت کی آس رکھنا اس ’’بیگارکیمپ‘‘ میں خود پر سب سے بڑا ظلم ہے۔ ایک خاص طبقہ ہے جس کے زندہ رہنے، پنپنے، پرورش پانے کے لیے یہ خطہ تشکیل دیا گیاتھا۔ جوآج تک اپنے ان اہداف سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوا۔ باقی رہے  عوام، اگر تو بھوک، ننگ افلاس، بیماری سے بچ گئے تو سیلابوں کی نذر ہوجائیں گے۔ تاوقتیکہ ان اہداف کا تعاقب اور ان گروہوں سے نجات حاصل نہیں کرلیتے۔

اس ناگہانی آفت کے آگے زندگی چیخ اٹھی کہ اب تو کفن کو کپڑا بچا نہ دفن کے لیے خشک زمین۔ پانی ہے کہ گویا کوہ سلیمان کے خشک پہاڑوں کے پتھروں سے ابل رہا ہے، ٹھاٹھیں مارتا، لہر در لہر، قہر بانٹتا، بستیاں اجاڑتا، نامعلوم جگہ سے آتا ہوا پانی، انسانوں کی بے بسی، مشینوں کی کم مائیگی اور حکمرانوں کی بے حسی کا ایسا اعلان ہے کہ جس کا انکار ممکن نہیں۔

گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا سے لے کر جنوبی پنجاب، بلوچستان، اندرون سندھ اور کراچی میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والے بے سر و سامانی کے عالم میں کروڑوں لوگ کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں۔ یہ وقت حکومتوں کی طرف دیکھنے کا نہیں ہے، بلکہ مشکل کی اس گھڑی میں ہر پاکستانی کو آگے بڑھ کر اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے ۔

الحمدللہ بہت سے غیر سرکاری ادارے سرگرم عمل ہیں، سب سے زیادہ کام دینی جماعتیں، دینی مدارس اور علماء کررہے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن، جماعت الادعوہ ،انصار الاسلام، البرہان، بیت الاسلام ٹرسٹ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار اسلام، پاکستان علماء کونسل، شبان ختم نبوت، دارلحمد، دارالعلوم کراچی، جامعہ الرشید، جامعہ خیر المدارس، خواتین احساس امت کے پلیٹ فام سے سرگرم عمل ہیں۔

اسی طرح تمام مکاتب فکر کی جماعتیں اور مدارس و مساجد اپنے اپنے  پلیٹ فارم سے کام کررہی ہیں۔ بد قسمتی سے حکومتیں مصیبت کی اس گھڑی میں بھی اتنی سرگرم دکھائی نہیں دے رہیں جو ہونی چاہیے، ریلیف کی سرگرمیاں کم اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا کام زیادہ ہے۔

سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے مگر امدادی کاموں میں وہ کہیں نظر نہیں آرہی،خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جب کہ پورا صوبہ سیلاب سے اجڑ گیاہے مگر خان صاحب اپنی تعریف اور دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہوئے جلسے کر رہے ہیں، پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو ان سے کیا گلہ کریں، محمود خان کا حلقہ انتخاب کے لوگ بے یار و مددگار ہیں مگر حیران ہوں پنجاب کے وزیر اعلی پرویز الٰہی کو کیا ہوا یا یہ بھی ڈیل میں شامل تھا، خیر کا کوئی کام نہیں کرنا، بلوچستان کا حال بھی باقی صوبوں سے مختلف نہیں، وفاق میں مخلوط حکومت ہے مگر دو بڑے پارٹنرز میدان سے بحیثیت جماعت غائب ہیں۔

وزیر اعظم اور وزرا اعلیٰ لگے ہوئے کہ لوگوں کو احساس دلائیں کہ حکومت ساتھ ہے مگر بلوچستان سے سندھ اور پنجاب سے پختونخوا اور گلگت بلتستان تک عوام ان سیاستدان سے مکمل مایوس اور کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔بڑی پارٹیوں کے ارب پتی سیاستدان جو محض اقتدار ہی کی بدولت ارب پتی ہوئے، اللہ نے انھیں ایک موقع دیا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کا مداوا کرلیں۔

اپنی دولت کو ان مصیبت زدگان کی بحالی پر خرچ کر ڈالیں، جو رقم بچ جائے اس سے آبی ذخائر بنائے جائیں اور بارش کے پانی کو محفوظ کریں، لاکھوں کیوسک فٹ بارش کے پانی کو بہت آسانی اور کم خرچ پر مخصوص بورز کے ذریعے زیر زمین لے جایا جاسکتا ہے جو سمندر میں ضایع ہونے کے بجائے پورے ملک کے زیر زمین پانی کے لیول کو بہترین سطح پر لا سکتا ہے اور پورے ملک کی فصلوں کی سال بھر کی سیرابی اور پینے کے لیے کافی ہوگا، حکومت ہر سال سیلاب زدگان کے اجڑنے کے بعد سڑکوں پر جو اربوں روپے کے اعلانات کرتی ہے۔

اگر یہی رقم وہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے بہترین ذرائع پر خرچ کریں اور چند سالوں کے لیے کمیشن مافیا گزارا کر لے تو سیلاب آئے گا نہ کسی کا گھر اجڑے گا۔  آخر کب تک ہم پورا سال کبھی پانی کے ہونے اور کبھی نہ ہونے سے مرتے رہیں گے۔ حکمرانوں اور حکمرانی کے خواہش مند سیاستدانوں سے درد دل سے درخواست کرتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لیں، اگر انسانیت کی خاطر کچھ کر گزرنے کی سعادت قسمت میں نہیں تو اپنی سیاسی دکانداری اور حکمرانی کو بچانے کی خاطر اپنے اپنے ووٹر کو تو بچائیں، یہ یاد رکھیں اگر اس بار غفلت برتی گئی تو جو ووٹر بچ گیا اگلی بار ان کا سامنا کرنا بڑا مشکل ہوگا۔

آخر کب تک عوام اپنا سب کچھ سیلابوں کی نذر کرتے رہیں گے اور حکمران ان کے ٹیکسوں پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فضائی نظارے کرتے رہیں گے۔ بحیثیت قوم ہمیں اس ناگہانی آفت سے سبق سیکھنا چاہیے اور مستقبل میں ایسی قدرتی آفت کی تباہ کاریوں سے بچنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔

میں آخر میں پورے ملک کے عوام سے گزارش کروں گا کہ ہمیں اس ناگہانی آفت پر کثرت سے توبہ و استغفار کرنی چاہیے اور اللہ کی حمد و کبریائی بیان کرنی چاہیے۔ وہ ذات اقدس قادر مطلق ہر چیز پر قادر ہے، ہمیں مصیبت پر صبر کے شکر کی عادت اپنانی ہوگی کیونکہ  اللہ کا امتحان اس سے بڑا بھی ہوسکتا تھا۔ یہ سیلاب پانی مقدار کے حوالے سے 2010 کے سیلاب سے تین گنا بڑا تھا مگر نقصانات 2010 سے بہت کم ہوئے جو صرف اور صرف اللہ رب العزت کے فضل سے ہوا۔

اللہ رب العالمین سیلاب میں شہید ہونے والوں کے تعزیرات معاف اور درجات بلند فرمائے، جن کا مالی نقصان ہوا اللہ اپنے غیب کے خزانوں سے بہترین نعم البدل عطا کرے۔ یا مولائے کائنات زمین کو حکم دے کہ وہ اس پانی کو اپنے اندر جذب کرلے۔ ہمارے باباجی حضرت اقدس مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ وہ ذات کبریا کبھی اپنے بندوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی۔ آج اللہ سے معافی مانگنے کا وقت ہے التجائیں کرنے کا وقت ہے کہ یا اللہ! ہماری برداشت جواب دے چکی ہے، اپنی قدرت سے اس پانی کو زمین کے اندر لے جا تاکہ یہ مزید نقصان اور تباہی نہ مچائے۔( آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔