معاشی بحالی کو اولین ترجیح بنایا جائے

ایڈیٹوریل  جمعـء 2 ستمبر 2022

آئی ایم ایف سے 1.16 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو موصول ہوگئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق آئی ایم ایف سے فنڈز ملنے سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے ‘ کثیر فریقی اور باہمی ذرایع سے پلان شدہ دیگر فنڈز کا حصول بھی آسان ہوگا ۔

دوسری جانب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کی ٹیم پاکستان پہنچ گئی جو دو ستمبر تک پاکستان میں قیام کرے گی جب کہ وفاقی حکومت نے ایک پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ پٹرول دو روپے سات پیسے ’ ہائی اسپیڈ ڈیزل دو روپے 99 پیسے‘ مٹی کا تیل 10 روپے 92 پیسے جب کہ لائٹ ڈیزل 9.79 فی لیٹر مہنگا کردیا گیا ۔عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے سے عوام میں مایوسی پھیلی ہے ۔

قومی مکالمہ وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے نقطہ آغاز میثاقِ معیشت کوبنانے کی تجویز دی‘ لیکن پی ٹی آئی نے توجہ دیے بغیر میثاقِ معیشت کی حکومتی تجویز کو مسترد کر دیا ۔ سیاسی جماعتیں عوام کی توجہ حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں ‘مگر جب ملک وقوم کی بات ہو تو ضداور ہٹ دھرمی پر ثابت قدم رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا ۔

موجودہ اتحادی حکومت نے معاشی بحران کے خاتمے کے لیے گزشتہ چار ماہ کے دوران کافی سخت فیصلے لینا شروع کر دیے تھے جو اب تک جاری ہیں، ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجانے کے باوجود پاکستان معاشی، سیاسی اور اقتصادی بحران کے زیر اثر ہے۔ یہ بات واضح ہے جب بھی ملک کی معاشی ترقی کی رفتار بڑھتی ہے تو اس کے لیے توانائی کی طلب بڑھتی ہے اور پاکستان توانائی کی ضروریات جیسے کہ تیل و گیس کوئلہ وغیرہ کے لیے بیرونی ذرایع پر انحصار کرتا ہے۔ توانائی کے بحران اور اسی بلند قیمت پر قابو میں لانے کے لیے پاکستان کو متبادل انرجی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

سال 2019 میں پی ٹی آئی کی حکومت نے معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا، یقین دلایا گیا کہ پیسے دے دیں وعدہ نبھائیں گے، پیسے ملے تو پی ٹی آئی حکومت نے آنکھیں پھیر لیں۔ پی ٹی آئی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کے مطابق سیلز بڑھانے، پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور سیلز ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا گیا۔ معاہدے کے مطابق عمران خان حکومت کو پٹرول ڈیزل پر ماہانہ چار روپے فی لیٹر لیوی بڑھانا تھی۔ لیوی میں اضافہ اس وقت تک جاری رکھنا تھا جب تک لیوی تیس روپے نہ ہو جائے مگر ہوا یہ کہ حکومت نے آئی ایم ایف قسط ملتے ہی معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی۔ جنوری کے بعد پٹرول اور ڈیزل پر لیوی میں اضافہ نہیں کیا گیا، بلکہ سیلز ٹیکس کی شرح بھی صفر کردی گئی۔

پی ٹی آئی کے یہ اقدامات آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ ردعمل میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ طے کردہ پیکیج منجمد کر دیا۔یہیں سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔ معاشی مشکلات کے باعث پاکستان کو فوری مالی امداد کی ضرورت پڑی۔ وزارت خزانہ کے مطابق ملک اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیرونی تجارتی خسارے، ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر، تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔

یادش بخیر! پاکستان مسلم لیگ نواز کی دو ہزار اٹھارہ میں ختم ہونے والی حکومت کے آخری سال میں اقتصادی ترقی کی شرح چھ فیصد سے زائد تھی، تاہم تحریک انصاف حکومت کے قیام کے بعد جی ڈی پی نشو و نما میں کمی دیکھی گئی اور کورونا کی وجہ سے حکومت کے دوسرے سال میں یہ شرح منفی میں چلی گئی۔ گزشتہ سال یہ نشو و نما چار فیصد کے قریب تھی اور رواں سال معاشی شرح چھ فیصد رہنے کا امکان ہے۔

ملک کو نا قابل تسخیر بننے کی طرف لے جانے والا سب سے اہم عنصر غیر فعال معاشی پالیسیاں ہیں۔ جن پر طویل عرصے سے عمل کیا جا رہا ہے۔ 1980 سے لے کر اب تک تقریباً ہر حکومت نے مالی طور پر غیر ذمے دارانہ انداز میں کام کیا جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔

ملک کو بار بار ایسے مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو ملک کے لیے ایک دائمی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں تک، بچت اور سرمایہ کاری کی کم سطح کے ساتھ ملک کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کا مطلب ہے کہ حکومت قومی اخراجات اور ملک کے بیرونی کھاتوں میں بھاری خسارے کا شکار رہی ہے۔ملکی اور غیر ملکی قرضوں اور بیل آؤٹ پر انحصار نے پاکستان کو قرضوں کے کلاسیکی جال میں پھنسا دیا، جہاں پرانے محکمے کو ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑا اور ملک کو آئی ایم ایف کی ایک سے دوسری قسط تک چھوڑ دیا۔حکومت کا بیرونی ملک سے قرض لینے سے ملک کی عوام کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس سے ٹیکس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اس قسم کے معاشی انتظام کو یکے بعد دیگرے حکومتی سول اور ملٹری نے تقویت دی ایک بار حکمران اشرافیہ نے کرایہ دار معیشت بنائی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے دائمی مالیاتی عدم توازن کے شناختی ذرایع ابھی تک بے توجہ رہے ہیں۔

پاکستان کی معیشت مالیاتی بحران کے لپیٹ میں ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو چکے ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، بجلی کی قلت عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال رہی ہے ۔کورونا وائرس کی وبا اور عالمی معاشی عوامل نے پاکستان کی معاشی حالت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بڑھتی قیمتیں مہنگائی کو مزید ہوا دے رہی ہیں۔ہمارا ملک دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے جہاں بینکنگ کی رسائی بہت کم ہے۔ حکومت قومی مالیاتی شمولیت کی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر اسلامی مالیات کو فروغ دے کر مالیاتی شمولیت کو بڑھانا چاہتی ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق، 2017 میں صرف 21 فیصد بالغ آبادی کے پاس بینک اکاؤنٹ تھا، جب کہ 13 فیصد بالغوں نے ان کے نہ ہونے کی مذہبی وجوہات کا حوالہ دیا۔ امریکی شرح سود میں اضافے سے پاکستان میں غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاری کو بھی نقصان پہنچے گا، چونکہ افراد اور کارپوریشنز کم رسک ریٹرن کا فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ اسی طرح جیسے جیسے معاشی سست روی یا کساد بازاری سامنے آئے گی، ٹیکسٹائل، چمڑے اور کھیلوں کے سامان جیسی بڑی برآمدات کی مانگ میں کمی کا امکان ہے‘چونکہ امریکا پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اس کے اثرات مقامی معیشت پر خاصے شدید ہوں گے۔

ایندھن اور بجلی کی قیمت بڑھنے سے برآمدی سامان کو بنانا بھی مہنگا ہو جائے گا۔ ترسیلاتِ زر میں بھی کمی کا امکان ہے کیونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی موجودہ معاشی حالات کے جواب میں اپنے اخراجات کو ایڈجسٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ الٹا اقتصادی سرگرمیوں اور دیگر اشیاء کے اہم محرک تیل کی طلب میں بتدریج کمی آنے کا امکان ہے، جس کے نتیجے میں قیمتوں میں کمی واقع ہوگی۔جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے GDP کا تقریباً 5 فیصد یعنی کم و بیش 5اعشاریہ 18 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہمارے فروری کے جائزے میں 4% سے اوپررہا۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ مالی سال 23 میں یہ تقریباً 4 فیصد تک اعتدال پر آجائے گا کیونکہ تیل کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے۔

سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کا سنگم اب پاکستان کو انتہائی کمزور بننے کے خطرے کی طرف دھکیل رہا ہے۔پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری قوت ہے لیکن قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کی سکت تک سے محروم ہے یہ مالی محتاجی کی بدترین سطح ہے جس کی ایک وجہ قرض کی رقوم کو غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج تک معاشی خود مختاری کی منزل حاصل نہیں ہو سکی‘ حالانکہ پاکستانی عوام ہر مقصد کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

1947 میں دنیا کی سب سے بڑی مہاجرت کی آبادکاری سے لے کردہشت گردی کی جنگ جیتنے کے مقاصد بھی اتفاقِ رائے سے ہی حاصل ہوئے مگر کسی نے معیشت کی طرف دھیان نہ دیا، سیاسی مفاد کی اسیر قیادت کی ناقص پالیسیوں اور درست رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ملک معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے۔

کاش اب بھی قیادت ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے نکتے پرہی اتفاق کرلے۔معاشی تباہی کے حوالے سے سیاسی قیادت ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتی رہتی ہے لیکن معا شی تباہی میں کس کا کتنا کردار ہے؟ اِس کا تعین تو آج تک نہیں ہو سکا۔ملک میں وسائل کی قلت نہیں نوجوان افرادی قوت انمول اثاثہ ہے افسوس کہ قیادت میں وسائل اور افرادی قوت کو استعمال کرنے کا ہُنر نہیں ہمارا تعلیمی نظام محض کلرک پیداکرتا ہے معاشی تنزلی سے ملک میں مہنگائی،بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتاجارہا ہے پھر بھی سیاسی قیادت مسائل کا حقیقی حل تلاش کرنے سے انکاری ہے تو عوام یہی پیغام لیں گے کہ انھیں ملک و قوم سے نہیں محض اقتدار سے غرض ہے عوامی مسائل سے ایسی بے نیازی کو کسی حوالے سے بھی ہمدردی کا پیراہن نہیں پہنایا جا سکتا۔

اِن خطرات کا تقاضا ہے کہ سیاست سے بالاتر ہوکر معاشی بحالی کو اولین ترجیح بنایا جائے اگر نامساعد حالات کے باوجود ملک جوہری طاقت بن سکتا ہے تو معاشی طاقت بننے کی منزل حاصل کرنا بھی کوئی مشکل نہیں بس قیادت کے اخلاص کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔