زندگی بے معنی و بے مقصد نہیں ہے

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 2 ستمبر 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

’’ماں میں پورے کینیڈا کو دوڑ کر عبور کروں گا چاہے اس کوشش میں جان کی بازی ہی کیوں نہ ہار جاؤں ‘‘ یہ الفاظ ہیں ،اس نوجوان کے جس نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بنا یا بلکہ اپنے آہنی عزم سے کینیڈا کے گلی کوچوں میں دوڑ کر نئی تاریخ رقم کی ۔ عزم و ہمت کا استعارہ قرار دیے جانے والے اس نوجوان کو دنیا ’’ٹیری فوکس‘‘کے نام سے جانتی ہے جو کینیڈا کے صوبے ’’ مینی ٹوبا ‘‘ کے علاقے ’’ونی پگ ‘‘ میں 28 جولائی 1958میں پیدا ہوا۔ ٹیری کا بچپن عام بچوں کی طرح شرارتوں اور شو خیوں سے بھرا تھا ،یہی وجہ تھی کہ وہ اسکول اور بعد ازاں کالج لیول پر بیس بال ، باسکٹ بال ، رگبی اور فٹ بال کا ایک بہترین کھلاڑی تھا جب وہ محض 18سال کا تھا تو اسے ہڈیوں کے کینسر نے آلیا چھ ماہ بعد اس کی ایک ٹانگ گھٹنے سے چھ انچ اوپر تک کاٹنا پڑی تاکہ مرض جسم کے باقی حصوں تک نہ پہنچے ۔

اس کے بعد ٹیری کو کیمو تھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزر نا پڑا ۔ علاج کے دوران ٹیری کا واسطہ کینسر سے متاثرہ سیکڑوں مریضوں سے پڑا ،جن میںاکثریت بچوں کی تھی اس دوران ٹیری نے مشاہدہ کیا کہ اگر کینسر کے شعبے میں ریسرچ کا دائرہ کا ر بڑھا یاجائے تو اس موذی مرض سے مقابلہ کرنے میں آسانی رہے گی ۔

یہ ہی وہ وقت تھا جب ٹیری نے معذوری کے باوجود پورے کینیڈا میں دوڑنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد کینسر سے متعلق آگاہی اور ریسرچ کے مد میں فنڈریزنگ تھا ،اس نے اپنی اس دوڑ کو ’’ میرا تھن آف ہوپ ‘‘ کا نام دیا ۔ابتداء میں ٹیری کی فیملی اور دوستوں اور معا لجین نے اس منصوبے کی مخالفت کی ۔ تاہم ٹیر ی یہ جانتے ہوئے بھی کہ مصنوعی ٹانگ کی ناقابل برداشت درد اور تکلیف سارے سفر میں اس کے ساتھ رہے گی، یومیہ بیالیس کلو میٹر فاصلے کے ساتھ جو انٹرنیشنل میرا تھن کا معیاری فاصلہ ہے کل آٹھ ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر نے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔

ٹیری نے اپنی مہم کاآغاز اپریل 1980 میں نیو فا ؤنڈ لینڈ صوبے کے شہر سینٹ جان سے کیا ۔ مہم کے آغاز میں لوگوں کی طرف سے ملنے والا ریسپانس انتہائی مایوس کن رہا لیکن ٹیری نے ہمت نہ ہاری اور آہستہ آہستہ فنڈ ریزنگ مہم کامیابی کی طرف گامزن ہوگئی ۔ ٹیری اپنے سفر کے دوران نوااسکو شیا ، کیو بک ، اونٹار یو جیسے صوبوں سے گذرا ۔ مصنوعی ٹانگ کے علاوہ لوگوں کی طرف سے عدم دلچپسی جیسے مسائل بھی ٹیری کی ہمت نہ توڑ سکے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی طرف سے ملنے والے ریسپانس سے ٹیر ی کے لیے اندازہ لگا نا مشکل نہ تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کا میاب ہوچکاہے ۔ ٹیری کی چندہ مہم کی مقبولیت کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ میڈیا کا کوئی دن ٹیر ی کی خبر سے خالی نہ جاتا تھا ۔اور وہ ٹیر ی جسے ابتدا ء میں چند ڈالر ز ہی مل پاتے تھے ۔

اب وہ دن میں ہزاروں ڈالرز عطیات کے طورپر وصول کر رہا تھا ۔ مسلسل دوڑنے کی وجہ سے اب ٹیر ی کی حالت خراب رہنے لگی تھی لوگوں کے منع کرنے کے باوجود ٹیر ی نے اپنی مہم جاری رکھی ۔ یہ اگست کے آخری ہفتے کی بات تھی جب ٹیر ی کو سینے میں درد کی شکایت ہوئی ۔ یکم ستمبر کو انٹار یو صوبے کے علاقے تھنڈر ے میں دوڑتے ہوئے ٹیر ی کو دمے کا شدید اٹیک ہوا جس کے بعد اسے قریبی اسپتال لے جا یا گیا ۔ گزشتہ روز ایک پریس کا نفر نس میں ٹیر ی نے یہ افسو س ناک خبر سنائی کہ اس کا کینسر پھیپھڑوں تک پھیل گیا ہے جس کے سبب فی الحال وہ یہ مہم جاری نہیں رکھ پائے گا ۔

اس وقت تک ٹیر ی 17لاکھ ڈالرز جمع کرچکا تھا ۔ ٹیری جانتا تھا کہ اس کی جمع کردہ رقم ہدف سے کم ہے لیکن عوام نے اسے مایوس نہیں کیا اس کی بیماری کے اگلے ہی ہفتے مزید ایک کروڑ ڈالر ز کے عطیات جمع ہوگئے ، جس میں مختلف صوبائی حکومتوں نے بھی حصہ ڈالا ۔ اپریل 1981تک عطیات کی رقم دو کروڑ چالیس لاکھ ڈالر ز تک پہنچ گئی۔ یہی ہدف ٹیری کا خواب تھا ۔اس دوران ٹیری کا علاج جاری رہا ، دوران علاج اس کے مداح اسے ڈاک کی صورت میں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں نیک خواہشات کا پیغام بھیجتے تھے ٹیری کی مقبولت کا یہ عالم تھا کہ کینیڈا کے کسی بھی کونے سے لکھے گئے خط پر اگر صرف ’’ ٹیری فوکس کینیڈا ‘‘ درج ہوتا تو وہ بنا کسی رکاوٹ کے اس تک پہنچ جاتا۔ انسانی تاریخ کا یہ عظیم کردار 28جون 1981 کو موت کے ہاتھوں شکست کھا گیا ۔

ٹیری کی وفات پر کینیڈا پر چم سر نگوں رہا ۔ جب کہ کینیڈین وزیراعظم نے ایوان سے خطاب کے دوران ٹیری کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ’’ قوموں کی زندگی میں بہت کم ایسے مواقع آتے ہیں جب تمام قوم کسی ایک شخص کی بلند حو صلگی او رجوان ہمتی کے باعث اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت پر بھی ایک ہوجائے ٹیری فوکس ایک ایسا نوجوان تھا جس نے ہم سب کو انسانی جذبے اور ہمت کے ذریعے پریشانیوں پر فتح حاصل کر نے کا طریقہ سمجھا دیا ‘‘ ۔27جون 1981 کو کینیڈا کے محکمہ ڈاک نے روایت کے برعکس ٹیر ی فو کس کا یاد گار ٹکٹ جاری کیا۔ واضح رہے روایت کے مطابق کینیڈا میں زندہ شخص کا یادگاری ٹکٹ جاری نہیں کیا جاتا۔ اس وقت کینیڈا میں لگ بھگ 32 سٹرکیں، ہائی ویز اور راستے ٹیری کے نام سے منسوب ہیں اسکولوں اور لائبریوں کے علاوہ ایک درجن سے زائد عمارتیں ٹیری فوکس کے نام سے پہنچانی جاتی ہیں جس میں وینکور شہر میں واقع ’’ فوکس کینسر ریسرچ انسٹی ٹیو ٹ ‘‘بھی شامل ہے ۔

کینیڈا میں ٹیری فوکس کے سات مجسمے بھی ایستادہ کیے گئے ہیں ۔1999میں کینیڈا کے ایک قومی سروے میں عوام نے اسے ’’عظیم ترین ہیرو ‘‘ کا درجہ دیا تھا ۔ اس کی مصنوعی ٹانگ اور اس کے جوتے برٹش کو لمبیا کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں ۔ البرٹ آئن اسٹائن کہتا ہے ’’ اگر آپ خوشگوار زندگی گزار نا چاہتے ہیں تو اسے کسی مقصد سے جوڑیں ۔ لوگوں یا چیزوں سے نہیں‘‘۔ جب کہ ہر من ہیس نے کہا تھا ’’ ہم ہر گام پر قتل کررہے ہوتے ہیں صرف جنگوں ، فسادات اور قتل گاہوں میں ہی نہیں ہم جب اپنے اردگرد پھیلی غربت ، محرومی اور لاچاری پر آنکھیں بندکرتے ہیں تب بھی ہم قتل کررہے ہوتے ہیں اس طرح جب ہم زندگی کا احترام نہیں کررہے ہوتے، کسی کو حوصلہ اور راستہ نہیں دے رہے ہوتے ، بے حس بنے رہتے ہیں یہ سب محض زندگی کی تو ہین ہی نہیں بلکہ ایک سیدھا سا دا قتل ہوتاہے۔ ‘‘ دنیا کی سب سے بڑی ایجاد کوئی اور نہیں بلکہ سوچ ہے اسی سوچ کی دریافت نے انسانی زندگی کی یکسر بدل کے رکھ دی ۔

جس نے سوچنے کے عمل کا آغاز کیا تھا وہ انسانوں اور انسانیت کا سب سے بڑا محسن تھا کیونکہ انسان سوچنے کی وجہ ہی سے حیوان سے انسان بنا۔ پھر اس نے کائنات کے بارے میں چھان بین کاآغاز کیا جیسے جیسے وہ کائنات کے بارے میں کھو ج لگا تا چلا گیا۔ ویسے ویسے اسے زندگی کے مقصد و مطلب کے متعلق آگاہی ملنا شروع ہوگئی۔ چاند یا مریخ پر جانا آسان ہے لیکن اپنے اندر کا سفر انتہائی دشوار کن اور کٹھن ہوتاہے کیونکہ وہاں اس کی جگہ جگہ ملاقات حیوان سے ہوتی رہتی ہے ۔ جسے ہر انا انتہائی مشکل ترین مرحلہ ہوتاہے ۔ یہ لڑائی اس کو روزلڑنی پڑتی ہے ۔

روز جینا اور مرنا پڑتا ہے آپ اپنی زندگی کے اکلوتے مالک ہیں اگر آپ ایک عام سی بے معنی زندگی گزار نا چاہتے ہیں تو دنیا کا کوئی شخص آپ کو ایسا کرنے سے نہیں روکے گا اگر آپ دنیا کی آبادی میں اپنا شمار صرف نمبروں میں کرانا چاہتے ہیں 20کھرب ایک یادو تو آپ کی مرضی لیکن اگر آپ اپنی زندگی کو ٹیری فوکس کی طرح ایک معنی دینا چاہتے ہیں تو پھر دیر کس بات کی ۔ الیکمسٹ ناول میں پاؤلو کوہیلہو لکھتا ہے’’ ہمیں یہ خوف ہوتاہے کہ ہمارے پاس جو ہے و ہ ضایع نہ ہوجائے چاہے وہ ہماری زندگی ہو یاہمارا مال و اسباب اور جائیداد لیکن یہ خوف اس وقت جاتا رہتا ہے اگرہم یہ سمجھ لیں کہ ہماری زندگی کی کہا نیاں اوردنیا کی تاریخ ایک ہی ہاتھ سے لکھی ہوئی ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔