قیامت صغریٰ

شکیل فاروقی  جمعـء 2 ستمبر 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

حالیہ بارشوں نے پورے ملک میں قیامت صغری برپا کردی ہے۔ پورا ملک سوگوار ہے اور عوام حیران و پریشان ہیں کہ اِس جانی اور مالی نقصان کی تلافی کیسے ہوگی، کب ہوگی اور کون کرے گا؟ ہر دل اس ہولناک تباہی پر رنجیدہ اور ہر آنکھ آبدیدہ ہے۔ اِس سیلاب بلا نے کتنے گھر اجاڑ دیے۔

اب تک کی قیاس آرائیوں، اندازوں اور تخمینوں کے مطابق یہ نقصان اربوں روپے میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ مالی نقصان کی تلافی کسی نہ کسی حد تک کی جا سکتی ہے لیکن جانی نقصان کی تلافی ممکن نہیں ہے۔جو بیچارے اِس قدرتی آفت کی بھینٹ چڑھ گئے انھیں کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ اِن میں بوڑھے، بچے، جوان، خواتین اور مرد سبھی شامل ہیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ تھا۔ سچ پوچھیے تو یہ ہمارے لیے اللہ تعالی ٰ کی طرف سے ایک وارننگ تھی کہ سدھر جاؤ ورنہ تمہارا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔یہ ہمارے بداعمال کی طرف ایک اشارہ تھا، اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو ہمارا انجام کیا ہوگا، یہ سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی راہ سے بھٹک چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا اپنا عہد توڑ چکے ہیں۔ہم نے یہ وطن اللہ کے نام پر حاصل کیا تھا اور اِس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہ کس حد تک اسلامی اور کتنا جمہوری ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہمیں کس راستہ پر چلنا تھا اور ہماری منزلِ مقصود کیا تھی اور ہم کس راستہ پر چل رہے ہیں یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ہمارے حکمران ہی نہیں بلکہ ہمارے عوام بھی دین اسلام کی کس حد تک پیروی کررہے ہیں، یہ الم نشرح ہے۔ کونسا جرم اور کونسا گناہ ہے جو اِس سرزمین پاک پر نہیں ہو رہا۔ہماری معاشرت سے لے کر معیشت تک دین اسلام سے بھٹکی ہوئی ہے۔ ہمارا معاشی نظام سود کی بنیاد پر چل رہا ہے جواحکامِ خداوندی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جھوٹ، فریب، زنا، بدکاری، زیادتی، حق تلفی اور ریاکاری ہمارا روز مرہ کا چلن ہے۔

عدالتیں موجود ہیں لیکن انصاف غائب ہے۔ شہزور ،کمزور کو دبا رہا ہے اور سرمایہ دار نادار پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔چوری چکاری، رہزنی، ڈکیتی، رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی،ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ عام ہے اور کم تولنا روزانہ کا معمول ہے اور کسی کو اِس کا احساس تک نہیں ہے۔

ہم سر سے لے کر پیر تک بداعمال میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں۔ ہمیں یہ احساس بھی نہیں کہ ایک روز ہمیں اپنے رب کی عدالت میں پیش ہونا ہے اور اپنے کیے کا حساب دینا ہے۔ ہم اپنے پیاروں کو قبرستان میں دفن کرکے آتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ کر آتے ہیں لیکن اِس بات کو بھول جاتے ہیں کہ آخرکار ہمارا انجام بھی یہی ہونا ہے۔

کبیرؔ نے کیا خوب کہا ہے:

ماٹی کہے کُمہار سے تو کیوں روندے منہ ہی

اِک دن ایسا آئے گا میں روندوں گی تو ہیں

مٹی کمہار سے کہہ رہی ہے کہ تو مجھے کیوں روند رہا ہے، ایک دن آئے گا کہ میں تجھے روندوں گی۔

ایک اور شاعر نے اِسی مفہوم کو اِس شعر کے سانچہ میں ڈھالا ہے۔

دارا رہا نہ جم، نہ سکندر سا بادشاہ

تخت زمیں پہ سیکڑوں آئے چلے گئے

ایک دور وہ بھی تھا کہ جب کسی کے گمان میں بھی نہیں ہوتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور کون سی آفت نازل ہونے والی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل اور سمجھ دے دی ہے کہ اُسے نہ صرف آنے والی بہت سی آفات کا پیشگی پتا چل جاتا ہے اور وہ اِس سے نمٹنے کا بندوبست بھی کرسکتا ہے۔مثال کے طور پر محکمہ موسمیات کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ بارش کا طوفان کب آئے گا اور اُس کی شدت کیا ہوگی؟ سو حالیہ طوفان کے بارے میں بھی محکمہ موسمیات نے قبل از وقت معلومات فراہم کردی تھی تاکہ اِس سے نمٹنے کی تیاری کی جاسکے۔

چناچہ محکمہ موسمیات اور اُس کے عملے کی کارکردگی لائق ِ تحسین ہے۔ دوسری جانب وہ محکمے ہیں جنھوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں نااہلی اور غفلت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس کے لیے مزید کسی چھان بین اور ثبوت کی ضرورت نہیں، اگر یہ محکمے اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ضروری اور ممکنہ اقدامات اٹھاتے تو اتنے بڑے پیمانہ پر نہ تو انسانی جانیں ناحق ضایع ہوتیں اور نہ ہی مال میوشیوں سمیت اتنی قیامت خیز تباہی ہوتی۔بارشوں اور طوفانوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی و بربادی کوئی نئی بات نہیں۔

یہ تو ہر سال کی کہانی ہے لیکن اِس مرتبہ جو تباہی و بربادی ہوئی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی لیکن سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اِس کی وارننگ محکمہ موسمیات نے بہت پہلے دے دی تھی تاکہ تمام ضروری اقدامات کر لیے جائیں۔

یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ہمارے عوام اور انسان دوست ادارے اپنے تباہ حال ہم وطنوں کی داد رسی اور امداد کے لیے دن رات پوری ہمدردی اور جانفشانی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور جس سے جو بھی بن پا رہا ہے وہ اُس میں کوتاہی نہیں کررہا۔ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اِس کارِ خیر میں حصہ لینے کے لیے کوشاں ہے لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ اِس انتہائی نازک صورتحال میں بھی ہماری سیاسی جماعتیں اپنی رسہ کشی میں مصروف ہیں اور حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر اِس قومی المیہ سے نمٹنے کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے کے بجائے اپنی بے حسی کا ثبوت دے رہی ہیں۔ہوگا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے یعنی جب عام انتخابات کا وقت آئے گا تو یہی جماعتیں بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے اُن کی دہلیز پر آکھڑی ہونگی۔

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔