ہمارے ادارے کس کے وفادار ہیں؟

غلام محی الدین  پير 17 مارچ 2014
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

کسی ریاست کے عوام دوست یا عوام دشمن ہونے کا صرف ایک ہی پیمانہ ہے کہ آیا ریاستی ادارے اور ان کے عہدیدار ریاستی آئین اور قانون کے وفادار ہیں یا پھر حکمرانوں اور ان کے حامی بالادست طبقات کی چاکری کرتے ہیں۔ قانون اور اس پر عملدرآمد کا نظام صرف اسی صورت میں لوگوں کا اعتماد حاصل کرسکتا ہے جب روبہ عمل آنے میں خود کار اور خود مختیار ہو، ایسا نہ ہو کہ ظلم زیادتی ہوجانے کے بعد طاقت کے مقامی سرچشموں سے پوچھے کہ کیا داد رسی کی جائے یا بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے، ظالم پر حقیقی معنوں میں ہاتھ ڈالنا ہے یا محض انصاف کی حکمرانی کا دکھاوا کرنا درکار ہے؟۔ ایسے میں جب اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنے والی کوئی نرس پولیس کے ہاتھوں زخمی ہوتی ہے یا کوئی لڑکی اس لیے جل کر مر جاتی ہے کہ پولیس اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بجائے زیادتی کرنے والوں کے ساتھ ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری معاشرتی زندگی کے اس مکروہ پہلو کی سب سے زیادہ سفاک حقیقت یہ ہے کہ جن طبقات نے طاقت کی پرستش کی یہ مہلک بیماری عام کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ جو لوگ مسئلے کی وجہ ہیں وہی تمام مسائل کو حل کرنے کے واحد دعویدار کے طور پر سب سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں ماضی کی کچھ یادیں پھر سے تازہ ہورہی ہیں جو آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

ہمارے بزرگوں کے ایک دوست تھے جو طویل عرصہ پنجاب کے ایک معروف چیف سیکریٹری کے پی۔ اے کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔ جب کبھی وہ ملنے آتے تو مہمان خانے میں۔ ہم ان کی خدمت پر مامور ہوتے۔ ہمارے یہ مہمان جو اب اس دنیا میں نہیں، اپنی ملازمت کے زمانے کے اہم واقعات بڑے دلچسپ انداز میں سنایا کرتے۔ ایک مرتبہ وہ بھٹو صاحب کے دور میں نرسوں کی ہڑتال اور احتجاج کو ناکام بنانے کی روداد سنا رہے تھے، کہنے لگے ’’جب احتجاج نے طول پکڑا تو چیف سیکریٹری کے دفتر میں تمام بڑے سرجوڑ کر بیٹھے۔ اگلے روز نرسوں نے لاہور کی مال روڈ پر احتجاجی جلوس نکالنا تھا۔ جلوس کو ناکام بنانے کی حکمت عملی پر بحث مباحثہ جاری تھا لیکن کوئی مؤثر نسخہ سامنے نہیں آرہا تھا۔ ایسے میں لاہور کی انتظامیہ کے ایک اہم افسر نے تجویز پیش کی کہ جب جلوس مال روڈ پر پہنچ جائے گا تو سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس کے چند جوان آگے بڑھ کر جلوس کی قیادت کرنے والی تین چار نرسوں کے گریبان پھاڑ ڈالیں گے۔ یہ کام ہوجانے کے بعد میڈیا کے اور اپنے فوٹو گرافر ان گریباں چاک نرسوں کی تصاویر بنا لیں گے اور پھر ان تصویروں کو اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ دلانا تو کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ یہ تصاویر چھپ گئیں تو پھر نرسوں کے گھر والے خود ہی اس تحریک کو ٹھکانے لگادیں گے۔‘‘ یہ منصوبہ فوری طور پر منظور کرلیا گیا اور اگلے دو روز میں واقعی احتجاج اپنے انجام کو پہنچا گیا۔

ہماری حکمت عملیوں کے بنیادی تصورات ریاست سے وفاداری، ملک سے محبت، عوام کی فلاح اور قانون کی حکمرانی کے اعلیٰ اور معروف تصورات سے گر کر گروہی مفادات کے لیے کام کرنے کی گھٹیا ترین سطح پر آچکے ہیں۔

شخصی آزادیوں کی جدوجہد سے شہرت حاصل کرنے والی خاتون مصنفہ ایما گولڈ مین کے مطابق ’’تہذیبی ارتقاء سے مراد فرد یا افراد کے گروہوں کی ریاست کے خلاف مسلسل جدوجہد ہے۔ حتٰی کہ یہ جدوجہد اس معاشرے کے خلاف بھی ہوتی ہے جس میں لوگوں کی اکثریت بالادست اقلیت کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتی ہے۔‘‘ اسی طرح عظیم سائنسدان آئن سٹائن کا کہنا ہے کہ ’’ریاست انسانوں کے لیے بنائی گئی تھی، نہ کہ انسان ریاست کے لیے۔‘‘ ان بیانات کی حقیقت یہ ہے کہ انھیں ریاست کے رد کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کسی ریاست کا تعارف ان طبقات کے رویئے کے توسط سے حاصل ہوتا ہے جو اس ریاست کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ طرز حکمرانی جو کسی ریاست میں رائج ہوتی ہے وہی اس ریاست کی پہچان قرار پاتی ہے۔ یہ مقصد صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ہمارے تمام ادارے، تمام حکام صرف اور صرف آئین اور قانون کے وفادار ہوں۔ تمام ادارے اور ان کے ذمے داران اپنے پیشہ وارانہ رویئے میں سرتا پا سیکولر ہوں کیونکہ یہاں کے تمام فرقوں اور تمام مذاہب کے لوگ پاکستان کے مساوی شہری ہیں۔ پولیس مقامی عوامی نمایندوں، جاگیرداروں، پیروں، گدی نشینوں اور سرداروں کے بجائے قانون کے سامنے جواب دہ ہو اور جج فیصلوں میں حکام کی منشا کے اسیر نہ ہوں گا تو کسی حاکم کو ظلم کا شکار ہونے والے کسی شہری کے گھر جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔