ہمت و عزیمت کے کوہ گراں کی داستان حیات

مسعود احمد  جمعرات 1 ستمبر 2022
سید علی گیلانی نے عمر نصف سے زیادہ زندگی اسیری کی حالت میں مختلف جیلوں میں گزاری۔ فوٹو: فائل

سید علی گیلانی نے عمر نصف سے زیادہ زندگی اسیری کی حالت میں مختلف جیلوں میں گزاری۔ فوٹو: فائل

ولر جھیل کے شمال مغرب میں وٹلب اور بابا شکور دین کے مزار کے قریب زوری منز نامی ایک خوب صورت گاؤں آباد ہے۔

سیاہ زیرے اور سنہری سیبوں سے مہکتا ہوا اور اخروٹ و آلو بخارے کے باغوں سے لدا پھندا گائوں ہر روز ولر کے نیلے پانیوں میں اپنا عکس دیکھتا ہے۔ سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929ء کو اسی گائوں میں پیدا ہوئے۔

کون کہہ سکتا تھا کہ نہر زینہ گیرکی کھدائی کرنے والے مزدور سید پیر شاہ کا یہ بیٹا ایک دن پورے کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں کا حکمران ہوگا اور قائد تحریک حریت کہلائے گا۔ وہ منا سا بچہ جو چھ برس کی عمر میں گردو نواح کی پہاڑیوں سے زیرہ جمع کر کے بازار میں فروخت کیاکرتا تھا اور جو ایک دن زیرے کی گٹھڑی سمیت نہر میں گر پڑا تھا اور اس کو بمشکل ڈوبنے سے بچایاگیا تھا،کسے خبر تھی کہ سید علی ہمدانی کی میراث کا وارث بننا اس کے مقدر میں لکھا ہے۔

سید علی گیلانی جماعت اسلامی جموں و کشمیر میں مخلتف ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ 1949ء میں پہلی بار انہوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے لٹریچر سے شناسائی حاصل کی۔ فکر اقبال کے بعد سید مودودی نے انہیں اسلام کی خاطر جینے اور مرنے کا درس دیا اور وہ آزادی اور اسلام کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے یکسو ہوتے چلے گئے۔ پھر مولانا سعد الدین سے ان کی ملاقات ہوئی اور وہ ایک نئے انقلاب سے شناسا ہو ئے۔ اس وقت سید علی گیلانی بیس برس کے تھے۔ رابطہ عالم اسلامی کے رکن بھی رہے۔ ان سے پہلے برصغیر سے سید ابوالحسن علی ندوی اور سید ابو الاعلی مودودی رکن رہے ہیں ۔ان کی تحریر میں بلا کا تسلسل تھا۔

کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھئے تو ایک طالب علم کو وافر مقدار میں اپنی علمی پیاس بجھانے کا مواد مل جاتا ہے۔ ان کی خطابت کا تو کیا کہنا، محمد اشرف صحرائی بتاتے ہیں کہ ایک بار شب قدر پر بارہمولہ میں چھ گھنٹوں تک مسلسل بولتے رہے۔ ان کی زبان میں بلا کی تاثیر تھی ، جب بولتے تو ایک نوجوان مقرر کی طرح بڑے ہی دلنشین انداز میں بولتے۔ کبھی گرجتے تو کبھی ان کی آنکھیں برستیں۔ پیر و جوان ان کے خطاب پر فدا تھے۔

ان کی خطابت میں الفاظ کا انتخاب اور بر محل کسی بھی بات پر پوری قوت سے دلائل سے اپنی بات رکھنے کا انداز ہی نرالا ہوتا تھا۔ سید علی شاہ گیلانی اپنی پیرانہ سالی میں بھی ایک شاہین صفت نوجوان کی طرح ہی خطاب کرتے تھے۔ حقیقت میں اقبال کے شاہین کی منہ بولتی تصویر تھے۔ ان کی باتوں سے قاری کو یہ احساس ہوتا کہ انہیں کس قدر لگائو ہے اپنے مرشد اعظم قائد انقلاب محمد عربی ﷺ کی ذات مبارک سے۔ ان کی ہر بات کی ابتداء اور انتہا اسی بات پر ہوتی ہے کہ رسول رحمت ﷺ کی اطاعت کی جائے مسائل کا حل سیرت طیبہ سے نکالا جائے۔

سید علی گیلانی جماعت اسلامی ریاست جموں و کشمیر کے امیر بھی رہے، ان کی امارت کا دور مختصر رہا ‘ لیکن امیر منتخب ہونے کا ایمان افروز منظر بہت سے لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ مولانا سعد الدین نے شرکائے اجتماع سے کہا کہ میری صحت خراب ہے ‘ میں چاہتا ہوں کہ بار امارت کسی دوسرے شخص پر ڈال دیا جائے۔ بہت سی اہم شخصیات موجود تھیں۔ سب نے یک زبان ہو کر سید علی گیلانی کا نام لیا۔

سید علی گیلانی کھڑے ہو کر رقت آمیز اور لجاجت بھرے لہجے میں بولے کہ وہ بار امارت کے قابل نہیں ہیں ‘ خدا کے لیے انہیں معذور سمجھا جائے ‘ لیکن تمام ارکان مطمئن تھے۔ جب ذمہ داران نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور قرعہ فال ان کے نام پڑ کر رہا تو جناب گیلانی کی حالت غیر ہو گئی۔ کسی نے بھی ان کی اس جذباتی کیفیت کو پہلے نہ دیکھا تھا نہ بعد میں۔ انہوں نے روتے ہوئے ‘ شدت جذبات میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ بھرائی ہوئی آواز میں انہوں نے بمشکل کہا کہ میں اس قابل نہیں ہوں۔

کشمیر میں جماعت اسلامی کا اصول ہے کہ ہر رکن جماعت اپنی سال بھر کی آمدنی میں سے ایک ماہ کی آمدنی ( جماعت اسلامی کے ) بیت المال میں جمع کراتا ہے۔ سید علی گیلانی ممبر اسمبلی تھے ‘ ان کا پرانا مکان خستہ ہو چکا تھا ‘ اس لیے نیا مکان بنوا رہے تھے۔ جماعت کے بیت المال میں رقم جمع نہ کرا سکے۔ حکیم غلام نبی امیر جماعت تھے۔ انہوں نے سید علی گیلانی کے خلاف ضابطے کی کارروائی کرتے ہوئے ان کی رکنیت معطل کر دی۔ یہ جماعت اسلامی کے مثالی نظم کی ایک مثال تھی۔ اس کارروائی سے پہلے ایک جگہ ان کا پروگرام تھا۔ وہ پروگرام میں تو گئے لیکن خطاب نہیں کیا۔ یہ اطاعت نظم تھا۔

رکنیت سے معطل کیے جانے کے عرصے میں اسمبلی میں آپ نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ایک مرحلے پر جب آپ کسی کو جواب دیتے ہوئے جماعت اسلامی کا دفاع کر رہے تھے ‘ مخالف ممبران اسمبلی نے کہا ’’ آپ کس جماعت کی بات کر رہے ہیں۔ اس نے توآپ کو نکال دیا ہے۔‘‘ آپ نے بڑی متانت سے مگر بر جستہ فرمایا۔’’ جماعت نے مجھے نکالا ہے ‘ لیکن میں تو نہیں نکلا ہوں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی مجھے اپنے نصب العین اور مقصد کی آبیاری کرتی نظر آتی تو میں نکل بھی جاتا۔ لیکن اب تو یہ معاملہ ہے کہ جماعت مجھے دروازے سے نکالے گی میں کھڑکی سے اندر آ جائوں گا۔

پھر وہ زمانہ بھی آیا جب انہیں شدت سے احساس ہوا کہ جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت تحریک حریت کا پلیٹ فارم بنانا لازمی ہے ۔ آج تحریک حریت کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے جو کہ کشمیر میں تحریک آزادی کی جدوجہد میں مصروف العمل ہے۔ سید علی شاہ گیلانی آزادی کشمیر کا سیاسی چہرہ قرار پائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اگر عالمی سطح پر بھی تعصب کے بغیر بے لاگ طریقے سے دنیا کی با اثر شخصیات کے انتخاب پر سروے کیا جائے تو اس میں بھی سید علی شا ہ گیلانی کی بصیرت اور عظمت کا برملا اعتراف کیا جائے گا۔

اپنے عقیدے اور فکر کے ساتھ والہانہ لگائو رکھنے کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ سید علی گیلانی نے پوری زندگی اپنی فکر اور عقیدے کی بے خوفی سے دفاع کیا۔ ان کی زندگی اْن کی تحریروں ، تقریروں ، تنظیمی دوروں ، مذہبی سرگرمیوں اور قید و بند پر مبنی ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ اْنہوں نے کب اپنی نجی زندگی گزاری۔

مزاحمت کی علامت کے طور پر پہچانے جانے والے سید علی گیلانی نے اپنی ’زندگی‘ کے ایک حصہ کو ’ولر کنارے‘ کا نام دے کر منظر عام پر لائے ۔ میں بھی اْن لوگوں میں شامل تھا جو اس بات کیلئے بیتاب تھے کہ ’ ولر کنارے‘ کا کونا کونا چھان کر اس راز کو حاصل کریں کہ آخر کس طرح سید علی گیلانی نے اپنے اندر اتنی طاقت سمو لی ہے کہ وہ اپنی اْسی بات پرقائم رہے جس کا مطالبہ اْنہوں نے پانچ دہائیاں قبل کیا تھا۔ اور پھر دوران مطالعہ یہ بھی میرے لئے دلچسپی کا باعث تھا کہ مجھے اْس شخص کی باتیں پڑھنے کا موقع مل رہا ہے جو اْن واقعات و حالات کا عینی گواہ ہے جن کا وقوع پذیر ہونا ہی موجودہ صورتحال کی اصل وجہ ہیں۔

سید علی گیلانی نے عمر نصف سے زیادہ زندگی اسیری کی حالت میں مختلف جیلوں میں گزاری جہاں پر ان کے روز و شب کی داستان ’ روداد قفس ‘ کے نام سے کتابی شکل میں موجود ہے ، جسے پڑھتے ہوئے کئی جگہ پر فرط جذبات سے آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔