آئی ایم ایف کی کنٹری رپورٹ

ایڈیٹوریل  اتوار 4 ستمبر 2022
پاکستان کا امیر طبقہ جس میں صنعت کار، کاروباری حضرات، بڑے بڑے جاگیردار اور دیگر امیر طبقے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ فوٹو فائل

پاکستان کا امیر طبقہ جس میں صنعت کار، کاروباری حضرات، بڑے بڑے جاگیردار اور دیگر امیر طبقے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ فوٹو فائل

آئی ایم ایف نے پاکستان کنٹری رپورٹ جاری کر دی ہے، اس رپورٹ میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ مالی سال 2022 میں پاکستان کی معاشی سرگرمیاں مضبوط رہی ہیں۔

فیول سبسڈی کا خاتمہ، ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا جس سے حکومت کو مالی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے کیونکہ اس کے ریونیو میں اضافہ ہوگا۔البتہ آئی ایم ایف نے انتباہ کیا ہے کہ خوراک، ایندھن کی عالمی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہوا اور پاکستان میں آیندہ سال بھی مہنگائی کی شرح برقرار رہے گی۔

رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے ملک میں مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں، پاکستان کنٹری رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف قرض پروگرام میں طے کیے گئے اہداف اور وعدوں سے انحراف کیا جس سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔

تحریک انصاف کی حکومت نے وعدہ خلافی کرکے پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں کمی کی، ٹیکس چھوٹ دینے سے مالی اور کرنٹ اکاونٹ خسارے میں اضافہ ہوا، زرمبادلہ ذخائر اور روپے کی قدر گرنے سے پاکستان میں مہنگائی بڑھ گئی۔ زرمبادلہ ذخائر، پرائمری بجٹ خسارے سمیت 5 اہداف پورے نہیں کیے گئے، اس کے علاوہ سات اسٹرکچرل اہداف پر بھی عمل نہیں کیا گیا،گزشتہ سال کشیدہ سیاسی ماحول کے دوران کئی وعدوں اور اہداف پر عمل نہیں کیا گیا ہے، بیرونی پوزیشن غیر مستحکم اور کرنٹ اکاونٹ خسارے میں اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں شہباز شریف حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے قرض پروگرام دوبارہ ٹریک پر لانے کے لیے ٹھوس پالیسی اقدامات کیے ہیں، رپورٹ میں آئی ایم ایف نے خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافے کو مہنگائی بڑھنے کی اہم وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح 20 فیصد رہنے کی توقع ہے، مالی سال 2022 میں پاکستان کی معاشی سرگرمیاں مضبوط رہیں، فیول سبسڈی کا خاتمہ، ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔

حکومت نے مالیاتی شعبے کے استحکام کے لیے اقدامات کی یقین دہانی کرا دی ہے، آئی ایم ایف نے مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ برقرار رکھنے پر زور دیا ہے، سماجی تحفظ اور توانائی شعبے کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا گیا، آئی ایم ایف نے ٹیکس ریونیو اور زرمبادلہ ذخائر میں اضافے پربھی زور دیا ہے، قرض پروگرام کی مدت میں جون 2023 تک توسیع کر دی گئی، اس سے ضروری بیرونی فنانسنگ کے حصول میں مدد ملے گی، پالیسی اصلاحات کے باوجود قرض پروگرام کو غیر معمولی خطرات کا سامنا ہے،رواں سال پاکستان کی معاشی شرح نمو ساڑھے 3 فیصد جب کہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.4 فیصد تک رہنے کی توقع ہے، اس کے علاوہ جاری کھاتوں کا خسارہ ڈھائی فیصد تک رہ سکتا ہے۔

پاکستان کی نئی مخلوط حکومت نے پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی 50 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے جب کہ جی ایس ٹی بحال کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کے تحت بجلی اور گیس ٹیرف میں بروقت اضافے پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ گردشی قرضے میں کمی اور ٹیکس ریونیو بڑھایا جائے۔

قرض پروگرام کے تحت تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ عوام پر منتقل کیا جائے گا، نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم یا ٹیکس چھوٹ نہیں دی جائے گی، ڈیٹا کے استعمال سے زیادہ آمدن والے 3 لاکھ افراد کو پرنسل انکم ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس سال معاشی شرح نمو 3.5 فیصد جب کہ مہنگائی 20 فیصد تک رہے گی۔ اصلاحات کے باوجود قرض پروگرام کے لیے خطرات برقرار ہیں۔

آئی ایم ایف کی کنٹری رپورٹ ملکی معیشت کے حوالے سے مثبت پیش رفت کی عکاسی کرتی ہے۔ بلاشبہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کی وجہ سے ملک کے متوسط طبقے اور نچلے طبقے کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے سفید پوش طبقے پر اس کی جیب سے زیادہ وزن پڑ گیا ہے، گو وزیراعظم شہباز شریف نے 300 یونٹ تک بجلی صرف کرنے والے صارفین کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج ختم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے باوجود نچلے طبقے کے لیے مزید ریلیف کی ضرورت ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی متحمل نہیں ہو سکتی تو اسے عوام پر ڈالے گئے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے کوئی اور میکنزم بنانا چاہیے، جیسے عمومی استعمال کی ادویات پر جو بھی ٹیکس عائد ہیں انھیں ختم کر کے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح صابن، ککنگ آئل پر ٹیکسوں میں کٹوتی کر کے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔

متوسط طبقے کے نجی اسکولوں کے مالکان کے ساتھ بیٹھ کر فیسوں میں کمی کا فارمولا بنایا جا سکتا ہے۔ آیندہ بجٹ تک ملک بھر کے تمام منتخب ایوانوں کے رکن اپنی تنخواہ اور مراعات ترک کر دیں تو یہ پیسہ بھی مختلف ضروری مدوں میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم اور وزراء وغیرہ کا غیرملکی دورے پر جانا ملک کے لیے بہت ضروری ہے تو مختصر سے مختصر وفد کے ساتھ جایا جائے۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جمعے کو کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے تحت ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے موضوع پر منعقدہ سیشن سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ سیلاب کی صورت حال کے باعث عوامی ترقیاتی پروگرام کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے صرف کردیا ہے جس کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران معیشت سست روی کا شکار ہوگی۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال کے دوران حکومت نے ترقیاتی پروگراموں کی مد میں 800 ارب ڈالر مختص کیے تھے اور رواں مال سال کے لیے شرح نمو کا ہدف 5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت کے مختلف شعبوں میں روزگار کے مواقع میں کمی آئے گی۔ سیلاب زدگان کی امداد اور ان کی بحالی یقینا اہم ترین کام ہے۔ اس معاملے میں اگر ملک کی تمام رفاحی اور امدادی تنظیمیں ایک اتحاد بنا کر حکومت کے ساتھ سیلاب متاثرین کی بحالی کا پروجیکٹ شروع کریں تو شاید حکومت کو ترقیاتی بجٹ سیلاب متاثرین پر نہ لگانا پڑے کیونکہ پاکستان کے عوام بیسیوں تنظیموں کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے نقد رقم، کھانے پینے کی اشیاء اور کمبل وغیرہ دے رہے ہیں۔ یقینا اس کی مالیت اربوں میں ہو گی۔ اگر یہی امداد ایک جگہ پول ہو کر متاثرین تک پہنچے تو اس رقم کے ضیاع کا خطرہ کم ہو جائے گا۔ بہرحال وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے عوام کو سستی بجلی کی نوید سنادی، دیکھنا یہ ہے کہ وہ بجلی کی قیمت کب کم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے ٹیکس کے نفاذ میں غلطیاں ہوئی ہیں تاہم اب ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے 300 یونٹ والے فیول چارجز ختم کرنے کے فیصلے کا اطلاق ملک بھر میں ہوگااوروزیر اعظم کے 300 یونٹ فیول چارجز ختم کرنے کے فیصلے سے کے الیکٹرک مستثنیٰ نہیں ہے،وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے آئی بی اے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آئی بی اے ڈاکٹر سید اکبر زیدی کے ہمرہ طلبا کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگلے دو ماہ کے دوران انٹرنیشنل سطح پر فیول چارجز کم ہوںگے تو ہم بھی عوام کو سستی بجلی دینگے۔

ہماری مجبوری ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر لیویز بڑھائی جائیں گی فروری سے اپریل تک فارن ریزیرو 5ارب ڈالر تک کم ہوا،امپورٹ ایکسپورٹ میں ہمارا 15فیصد ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17اعشاریہ 5ارب ڈالر ہے،مالیاتی خسارہ 5ہزار ارب روپے کا ہے،عمران خان کے دور میں 20ہزارارب کا قرض بڑھااگرغریب آدمی کو امیر کریں گے تو معیشت چلے گی،امیر آدمی تو امیر ہوکر امپورٹ بڑھاتا ہے،حکومت کے پاس 13 مہینے ہیں، حکومت کی سوچ ہے کہ اگلے 6 سال تک رہیں گے، انشا اللہ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے۔آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے پاس جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

بہرحال اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ سالانہ بنیادوں پرمہنگائی کی شرح ساڑھے پینتالیس فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ ملک کی معیشت کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات ختم ہو گئے ہیں لیکن مہنگائی جس رفتار سے اوپر جا رہی ہے، اس کے اثرات بھی اچھے نہیں ہوں گے۔ اس وقت سیلاب زدگان کے لیے پاکستان کے عوام نے آگے بڑھ کر مدد کی ہے۔

اب ضرورت یہ ہے کہ پاکستان کا امیر طبقہ جس میں صنعت کار، کاروباری حضرات، بڑے بڑے جاگیردار اور دیگر امیر طبقے اپنے حصے کا کردار ادا کریں تاکہ مہنگائی کی شدت کو کم کیا جا سکے اور ملکی معیشت بھی ترقی کی جانب سفر جاری رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔