کیا ہم واقعی کچھ سیکھ سکیں گے؟

سلمان عابد  جمعـء 2 ستمبر 2022
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

قدرتی آفات ، حادثات اور سیلاب آنا ایک فطری امر ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک کو ایسے حادثات اورآفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اہم بات بطور ریاست، حکومت اورمعاشرہ ان حادثات سے نمٹنے کی حکمت عملی ہوتا ہے تاکہ مشکل گھڑی میں بروقت اقدامات ممکن ہوسکیں اور مصیبت زدہ لوگوں کی جان اور مال کا تحفظ کیا جائے۔

ہمارا المیہ یہ ہے ریاستی اور حکومتی ادارے غیرمعمولی حادثات سے نمٹنے میں ناکام رہتے ہیں۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں انسانی جانوں سمیت دیگر اشیا کا نقصان ظاہر کرتا ہے کہ ہم ماضی کے تجربوں اور غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

حالیہ سیلاب کے بارے میں ادارہ جاتی سطح پر مئی، اپریل اورجون میں تواتر کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بتایا گیا تھا کہ زیادہ بارشوں کی وجہ سے بڑے سیلاب کا خطرہ ہے ۔لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان رسہ کشی میں سیلاب جیسا اہم مسئلہ نظرانداز کیا گیا۔صرف حکومت یا حزب اختلاف نہیں بلکہ سرکاری  اداروں اور میڈیا نے بھی اسے نظرانداز کیا ۔

یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے سب کو جگایا ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اس طرز کے حادثات سے نمٹنے کے لیے لانگ ٹرم ، مڈٹرم او رشارٹ ٹرم منصوبہ بندی کے فقدان کا سامنا ہے۔ ہماری عملا سوچ اورفکر ردعمل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔یعنی جب حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہمیں کچھ کرنا پڑتا ہے۔ حادثات سے قبل ہی ہم ایسے اقدامات کرنے سے قاصر ہیں یا تیار نہیں جو ہمیں اس طرح کے بحرانوں سے بڑے پیمانے پر بچاسکے ۔

جنرل مشرف کے دور میں ہم نے وفاقی ، صوبائی اور مقامی سطح پر ڈیزاسٹرز مینجمنٹ اتھارٹی قائم کی جس کا بنیادی مقصد ہی اداروں کی مدد سے ان طرح کے حادثات سے بچنے کے لیے مختلف طرز کی حکمت عملیوں اور عملی اقدامات کو ترتیب دینا تھا۔ ان اداروں کو استحکام دینے کے لیے بہت سے غیر ملکی ترقیاتی اداروںنے بڑے پیمانے پر مالی وسائل بھی دیے۔لیکن بدقسمتی سے ہم ان اداروں کو بھاری اخراجات پر چلارہے ہیں لیکن ان کی شفافیت او رکارکردگی پر بہت سے سوالات ہیں ۔کیونکہ جب ہمیں حادثات کا سامنا کرنا ہوتا ہے تو ہمیں ان بڑے اداروں کی فعالیت اور شفافیت کا پہلو بہت کمزور نظر آتا ہے۔

اسی طرح وفاق، صوبوں میں ضلعوں میں موجود ان اداروں کے درمیان کوئی بھی موثر رابطہ کاری کا نہ ہونا اور کوئی ایسا روڈ میپ یا عملی اقدامات پر مبنی منصوبہ بندی کا عمل ہمیں نہیں دیکھنے کو ملتا۔ ایک طرف ان کے اپنے اداروں کے درمیان رابطہ کاری کا فقدان اور دوسری طرف ان اداروں کا وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں یا ڈھانچوں کے درمیان بھی کوئی رابطہ کاری یا منصوبہ بندی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یقینی طور پر اگر ہائی الرٹ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملے ہوںگے تو اسی طرح ان اداروں کو بھی ملیں ہوںگے، لیکن انھوں نے کیا کیا وہ یقینا سوالیہ نشان بھی ہے اور جوابدہی کا تقاضہ بھی کرتا ہے ۔

ادارہ جاتی سطح پر ہماری شفافیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دریا کے کنارے کیسے آبادیاں آباد ہوتی ہیں اورکیسے یہاں گھروں سمیت بڑے بڑے ہوٹلز کی تعمیر کی اجازت دی جاتی ہے۔ کیسے سیاسی افراد اس نظام میں مداخلت کرکے اپنی مرضی او رمنشا کرتے ہیں یا بیوروکریسی ایسی اجازت دے کر خود کیسے پیسہ کماتی ہے۔

جب سیلاب آتے ہیں تو اس کی قیمت عام انسان اپنی جانیں دے کر ادا کرتے ہیں۔ ہم طاقت ور لوگوں کی جوابدہی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہاں طاقت ور حکمران اور جاگیر دار دار طبقہ ایسی تباہی پر اس کا سارا ملبہ قدرت پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ حکومت، ریاست یا اداروں کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔جو مسائل کا ہمیں سامنا ہے اس کے بڑے ذمے دار یہ ہی طاقت ور حکمران طبقہ ہے۔ عالمی ممالک اور عالمی اداروں سے جو مالی امداد ملتی ہے اس کی شفافیت پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ کیونکہ یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ رقم متاثرین سے زیادہ بدعنوانی یا لوٹ مار کی نذر ہوجاتی ہے۔

بہت سے لوگ انفرادی یا اجتماعی سطح پر سیلاب سے متاثر ین کی مدد کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں لیکن کچھ افراد لوٹ مار کی نیت سے کام کرتے ہیں ۔ لوگ حکومتوں سے زیادہ انفرادی سطح پر یا خیراتی اداروں کے ذریعے مدد کرنے کو تیار ہوتے ہیں اورکچھ لوگ براہ راست پہنچ کر مدد کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن کوئی ادارہ جاتی نظام نہیں جو ان سب کو ایک نظام کے تحت لائے ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم مجموعی طور پر حکمرانی کا عدم شفافیت پر مبنی نظام ہے۔ سیاسی حکومتیں ہوں یا فوجی حکومتیں کسی نے بھی دنیا میں حکمرانی کے نظام کی اصلاح میں جدید طریقوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہی پرانے اور فرسودہ خیالات او رتجربات کی بنیاد پر ان حادثوں سے نمٹنے کی پالیسی ہمارے لیے مزید نئے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

یہ بھی دیکھنے کو ملا کے سوائے جماعت اسلامی کے الخدمت، تحریک لبیک، اخوت اور دعوت اسلامی کے تنظیمی ساتھیوں کا نیٹ ورک ہمیں مثالی کام کرتا ہوا نظر آیا۔لیکن قومی اور علاقائی بڑی سیاسی جماعتوں کی عدم فعالیت ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی نظام او رسیاسی جماعتوں کی کمزوری کا پہلو بھی حادثات میں مقامی لوگوں کی مشکل میں اور زیادہ اضافہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔خیراتی یا سماجی تنظیموں کا نیٹ ورک بھی کمزور ہے یا ریاستی اداروں نے ان کی فعالیت کو بھی مختلف پابندیوں کی صورت میں کمزور کردیا ہے۔ہم نے ان سماجی تنظیموں کی مدد سے اپنے لیے زیادہ بہتر مواقعوں کو پیدا کرنے سے گریز کیا جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں ۔ اسی طرح میڈیا کو بھی اپنی ذمے داری کا احتساب کرنا چاہیے کہ وہ کیونکر اہم مسائل کو نظرانداز کرکے غیر ضروری مسائل پر توجہ دے کر متاثرین کے لیے اور زیادہ مشکل پیدا کرتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔