ہانگ کانگ کی کانپیں ٹانگ اٹھیں

سلیم خالق  ہفتہ 3 ستمبر 2022
سال کی یہ پہلی ٹی ٹوئنٹی فتح ہے،اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو اسے رکنا نہیں چاہیے لیکن اس مرحلے میں سخت مقابلے ہونے ہیں۔ فوٹو؛ اے ایف پی

سال کی یہ پہلی ٹی ٹوئنٹی فتح ہے،اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو اسے رکنا نہیں چاہیے لیکن اس مرحلے میں سخت مقابلے ہونے ہیں۔ فوٹو؛ اے ایف پی

شارجہ کرکٹ گراؤنڈ سے میری پرانی یادیں وابستہ ہیں، میں زندگی میں پہلی بار ملک سے باہر یہیں آیا تھا، پہلی انٹرنیشنل سیریز بھی اسی وینوپر کور کی، جب بھی یہاں آؤں تو پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔

اپنے استاد منیر حسین مرحوم کا چہرہ بھی نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے جو مجھے یو اے ای لے کر آئے تھے، البتہ کوریج کے لحاظ سے یہ میرے پسندیدہ وینیوز میں شامل نہیں ہے،شدید گرمی میں کھلی فضا میں بیٹھ کر سب کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں، اس بار میں پی سی بی کا شکرگذار ہوں جنھوں نے ایشیا کپ کیلیے ایکریڈیشن کارڈ نہیں بننے دیا اور مجھے آزادی مل گئی کہ جس انکلوژر میں چاہوں خود ٹکٹ کا انتظام کر کے بیٹھوں۔

دبئی کے معروف صحافی عبدالرحمان رضا نے مجھے ہوٹل سے پک کیا اور ہم شارجہ کرکٹ گراؤنڈ پہنچ گئے، باہر ہر طرف پاکستانی جھنڈے تھامے شائقین نظر آ رہے تھے، گرم موسم کا بھی انھوں نے اثر نہیں لیا اور اپنے محبوب کرکٹرز کو ایکشن میں دیکھنے کیلیے چلے آئے، البتہ چونکہ ہانگ کانگ سے میچ تھا اس لیے تمام اسٹینڈز نہیں بھر سکے، کئی خالی بھی رہے، اس کے باوجود شائقین کا جذبہ دیدنی تھا وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے، دبئی میں ڈی جے گانوں سے ماحول بنائے رکھتا ہے، یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔

میچ شروع ہونے سے قبل ایشیا کپ کی ٹرافی گراؤنڈ میں رکھی گئی، پھر دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے، ہانگ کانگ کو گراؤنڈ میں نہ ہونے کے برابر سپورٹ ملی، گنتی کے چند لوگ بھی کھلاڑیوں کے عزیز واقارب ہی تھے، ویسے بھی یہ ٹیم زیادہ تر پاکستانی کرکٹرز پر ہی مشتمل ہے، میچ سے قبل تو ہانگ کانگ کے اٹک میں پیدا ہونے والے کپتان نزاکت خان، بابر اعظم کے پاس بھی پہنچ گئے تھے کہ ’’کچھ ٹپس ہمیں بھی دو‘‘ مگر لگتا ہے ان مشوروں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پاکستانی اننگز کا جب آغاز ہوا تو جلد ہی ٹیم بابر اعظم کی وکٹ گنوا بیٹھی، اس وقت سناٹا چھا گیا۔

شائقین کی بڑی تعداد کپتان سے بڑی اننگز کی آس لگائے بیٹھی تھی مگر وہ ایک بار پھر ناکام رہے جس سے سب کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، جب بابر واپس پویلین آ رہے تھے تو اوپر سے بعض افراد نے آواز لگا کر بھی پوچھا کہ ’’بوبی کیا ہو گیا ہے،رنز کیوں نہیں بن رہے‘‘البتہ مجھے اس میں کوئی فکر کی بات نہیں لگتی، بابر اعظم کی کلاس کے بیٹسمینوں نے توقعات کا معیار اتنا بڑھا لیا ہوتا ہے کہ چند میچز میں ناکامی پر بھی آؤٹ آف فارم سمجھا جانے لگتا ہے، کپتان کے والد ایسی باتوں سے خاصے اپ سیٹ ہو جاتے ہیں۔

گذشتہ دنوں انھوں نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کی، حسن علی میچ نہیں کھیل رہے تھے لیکن وہ جب کبھی ساتھی کھلاڑیوں کیلیے تولیہ یا پانی لے کر میدان میں جاتے تو مداح خوب شور مچاتے ، حسن بھی اپنے منفرد انداز سے انھیں جواب دے کر سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتے، گرمی کی وجہ سے بہت سے لوگ پسینے میں شرابور تھے لیکن اپنی ٹیم سے اچھے کھیل کی امید نے انھیں نشستوں سے اٹھنے نہیں دیا۔

پاکستانی کھلاڑیوں نے ابتدا میں سست بیٹنگ کی جس سے لوگ ناخوش نظر آئے لیکن بعد میں خوشدل شاہ کی پاور ہٹنگ نے صورتحال بہتر بنا دی، خاص طور پر جب آخری اوور میں انھوں نے چار چھکے لگائے تو شارجہ گراؤنڈ میں اتنا شور مچا کہ کیا بتاؤں، رضوان نے بھی بعد میں ڈاٹ بالز کا ازالہ کر دیا لیکن انھیں اپنے اسٹرائیک ریٹ کو شروع سے ہی بلند رکھنا ہو گا کیونکہ ضروری نہیں کہ مضبوط ٹیمیں بھی سست آغاز کے بعد اننگز کو استحکام دینے کا موقع دیں۔

میچ کے دوران ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جو مجھے ’’کرکٹ پاکستان‘‘ کے حوالے سے جانتا تھا،وہ انگلینڈ سے خاص طور پر ایشیا کپ کے میچز دیکھنے یو اے ای آئے تھے، کراچی ایئرپورٹ پر بھی ایسے ہی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی تھی، دوران میچ مجھ سے 2 صاحب ملنے آئے ، یہ دونوں عبدالرحمان رضا کے دوست اویس قریشی اور راجہ عابد تھے،ان کو کرکٹ کی بڑی نالج ہے، دونوں کا یہی کہنا تھا کہ اگر پاکستان کو بھارت سے جیتنا ہے تو ٹاپ آرڈر خصوصا رضوان کو شروع سے ہی جارحانہ انداز میں کھیلنا ہوگا۔

شارجہ کا گراؤنڈ شہر کے درمیان میں ہی واقع ہے، بعض اسٹینڈز کے اندر سے ہی باہر کی ٹریفک نظر آتی ہے، روڈ کے پار بلڈنگ سے لوگ مفت میں کرکٹ سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں، ایسے ہی کچھ شائق ایک بلڈنگ کے اوپر سے موبائل فون ٹارچ روشن کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے، ہانگ کانگ کی بیٹنگ جب شروع ہوئی تو ایسا لگا جیسے کسی میچ کی جھلکیاں دیکھ رہے ہوں، بیٹسمینوں کے آنے جانے کا سلسلہ لگا رہا اور10.4 اوورز میں38 رنز پر ہی اننگز کا اختتام ہو گیا، وقت سے بہت قبل میچ ختم ہوا۔

شائقین اتنی زبردست کارکردگی پر خوشی سے بے قابو نظر آئے، اسپنرز شاداب خان اورمحمد نواز کی سب ہی تعریفیں کر رہے تھے،ایک صاحب کو یہ کہتے بھی سنا کہ ’’ہانگ کانگ کی کانپیں ٹانگ اٹھیں‘‘اس ٹیم نے بھارت کیخلاف بہتر بیٹنگ کی تھی لیکن پاکستان سے میچ میں تو ایسا لگا جیسے چھوٹے بچے کھیل رہے ہوں، کوئی10 رنز بھی نہ بنا سکاگرین شرٹس نے سپرفور میں شامل ہو کر پہلا مقصد تو حاصل کر لیا اب اتوار کو دوبارہ بھارت کے چیلنج کا سامنا ہوگا، گوکہ چھوٹی ٹیم کے خلاف بڑی کامیابی ملی مگر اس سے بھی کھلاڑیوں کے حوصلے بہت بلند ہو گئے ہیں۔

سال کی یہ پہلی ٹی ٹوئنٹی فتح ہے،اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو اسے رکنا نہیں چاہیے لیکن اس مرحلے میں سخت مقابلے ہونے ہیں، بھارت کے بعد افغانستان کی ٹیم بھی منتظر ہوگی،یہ بہت اچھی فارم میں نظر آ رہی ہے، اسے زیر کرنا آسان نہیں ہوگا،سری لنکا نے بھی بنگلہ دیش کو سخت مقابلے میں مات دے کر اپنی فائٹنگ اسپرٹ کا اظہار کر دیا، ٹورنامنٹ میں اب کسی غلطی کی گنجائش نہیں، اگر گرین شرٹس ٹرافی جیت گئے تو ورلڈکپ سے قبل اعتماد آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے گا، امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔