سیلاب زدگان کے لیے امداد اور حکومت

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 2 ستمبر 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

2005 میں زلزلہ آیا تو اُس وقت دنیا نے 5ارب ڈالر امداد دی، کینیڈا، امریکا،برطانیہ ، کیوبا، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر ماہرین نے اپنی خدمات سرانجام دیں۔حکومتیں بدل گئیں، سرکاری چہرے بدل گئے، بیوروکریسی بدل گئی مگر زلزلہ زدگان کی بحالی کا کام آج بھی ’’زیر تعمیر‘‘ ہے۔ پھر 2010 کا سیلاب آیا تو اُس وقت 4.5 ارب ڈالر کی بیرونی و اندرونی امداد اکٹھی ہوئی، مگر پھر حکومتیں بدل گئیں، چہرے تبدیل ہوگئے ،بیورو کریسی بھی ادھر اُدھر کر دی گئی اور امداد کا پتہ نہیں کہاں گئی۔

اب تادم تحریر ڈیڑھ کھرب روپے کے قریب رقوم آچکی ہیں جن میں ورلڈ بینک نے 82 ارب روپے، اقوام متحدہ نے ساڑھے 35ارب ، امریکا ساڑھے چھ ارب روپے ، ایشین ڈولپمنٹ بینک ساڑھے پانچ ارب روپے، یو ایس ایڈ 24 کروڑ 42 لاکھ روپے، چین چھ کروڑ 66 لاکھ روپے، چین کے امدادی ادارے چھ کروڑ 66 لاکھ روپے، یورپی یونین نے 30 کروڑ روپے، برطانیہ نے 33 کروڑ 30 لاکھ روپے اور یونیسف، عالمی ادارہ صحت، یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ نے 66 کروڑ 60 لاکھ روپے وغیرہ شامل ہیں۔

جب کہ اقوام متحدہ مزید رقوم اکٹھی کرنے میں مصروف عمل دکھائی دے رہا ہے۔ بادی النظر میں اگر یہ پیسے واقعی سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور سیلاب زدگان کی بحالی پر لگ گئے تو ان کی قسمت و حالت بدل جائے گی لیکن ہمیں ماضی دہرائے جانے کا خدشہ ہے کیونکہ ہمارا ماضی داغدار ہے۔

دنیا پاکستان کی دل کھول کر مدد کررہی ہے، بیرون ملک پاکستانی بھی بھرپور مدد کر رہے ہیں، اندرون ملک پاکستانی بھی دل کھول مدد کر رہے ہیں۔ لیکن سوال پھر وہی کیا یہ امداد مستحق علاقوں کی ترقی اور لوگوں کی بحالی پر خرچ ہوگی؟ اگر غریبوں کو کچھ نہیں ملے گا تو دنیا میں ہم سے بڑا حرام کھانے والا نہیں ہوگا، لہٰذا اس سے بچنا ہے تو اسے شفاف بنانے کے لیے سرکار کوفوری طور پر ویب سایٹ بنانی چاہیے۔

سوشل میڈیا پیجز بنانے چاہیے یا دیگر ذرایع استعمال کرتے ہوئے عوام کو اس حوالے سے آگاہ کرنا چاہیے کہ کس ملک سے سرکاری سطح پر کتنا پیسہ آیا ہے؟ عوامی سطح پر کتنا پیسہ آیا ہے اور وہاں کی این جی اوز نے کتنا پیسہ بھیجا ہے، تاکہ دنیا میں بیٹھا ہوا ہر شخص اُس ویب سایٹ، یا ذرایع کو چیک کر سکے کہ اُس کا پیسہ کہاں کہاں اور کتنا استعمال ہو چکا ہے۔

دوسرے ممالک میں جب بھی کوئی آفت آتی ہے۔تو اُس کے لیے حاصل ہونے والی رقم کو حکام اپنے اوپر خرچ کرنا حرام سمجھتے ہیں، اُس کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔ جاپان میں 2011کے زلزلے اور سونامی کو کون بھول سکتا ہے، جس میں 3سو ارب یورو کا نقصان ہوا تھا، حالانکہ جاپان کو امداد کی ضرورت نہیں تھی مگر دنیا جہان سے اُسے امداد اکٹھی ہوئی اور جاپان نے اُس وقت Courtesyمیں ایک رپورٹ شایع کی کہ کس ملک، شخصیت، فرم یا ادارے سے انھیں کتنے پیسے ملے، اور انھوں نے اسے کہا ں کہاں خرچ کیا۔

تبھی دنیا میں تیسرا سب سے زیادہ کھرا اور سچ بولنے والا ملک ہے، بہترین اکانومی ہے، اور اس ملک پر لوگوں کا اعتماد بھی خاصا ہے۔ حتیٰ کہ بھارت میں گزشتہ سال کورونا سے ہوئی ہلاکتوں اور اکانومی کے حوالے سے سخت نقصان کے بعد انھیں عالمی امداد حاصل ہوئی جو اُن کی سرکاری ویب سایٹس پر موجود ہے۔ اور کوئی ملک یا ادارہ اسے چیلنج نہیں کر سکتا کہ کہاں خرچ ہوئی ہے اور کہاں سے آئی ہے۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں سرکاری افسر شاہی ہو یا پارلیمنٹیرینز وہ تو زکوٰۃ کے پیسے نہیں چھوڑتے یہ تو پھر بھی ڈالرز ہیں، انھی ڈالرز سے وہ اپنے بچوں کی بیرون ملک پڑھائیاں کراتے ہیں، انھی ڈالرز سے وہ کاروبار کرتے اور منافع کماتے ہیں لیکن مجال ہے کہ ندامت ان کے پاس سے بھی گزرتی ہو۔حتیٰ کہ آپ یقین مانیں میرے ایک دوست نے بتایا کہ اُس نے زلزلہ زدگان کے لیے جو ہو سکا سرکار کے ہاتھوں بھجوایا حتیٰ کہ اپنے استعمال کا ایک کمبل بھی بھجوا دیا۔ لیکن چند ماہ بعد وہی کمبل میں نے مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب دیکھا! مطلب جس ملک کے کرتا دھرتا کمبل نہیں چھوڑتے وہ ڈالر کیسے چھوڑیں گے؟

لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ابھی ہم پہلے مرحلے میں ہیں، جس میں امداد اکٹھی کرنی ہے، اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ کہاں لگنی چاہیے ، اس کے لیے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے کہ سب سے زیادہ کون سے لوگ مستحق ہیں، جنھیں فوری ریلیف دیا جانا ضروری ہے۔ اس حوالے سے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ حکومت فوری طور پر 2022 کے زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے ویب سایٹ لانچ کرے، جہاں ہر قسم کی انفارمیشن ڈالی جائے اور ایک ایک روپے کا حساب وہاں ڈالا جائے تاکہ دینے والے کو بھی علم ہو اور خرچ کرنے والے کو بھی علم ہو کہ اُس کا پیسہ کہاں لگایا جا رہاہے۔

ایسا کرنے سے موجودہ وفاقی حکومت کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف جن پر برطانوی اخبار نے 2005کے زلزلہ زدگان کے ملین پاؤنڈز کھانے کا الزام ہے، انھیں بھی سرخرو ہونے اور اپنے اوپر لگے داغ دھونے کا موقع ملے گا۔ میرے خیال میں اگر پی ڈی ایم اس سیلاب فنڈ کو ہی صحیح انداز میں لوگوں تک پہنچا دیتی ہے تو یہی سبب انھیں اگلے الیکشن میں جتوانے کا بھی بنے گا ورنہ اگلے الیکشن میں ان کی ضمانتیں بھی ضبط ہو جائیں گی۔

لہٰذاہمیں اس میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ عام آدمی بھی ہمارا ریکارڈ چیک کر سکے۔ چھپانے کا مطلب ہے کہ آپ بے ایمانی کر رہے ہیں ۔ یقین مانیں سیلاب نے سندھ اور بلوچستان میں کم از کم دس لاکھ جانوروں کو دریا برد کردیا ہے۔جو بچ گیا اسے سیلاب کی زد میں آیا مالک چارہ فراہم کر نہیں سکتا۔وہ خود سرکار اور امدادی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ خوراک کا بے بسی سے منتظر ہے۔

بہرکیف میں اس وقت امریکا میں ہوں ، بہت سے اوورسیز پاکستانی عمران خان کو یا تو امداد دے رہے ہیں یا دے چکے ہیں، ابھی بہت سے لوگ امداد دینے کے لیے تیار ہیں تاہم ان کا حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ اس لیے حکومت سب سے پہلے اپنا اعتماد بحال کرے اُس کے لیے سب سے پہلے ’’حساب کتاب‘‘ پبلک کرے تاکہ عام آدمی بھی اپنا حصہ ڈال سکے ورنہ ان غریبوں کی بددعائیں ہم سب کو لے ڈوبیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔